اللہ کو پہچانئے
مکمل کتاب : ذات کا عرفان
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6553
بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا
معزز سامعین!
یوں تو ہر آدمی یہ کہتا ہے۔ آپ تشریف لائے۔ ہمیں بڑی خوشی ہوئی۔ یہ ایک طریقہ کار بھی ہے۔ خوشی تو بہرحال ہوتی ہے مگر مجھے اس وقت جو محسوس ہوا وہ یہ ہے کہ ابھی زمین بنجر نہیں ہوئی، ابھی زمین کے اوپر ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کی آواز کو سننا چاہتے ہیں اور اللہ کی آواز کو سن کر اللہ کی قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ آپ اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے وقت نکال کر یہاں نہ آتے۔
ماشاء اللہ! آپ تین چار گھنٹوں سے بیٹھے ہوئے ہیں اور جس نے جو کہا، وہ آپ نے سنا۔ اگر آپ کے اندر تلاش نہ ہوتی، اللہ کی طلب نہ ہوتی تو آپ اتنی دیر یہاں نہ ٹھہر سکتے۔ یہ اللہ کا بڑا کرم ہے، انعام ہے کہ دھرتی پر اللہ کی زمین پر ابھی ایسے لوگ موجود ہیں کو جو ابھی یہ سمجھنا چاہتے ہیں۔
کہ ہم پیدا کیوں ہوئے؟
پیدا ہونے سے پہلے ہم کہاں تھے؟
اور جب پیدا ہو گئے تو ایک معینہ مدت یہاں رہنے کے بعد ہم کہاں چلے جاتے ہیں؟
لوگ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ انسان میں اور حیوانات میں بنیادی فرق کیا ہے؟
عقل و شعور والے لوگ جب انسانی زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو انہیں یہ بات نظر آتی ہے کہ اگر انسانی زندگی کا مقصد کھانا پینا، سونا جاگنا، گھر بنانا اور معاش کے لئے جدوجہد کرنا ہی ہے تو یہ سارے کام ایک بکری بھی کرتی ہے، ایک گائے بھی کرتی ہے اور ایک کبوتر بھی کرتا ہے۔
اگر انسان اور حیوان میں کوئی امتیاز ہے تو وہ کیا ہے؟
پھر انسان یہ بھی سوچنا چاہتا ہے، سوچتا ہے اور سمجھنا چاہتا ہے کہ میری پیدائش کا مقصد کیا ہے؟ مجھے کیوں پیدا کیا گیا ہے؟
زمین پر پہلے سے یہ دنیا آباد تھی، شجر و انہار بھی موجود تھے، پرندے اور چوپائے بھی موجود تھے۔ پھر کیوں ایک نئی مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ وہ اس کا بھی جواب چاہتا ہے۔
اگر ہم مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ کی ہستی کا تذکرہ کریں اور اللہ تعالیٰ کو سمجھنا چاہیں کہ اللہ کی ہستی کیا ہے تو ہم ایک ہی بات کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی لامتناہی صلاحیتوں کا ایک سمبل ہے۔ اتنی صلاحیتیں، اتنی طاقتیں کہ ان کا شمار دنیا میں نہیں ہے۔ وہ نسل کو بڑھانے اور نسل کو کم کرنے والا بھی ہے۔ زمین کے اندر نشوونما پیدا کرنے والا بھی ہے۔
اس دنیا کے اوپر جتنی بھی چیزیں آپ کو موجود نظر آتی ہیں ان میں ہر چیز کا وجود کسی نہ کسی صلاحیت کے ساتھ ہے۔ مثلاً درخت کا ایک بیج آپ زمین میں ڈالتے ہیں تو پہلے وہ چھوٹا سا پودا بنتا ہے۔ پھر اتنا بڑا درخت بن جاتا ہے کہ اس کے نیچے قافلے رکھتے ہیں اور دھوپ کی تمازت سے بچنے کیلئے اس کے سائے میں بیٹھتے ہیں۔
کہنے کی تو یہ بات ہے کہ آپ نے زمین میں ایک بیج ڈال دیا اور اس کا درخت بن گیا، لیکن اگر براہ راست بات کی جائے تو یوں کہیں گے کہ یہ درخت بیج کی صلاحیت ہے۔ بیج کے اندر جو صلاحیت تھی اس صلاحیت کا مظاہرہ درخت کی شکل میں ہو گیا۔ اتنا چھوٹا بیج خسخاش کے دانے سے بھی چھوٹا بیج زمین کے اندر آپ نے ڈالا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت بڑا درخت بن گیا۔ ربڑ کا درخت بن گیا ہم یوں کہیں گے کہ باجرے سے بھی چھوٹے بیج کی مائیکرو فلم ہے تو مائیکروفلم نے جب اپنے آپ کو ڈسپلے کیا یا زمین نے اسے ڈسپلے کیا تو وہ اتنا چھوٹا بیج جو آپ کی ہتھیلی میں ہزاروں کی تعداد میں آ جاتا ہے۔ وہ بیج ایک بہت بڑے درخت کی شکل میں سامنے آیا ، تو گویا اس چھوٹے سے بیج کے اندر اتنا بڑا درخت موجود تھا۔ یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ بیج کسی درخت کیلئے مائیکروفلم کے طور پر کام کر رہا ہے۔
اسی طرح جب ہم زمین کا تذکرہ کرتے ہیں تو زمین کے تذکرے میں یہی بات آتی ہے کہ زمین ایک ایسی صلاحیت کا نام ہے جس میں پانی کا دخل ہے۔ ہواؤں کا دخل ہے۔ پیٹرول کا دخل ہے۔ تیل کا دخل ہے اور دیگر معدنیات کا دخل ہے۔ یہ سب زمین کی صلاحیتوں کے نام ہیں۔ مثلاً زمین کی وہ صلاحیت جو لوہے کی شکل میں ہوتی ہے اس معمولی سی صلاحیت سے ہوائی جہاز بن جاتے ہیں۔ بحری جہاز بن جاتے ہیں۔ ریل اور موٹر گاڑیاں بن جاتی ہیں۔ بلڈنگیں بن جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جو کچھ ہے اس کا تعلق صلاحیت سے ہے، سورج بھی ایک صلاحیت ہے۔
سورج کے اندر ریز نہ ہوں۔ رنگ نہ ہوں تو دنیا میں کھیتی باڑی کا وجود ہی نہ رہے۔ کھانے کیلئے خوراک آپ کو نہیں ملے گی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کے اندر یہ صلاحیت اللہ تعالیٰ نے رکھ دی ہے کہ آپ کو رنگ فراہم کرے۔ آپ کے کھیتوں کو پکائے۔ آپ کے نظام صحت کو برقرار رکھنے کیلئے ایک اہم رول ادا کرے۔ سورج سے آپ کو روشنی ملے گی اور سورج کی روشنی سے آپ دن اور رات کی صلاحیتوں کا اندازہ کر سکیں گے۔
سورج ایک صلاحیت ہے سورج کا مطلب ہوا دن، دن ایک صلاحیت ہے۔ تو دوسری صلاحیت رات ہے۔ جب ہم دن کی صلاحیت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ہمارا ہر قدم محدود اور مفید نظر آتا ہے۔ ہم دو قدم بھی اگر چلیں گے تو ان دو قدم کیلئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم Spaceکی محتاجی کو تسلیم کریں۔ اسپیس نہیں ہو گی تو دو قدم نہیں اٹھیں گے اور دو قدم اٹھانے میں وقت کی پابندی بھی ہمارے لئے ضروری ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دن اور رات کی جو حرکات و سکنات ہیں وہ تابع ہیں دن اور رات کی صلاحیتوں کے، تو دو صلاحیتیں آپ کے پاس آ گئیں۔
دن اور رات!
اب جب ہم دن کے حواس کا کھوج لگاتے ہیں تو ہمارے اوپر زمانیت و مکانیت (ٹائم اینڈ سپیس) کا غلبہ ہوتا ہے اور ہم کسی بھی طرح اس غلبے کو توڑ نہیں سکتے لیکن جب ہم رات کے حواس کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہم ٹائم اور اسپیس دونوں سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال آپ کا خواب دیکھنا ہے۔ خواب کی حالت میں آپ میلوں میل سفر کرتے ہیں اور جب جاگتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ وہیں بستر پر تھے۔ ایک منٹ بھی نہیں گزرا آپ لندن سے لاہور بھی ہو آئے اور داتا صاحب کے مزار پر فاتحہ بھی پڑھ کر آ گئے۔
پھر دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ
وہ زندے کو مردے سے نکال لیتا ہے اور مردے کو زندے سے۔ (سورۃ روم -19)
يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ
ہم رات دن میں داخل کرتے ہیں اور دن کو رات میں۔ (سورۃ الفاطر -13)
یہ رات اور دن جو ہیں یہ انسان کے اندر دو صلاحیتیں ہیں۔ دو حواس ہیں اور یہ دونوں صلاحیتیں، دو حواس کوئی الگ الگ یونٹ نہیں ہیں پھر ایک ایسی کوئی چیز ہے جس کے اوپر یہ دونوں حواس چپکے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ یٰسین میں فرماتے ہیں:
وَآيَةٌ لَّهُمْ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ
اور ایک نشانی ان کیلئے رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں۔ (سورۃ یسین -37)
اب مطلب یہ ہوا کہ انسان جو ہے وہ دو صلاحیتوں سے مرکب ہے۔ ان دو صلاحیتوں میں بے شمار صلاحیتیں ذخیرہ ہیں، محفوظ ہیں۔
اب ان دو صلاحیتوں کو سمجھنے کیلئے وقت چاہئے اور وقت میرے پاس بہت کم ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں رکھی ہیں۔ روحانی نقطہ نظر سے جو روح کی آنکھ نظر آتی ہے وہ 72ہزار ہیں۔ یعنی 72 ہزار وہ صلاحیتیں ،جن کو روحانی لوگوں نے سمجھ لیا۔ دماغ میں بارہ کھرب خلیے کام کرتے ہیں اور ہر خلیہ ایک صلاحیت ہے۔ دماغ میں کام کرنے والے ان بارہ کھرب سیلز کی کارکردگی کا ابھی پوری طرح نہ تو روحانی لوگوں نے احاطہ کیا ہے اور نہ سائنسدانوں نے۔ روحانی لوگوں نے جن سیلز یا صلاحیتوں کا احاطہ کر لیا ہے وہ 72000 ہیں تو گویا ہر انسان کم از کم 72000 صلاحیتوں سے مرکب ہے۔ اور اگر وہ خود کو پہچان لے تو اپنے اندر مخفی ان 72000 صلاحیتوں سے آشنا ہو جائے گا جبکہ عام زندگی میں ، جن لوگوں کوجینیئس کہتے ہیں ان کے اندر 225 صلاحیتیں متحرک ہوتی ہیں۔ 225 سے زیادہ صلاحیتوں کا آدمی ابھی تک دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔ جو ان 225 صلاحیتوں کو سمجھ کر ان سے کام لے سکا ہو۔
انسان کے اندر موجود 72000 صلاحیتوں کو کام میں لانے کیلئے ان سے استفادہ کرنے کے لئے ان کی بنیاد پر گلیکسیز (کہکشانی نظام) کے اندر داخل ہو کر ان کے تخلیقی فارمولے معلوم کرنے کیلئے سورج کی روشنی ہے یا نہیں؟ اس کو معلوم کرنے کیلئے
زمین اپنے مدار پر کیوں گھوم رہی ہے؟
طولانی اور محوری گردش کیوں ہے؟
سات آسمان کیا ہیں؟
چھ دن کیا ہیں؟
عرش کیا ہے؟
کرسی کیا ہے؟
بیت المعمور کیا ہے؟
سدرۃ المنتہیٰ کیا ہے؟
حجاب عظمت کیا ہے؟
حجاب کبریا کیا ہے؟
حجاب محمود کیا ہے؟
مقام محمود کیا ہے؟
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام کیا ہے؟
تجلی کیا ہے؟
تدلی کیا ہے؟
اللہ کی صفات کیا ہیں؟
مشیت کیا ہے؟
اور خود اللہ کی ذات کیا ہے؟
یہ معلوم کرنے کیلئے انسان کو 72000 صلاحیتوں سے واقف ہونا ضروری ہے اور یہ بہتر ہزار صلاحیتیں معلوم کرنے کیلے ان بہتر ہزار صلاحیتوں کو ایکٹیو(متحرک) کرنے کیلئے روحانی لوگوں نے جو قاعدہ بنایا ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھ جنریٹرز نصب ہیں اور ہر جنریٹر منفی / مثبت کے قانون کے تحت چل رہا ہے۔ ان میں جو کرنٹ دوڑ رہا ہے اس کی ترتیب کچھ اس طرح ہے۔
ہم کہتے ہیں روشنی! روشنی تک ہمارے سائنسدان پہنچ گئے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ مسلمان ابھی تک تو اس کا یقین ہی نہیں کر رہا کہ غیر مسلم وہاں تک پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے ‘‘اورا’’ کی تصویر بھی لے لی ہے۔ یہی بات جب دو سو سال پہلے حضرت شاہ ولی اللہؒ نے فرمائی تھی تو لوگوں نے اس جرم میں ان کے ہاتھ توڑ ڈالے تھے۔
مسلمانوں نے فتوے صادر کئے کہ صاحب! قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا ہے کہ انسان کے اوپر ایک نور کا انسان ہوتا ہے۔ ایسی ایسی باتیں کرتا ہے اس جرم میں ان کے دونوں ہاتھ تڑوا دیئے گئے۔ آج دو سو سال کے بعد سائنسدان جب یہی بات کہتا ہے کہ اس جسم کے اوپر ایک اور جسم ہوتا ہے تو ہر آدمی آنکھیں بند کر کے اعتبار کر رہا ہے۔ مگر اس کے باوجود کہ انسان ‘‘اورا’’کا اعتبار کر رہا ہے اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا۔
بہرحال انسان کے اوپر روشنی کا بنا ہوا ایک اور انسان ہوتا ہے۔
اب روشنی ستاروں کی بھی ہے۔ روشنی چاند کی بھی ہے۔ روشنی سورج کی بھی ہے اور روشنی الیکٹرک سٹی کی بھی ہے تو یہ جو انسان کے ٹھوس جسم سے ۹ انچ کے فاصلے پر روشنی کا ایک اور انسان ہوتا ہے اس کی روشنی کس قسم کی روشنی ہے؟ یہ روشنی ایسی روشنی ہے جس میں کثافت بھی شامل ہوتی ہے۔ پھر اس آدمی کے اوپر ایک اور آدمی ہے وہ نور کا بنا ہوا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
اللہ نُور السموات وَالارض
یعنی زمین و آسمان اللہ کے نور سے بنے ہوئے ہیں۔
اس نورانی انسان کے اوپر ایک اور انسان ہوتا ہے، تجلی کا انسان ۔ تو انسان روحانی نقطہ نظر سے تین رخوں سے مرکب ہے ۔ ایک روشنی کا آدمی، ایک نور کا آدمی اور ایک تجلی کا آدمی۔
روشنی کا آدمی ‘‘اورا’’اس مادی دنیا میں چلتا پھرتا ہے۔ اس مادی دنیا میں دو رخوں پر سفرکرتا ہے۔ ایک ٹائم اینڈ اسپیس میں پابند اور دوسرا ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد۔ اس کی صورت یہ بھی ہے کہ جتنا آپ رفتار کو بڑھا لیں گے اسی مناسبت سے آپ کے ‘‘اورا’’کی رفتار بڑھ جائے گی۔ اس کی مثال ہوائی جہاز اور راکٹ کا سفر ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ جب آپ ہوائی جہاز میں بیٹھتے ہیں تو آپ کے ‘‘اورا’’کی رفتار وہی رہتی ہے جو اس سے قبل تھی۔
قانون یہ ہے کہ جس رفتار سے آپ سفر کریں اسی رفتار سے روشنی کا جسم اپنی رفتار کو اس کے قریب کر لے گا۔ یہ روشنی کا جسم وہی ہے جس سے ہم نئی نئی ایجادات کرتے ہیں۔ اس سے ہم لاسلکی نظام بناتے ہیں۔ اس آدمی کی صلاحیت سے ہم اجرام سماوی کو دیکھ سکتے ہیں اور اجرام سماوی میں یہ جو چاند، سورج، ستارے ہیں ان کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
دوسرا آدمی جو نور کا بنا ہوا ہے اس آدمی کی صلاحیت سے ہم آسمانوں کے اندر داخل ہو سکتے ہیں۔ سات آسمانوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ بیت المحمود کو دیکھ سکتے ہیں۔ جنت کو دیکھ سکتے ہیں۔
اب آسمان کیا چیز ہے؟ یہ بہت بڑا موضوع ہے اس کو سمجھانے کیلئے مجھے کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ درکار ہے۔
اب تیسرا آدمی جو ہے تجلی کا آدمی ہے۔ تجلی کے آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ اللہ کی آواز سنتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے اور یہ ساری باتیں جو میں آپ سے عرض کر رہا ہوں یہ قرآن پاک کی آیتوں میں موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جن کُن کہا تو ساری کائنات تخلیق ہو گئی۔ اس مرحلے میں روحیں بے آواز تھیں۔ نہ ان کے اندر سماعت تھی، نہ بصارت نہ یہ سنتی تھیں، نہ بولتی تھیں اور نہ محسوس کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان روحوں کے اندر جب حواس پیدا کرنا چاہے، اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ جن روحوں کو میں نے وجود بخشا ہے ان روحوں کا مجھ سے جو تعلق ہے وہ ان کو معلوم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان روحوں سے مخاطب ہو کر فرمایا۔
أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ
کیا میں تمہارا رب نہیں؟
جیسے ہی اللہ تعالیٰ کی آواز روح کے کانوں یا سماعت سے ٹکرائی۔ روح کے اندر قوت سماعت پیدا ہو گئی۔ اور فوراً سماعت جب انسان کے اندر گونجی۔ میں تمہارا رب ہوں، میں تمہارا رب ہوں؟ میں تمہارا رب ہوں؟ اس گونج میں، اس آواز میں روح کے اندر تجسس پیدا ہوا کہ کون ہے جو یہ کہہ رہا ہے؟ کہ میں تمہارا رب ہوں؟ اس تجسس کی بنیاد پر روح اس آواز کی طرف متوجہ ہوئی اور یوں روح نے اللہ کا دیدار کر لیا۔ اللہ کو دیکھتے ہی روح پکار اٹھی۔
قَالُوا بَلَىٰ
آپ کو دیکھ لیا ہے۔ ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔
اب دیکھئے! روح پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھی۔
مثال کے طور پر۔۔۔مثال تو ناقص ہے لیکن سمجھنے کیلئے مثال تو دینی ہی پڑتی ہے۔ آپ ایک ڈرامہ لکھنا چاہتے ہیں تو ڈرامہ کہاں ہوتا ہے؟ آپ کے دماغ میں ہوتا ہے۔ آپ اس ڈرامے کو کاغذ پر اتار لیتے ہیں۔ اب آپ فلم بنا لیں۔ ٹی وی پر دکھا دیں۔ مطلب یہ کہ سارے کردار ڈرامہ نویس کے دماغ میں ہوتے ہیں۔ دماغ سے کاغذ پر منتقل ہوتے ہیں، اسی طرح یہ کائنات وجود میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو وجود بخشنا چاہا تو فرمایا۔
ہو جا!
تو ساری کائنات پیدا ہو گئی۔ جب کائنات وجود میں آ گئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اپنا تعارف کرایا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ کائنات کی مخلوق نے جب اس آواز کی طرف متوجہ ہو کر اس آواز کو سنا۔ چونکہ اس نے مشاہدہ کر لیا تھا۔ اس مشاہدے کی بنیاد پر اس نے اقرار کیا کہ جی ہاں آپ ہمارے رب ہیں۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سماعت اور بصارت کے بعد مخلوق میں معنی پہنانے کی صلاحیت بھی پیدا ہو گئی کہ میں مخلوق ہوں اور یہ خالق ہے۔ جب یہ صلاحیت مخلوق کے اندر پیدا ہو گئی تو اس کے اندر ادراک پیدا ہو گیا کہ مخلوق اور خالق کیا ہیں۔ الگ الگ وہ یونٹ ہیں جب یہ ادراک پیدا ہو گیا۔ اپنا الگ اور خالق کا الگ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مخلوق اپنی ذات سے واقف ہو گئی۔ اپنی نوع سے واقف ہو گئی۔
اپنی نوع سے واقفیت کا صاف مطلب ہے کہ مخلوق کے اندر جو اعلیٰ (ریسیپشنری سینس) ہے وہ متحرک ہو گیا اور اس نے معنی پہنانے شروع کر دیئے۔ اب یہ تین رخ ہو گئے۔ ایک روشنی کا آدمی، ایک نور کا آدمی اور ایک تجلی کا آدمی۔ تو یہ تجلی کا آدمی نزول کر کے روشنی کے آدمی تک منتقل ہوا۔ پھر یہی روشنی کا آدمی پلٹ کر صعود کر کے پھر تجلی کا آدمی بن جاتا ہے۔ جہاں یہ تجلی کا آدمی بنتا ہے اس کو تصوف والے روحانیت والے علم امر کہتے ہیں۔ اور جہاں یہ تجلی کا آدمی اس پوزیشن میں آ جاتا ہے جو کن سے پہلے تھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حافظے میں دوبارہ منتقل ہو جاتا ہے۔ اس کو ابدالاآباد کہتے ہیں۔
کہانی تو یہ بہت بڑی ہے مگر مختصراً میں نے عرض کیا کہ انسان جو ہے اتنی صلاحیتوں کا مالک ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ سکتا ہے۔ اللہ سے بات کر سکتا ہے۔ اللہ سے اپنی بات منوا سکتا ہے۔ اللہ سے محبت کر سکتا ہے اور یہ دیکھ سکتا ہے کہ اللہ اس سے کتنی محبت کرتا ہے۔
جتنے بھی علوم ہیں وہ فلسفی حضرات نے پیش کئے ہوں یا انبیاء علیہم السلام نے نوع انسانی کو عطا کئے ہوں۔ ان میں ایک ہی علم پر زور دیا جاتا ہے کہ ہر مخلوق کا خالق کے ساتھ براہ راست ایک رشتہ ہے اور وہ ایسا رشتہ ہے کہ اس کو مخلوق پہلے سے دیکھ بھی چکی ہے۔
مخلوق پہلے اللہ کی آواز بھی سن چکی ہے۔ اب ہم یوں کہیں گے کہ جب ہم یہاں پیدا نہیں ہوئے تھے تو ہماری روح وہاں موجود تھی۔ اس روح نے اللہ کو دیکھا۔ اللہ کی آواز سنی اور اللہ کی ربوبیت کا اقرار بھی کیا۔ پھر نزول کرتے کرتے وہ روشنی کے آدمی میں منتقل ہو گئی۔ اس روشنی میں کثافت ہے، مادیت ہے۔ تعفن ہے۔ سڑاند ہے۔ اس تعفن اور سڑاند کی بنیاد پر خالق اور مخلوق کے درمیان ایک پردہ حائل ہو گیا اگر کوئی انسان اس تعفن اور سڑاند کے پردے کو اپنے بیچ سے کھینچ دے تو اس کی وہی پوزیشن ہو جائے گی جو عالم امر میں تھی۔
روحانیت کے جتنے بھی لوگ ہیں ان کا ایک ہی منشاء ہے کہ مخلوق خالق کو پہچان لے۔
اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں:
كنت كنزاً مخفياً فأحببتُ أن أُعْرَفَ ، فخلقت الخلقَ
میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں۔ اس لئے مخلوق کو پیدا کیا (حدیثِ قدسی)
‘‘فأحببتُ’’ کا لفظ غور طلب ہے۔ تو گویا اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ مجھے پہچانے۔
میرا اور مخلوق کا تعلق قائم ہو جائے۔ اگر انسان نے اپنا یہ وصف پورا کر دیا کہ اس نے اللہ کو چاہنے اور سوچنے کے ذریعے اللہ کو پہچان لیا تو انسان کی تخلیق کا مقصد پورا ہو گیا۔ اگر اس نے اللہ کو نہیں پہچانا یا پہچانے بغیر اس دنیا سے چلا گیا تو جو حالت بے سکونی کی بیماریوں کی پریشانیوں کی موجود ہے اس دنیا میں وہ مرنے کے بعد بھی اس پر مسلط رہے گی۔
روحانیت کا مقصد اتنا ہے کہ انسان اپنے اللہ کو جانتا ہے۔ جس طرح ایک بیٹا اپنی ماں کو جانتا ہے۔ اپنے باپ کو جانتا ہے اس لئے کہ اللہ سے بڑا نہ کوئی باپ ہے اور نہ کوئی ماں۔ تو روحانی علوم اگر آپ سیکھنا چاہتے ہیں، آپ اللہ سے قریب ہونا چاہتے ہیں۔ آپ بادشاہ کے شہنشاہ ، کونین کے رب العالمین کے مقربین میں سے ہونا چاہتے ہیں۔ اس کے مہمان بننا چاہتے ہیں تو آپ پر یہ لازم ہے کہ اس روح کو تلاش کریں جس روح نے اللہ کو دیکھ کر کہا تھا ‘‘جی ہاں! آپ ہمارے رب ہیں’’۔
اور اگر یہ صورت نہیں ہوئی تو پھر ایک انسان اور ایک کتے بلی میں کوئی فرق نہیں۔ بجز اس کے کہ انسان کے پاس عقل تھوڑی سی زیادہ ہے اور جانوروں کے پاس تھوڑی سی کم۔
جب ہم انسانوں اور جانوروں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کتے کے سونگھنے کی جو حس ہے وہ انسان کو نصیب ہی نہیں ہوئی۔ سونگھنے کی حس میں کتا انسان سے زیادہ با حس ہے اور جب بلڈنگ بنانے کا تصور کرتے ہیں تو بلاشبہ بڑی بڑی بلڈنگیں بنا لیتے ہیں مگر ایک چھوٹا سا ‘بیا ’ ایسا گھر بناتا ہے کہ انسانوں کا بڑے سے بڑا آرکیٹیکچرل انجینئر بھی اسے دیکھ کر شرم سے سر جھکا لیتا ہے کہ اتنی چھوٹی سی چڑیا نے ایسا گھر بنایا جس کے اندر بیڈ بھی ہے، روشنی کا انتظام بھی ہے، جھولے کا انتظام بھی ہے۔
بارش کا پانی بھی اندر نہیں جا سکتا۔ آندھیاں چلیں، طوفان آئیں وہ ہلتا رہے گا مگر اس درخت سے گرے گا نہیں۔ یہ چھوٹے سے پرندے کی سول انجینیئرنگ کا کمال ہے۔
انسان کہتا ہے کہ میں اپنی خوراک ذخیرہ کرتا ہوں۔ اگر چیونٹیوں کا انتظام دیکھیں تو وہ بارش ہونے سے پہلے اپنی غذا اس طرح ذخیرہ کرتی ہیں کہ آندھی میں، بارش میں، انکی غذا میں فرق نہیں پڑتا۔
اگر انسانی اور حیوانی عقل کا تجزیہ کیا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقل کے معاملے میں انسان حیوانوں سے زیادہ عقل رکھتا ہے لیکن محض عقل کی بنیاد پر کسی انسان کو حیوان سے ممتاز نہیں کیا جا سکتا۔ انسان کا امتیاز یہ ہے کہ انسان وہ علوم جانتا ہے جو نہ فرشتے جانتے ہیں نہ جنات جانتے ہیں نہ جمادات جانتے ہیں نہ درخت جانتے ہیں اور نہ پرندے جانتے ہیں۔
رزق کے حصول کیلئے آپ صبح سے شام تک محنت کر کے روٹی کھاتے ہیں۔ پرندے جو اڑتے ہیں۔ سارا دن کوشش کرتے ہیں یعنی روزی کھاتے ہیں۔ آپ اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔ جانور بھی اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔ کیا آپ نے بلی کو اپنے بچوں کی تربیت کرتے نہیں دیکھا۔ کیا اس کو نہیں دیکھا کہ وہ اپنے بچوں کو شکار کرنا سکھا دیتی ہے۔
تو اگر آپ کو اپنا شرف تلاش کرنا ہے۔ حیوانات سے خود کو ممتاز کرنا ہے تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ اس روح کو تلاش کریں۔ جس روح نے خالق کائنات کو دیکھا ہے۔ اس کی آواز سنی ہے اور اس کی ربوبیت کا اقرار کیا ہے۔
اب اس کا طریقہ کیا ہو؟
طریقہ بہت آسان ہے ہر آدمی رات اور دن کی زندگی کے اختلاف سے بخوبی آگاہ ہے۔ جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو ہمارا ‘‘اورا’’ (روشنی کا جسم) ہمیں اس جسم کی پابندی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے اور جب ہم سو جاتے ہیں تو ہمارا یہ مادی جسم بستر پر پڑا رہتا ہے اور اندر کا آدمی ‘‘اورا’’ نکل جاتا ہے۔ کبھی وہ زمین کی اور کبھی آسمانوں کی سیر کرتا ہے، فرشتوں کو دیکھتا ہے۔
اب آپ کہیں گے کہ صاحب یہ خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ تو خواب و خیال کا جہاں تک تعلق ہے پھر تو ساری کائنات ہی خیال ہے۔
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے۔
جب تک آپ کو خیال نہیں آئے گا آپ پانی نہیں پئیں گے۔ آپ کھانا نہیں کھائیں گے۔ علی ہذا القیاس یہ الگ بات ہے کہ آپ نے ان خیالوں کو پیاس اور بھوک کا نام دے رکھا ہے۔ یہ دنیا اصل میں خیال ہے اور اس خیال میں معنی پہنانا جسم کا کام ہے۔ تو یہ دنیا ساری ایک دماغی فلم ہے جو اوپر سے چل رہی ہے۔ اور ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔
اب ادھر پراجیکٹر چل رہا ہے ، ادھر فلم اسکرین ڈسپلے ہو رہی ہے۔ ایک آدمی پروجیکٹر سے واقف ہی نہیں تو وہ یہی کہے گا کہ بھائی میں نے فلم دیکھی ہے بس مگر کوئی دانشور ہے۔ سمجھدار ہے وہ یہ کہے گا کہ فلم کا فیتہ پروجیکٹر پر چل رہا ہے اور روشنی کے ذریعے اسکرین پر ڈسپلے ہو رہا ہے اور میں اسے دیکھ رہا ہوں تو جو کچھ آپ اسکرین پر دیکھ رہے ہیں وہ تابع ہے پروجیکٹر کے بعینہ یہ ساری کائنات ایک فلم ہے اللہ کی اور لوح محفوظ اس کا پروجیکٹر ہے۔
تو اب ہم اس طرح کہیں گے کہ ایک لوح محفوظ ہے۔ اس پر کائنات کی فلم چل رہی ہے اور اس فلم کو آپ دیکھ رہے ہیں۔ جب اس کائناتی فلم سے آپ واقف ہو جائیں گے یعنی لوح محفوظ سے واقف ہو جائیں گے تو تب آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟
تو اس فلم سے واقف ہونے کیلئے روح کی حقیقت سے آشنا ہونے کیلئے روحانیت میں سب سے بڑی اہمیت جس عمل کو ہے وہ ہے ‘‘محبت’’ ہر چیز سے محبت اس لئے کرو کہ آپ مخلوق ہیں اور اللہ کی ہر مخلوق آپ کی طرح مخلوق ہے۔ ہر مرد میرا بھائی ہے۔ ہر عورت میری ماں ہے، بہن ہے، ہم آدمی و حوا کے رشتے سے دیکھیں تو ہم سب آپس میں بہن بھائی ہیں۔ تو روحانیت میں پہلی شرط یہ ہے کہ آپ کے اندر وہ محبت کام کرتی ہو جو اللہ اپنی مخلوق سے کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ آپ کے اندر سطحی نظر کام کرتی رہے اور ساتھ ہی ساتھ آپ کے اندر گہرائی بھی ہو۔ آپ اگر باہر دیکھیں تو اندر بھی دیکھیں آپ نے کبھی آئینے کو دیکھا ہے؟
آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بال بناتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم نے آئینہ دیکھا۔ اصل میں ہم نے آئینے کے اندر اپنی صورت دیکھی ہے۔ آئینہ نہیں دیکھا۔ اب آئینے کے پیچھے جو مرکری اور سیندور لگا ہوا ہے اسے ہٹا دیں تو آپ کیا دیکھیں گے؟
کچھ نہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ میں جب آئینے کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں تو آئینہ مجھے دیکھ کر اپنے اندر جذب کر لیتا ہے تو میں آئینے کو دیکھتا ہوں۔ یعنی میں آئینے کے دیکھنے کو دیکھتا ہوں۔ اگر آئینہ مجھے دیکھ کر اپنے اندر جذب نہ کرے تو اائینہ میں میری صورت فلم نہیں آتی۔ یہی روحانی قانون ہے کہ ہر آدمی روح کے دیکھنے کو دیکھ رہا ہے۔ مادی آنکھ کے دیکھنے کو نہیں دیکھ رہا۔ اگر کوئی آدمی مادی آنکھ کے دیکھنے کو دیکھتا رہا تو مرنے کے بعد کیوں نہیں دیکھتا؟
ایک آدمی مر گیا۔ آنکھ موجود ہے، کان موجود ہے لیکن نہ وہ دیکھ رہا ہے نہ سن رہا ہے تو جب تک روح آدمی میں موجود ہے وہ ہر چیز دیکھ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم روح کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں اور روح کے سننے کو سن رہے ہیں۔
روح کا سننا کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے الست بربکم کو جو سماعت منتقل کی تھی اس سماعت سے ہم سن رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے سے جو بصارت ہمیں منتقل ہوئی۔ اس سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘بلیٰ’’ کہنے سے جو قوت گویائی ہمیں منتقل ہوئی۔ اس کے بل بوتے پر ہم بول رہے ہیں۔ تو روحانی نقطہ نظر سے کوئی آدمی باہر نہیں دیکھتا۔ ہر آدمی اندر دیکھ رہا ہے اور اس کی مثال میں نے عرض کی ہے کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو کچھ نہیں دیکھتا!
اگر آپ صلاحیتوں کو تلاش کرنا چاہیں جو صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کی تخلیق کے وقت عطا کی تھیں تو اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر روح اپنی روح سے متعارف ہوں۔ روح سے متعارف ہو کر آپ یہ سمجھ لیں گے کہ باہر کچھ نہیں ہے۔ سب کچھ اندر ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی اندر ہیں۔ آسمان بھی اندر ہے، زمین بھی اندر ہے، عرش و کرسی بھی اندر ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ
میں تمہارے اندر ہوں تم دیکھتے کیوں نہیں؟ (سورۃ الذریات -21)
باہر کا دیکھنا ٹائم اینڈ اسپیس میں دیکھنا ہے۔ مادہ میں دیکھنا ہے۔ اندر دیکھنا روح میں دیکھنا ہے۔ سیدھی سی بات ہے باہر دیکھنے کی بجائے اندر جھانکنا شروع کر دیں۔ ساری کائنات روشن ہو جائے گی۔ ساری کائنات کے فارمولے آپ کے اوپر آشکار ہو جائیں گے۔ آپ یہ جان لیں گے کہ مٹی کے ذرات میں اللہ تعالیٰ نے کیا کیا طاقتیں رکھی ہیں۔ آپ کو یہ پتہ چل جائے گا کہ سورج کیا ہے؟
چاند کیا ہے؟
کتنی زمینیں ہیں؟
حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب لوح و قلم میں لکھا ہے کہ کائنات کا جو سسٹم ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔
* کائناتی سسٹم
* کتاب مبین
* تیس کروڑ لوح محفوظ
* ہر لوح محفوظ کے نیچے اَسی ہزار حضیرے
* ہر حضیرے کے نیچے ایک کھرب آباد نظام اور بارہ کھرب غیر مستقل نظام
* ہر نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہوتا ہے۔ ہر سورج کے گرد نو۔ بارہ یا تیرہ سیارے گردش کرتے ہیں۔
* ہر سیارے پر آبادی 5/6ارب ہے۔
آپ کے اندر کی آنکھ کھل جائے تو آپ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم کائناتی سسٹم سے واقف ہو جائیں گے۔ نہ آپ کے اندر بیماری رہے گی، نہ پریشانی۔ اور جب تک آپ اپنی روح سے ناواقف رہیں گے۔ بے سکون رہیں گے، روح کے اندر بے سکونی نہیں ہے۔ یہ آپ یاد رکھیں بے سکونی مادہ کے اندر آتی ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ مادہ کا کام ہی فنا ہونا ہے۔ بیج اگر زمین کے اندر فنا نہیں ہوتا اور مٹی کے ذرات بیج کے اندر تک خود کو جذب نہیں کر لیتے تب تک بیج میں نشوونما نہیں ہوتی۔ ماں کے اندر جب نطفہ قرار پاتا ہے اور اگر ماں اس چھوٹے قطرے کو ایک ایک خون کا قطرہ دے کر پروان چڑھاتی ہے تو دنیا میں کوئی بچہ پیدا نہ ہو۔ ہر چیز کو فنا اور ہر چیز کی فنا میں بقاء ہے۔ پہلے وہ چیز فنا ہو رہی ہے پھر بقا کے دائرے میں داخل ہو رہی ہے۔
ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔ بچپنا فنا ہوتا ہے۔ لڑکا بن جاتا ہے۔ لڑکپن فنا ہو جاتا ہے تو وہ جوانی میں داخل ہو جاتا ہے۔ جوانی فنا ہو جاتی ہے تو بڑھاپا آ گھیرتا ہے۔ بڑھاپا جاتا ہے تو اعراف کی زندگی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ جو باتیں میں نے کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم سب نے روحانی طور پر اللہ کو دیکھا ہوا ہے۔ اس کی آواز بھی سنی ہوئی ہے اور اس کی آواز کا جواب بھی دیا ہوا ہے۔ (اور اللہ توفیق دے) اگر ہم اپنی روحانی قوتوں یا روح سے واقف ہو جائیں تو اسی عالم میں پھر پہنچ جائیں گے۔ جس عالم میں سب کچھ ہوا ہے اسی بات کو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے:
مَنْ عَرَفَ نفسَه فقد عَرَفَ ربَّه
جس نے اپنی روح کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
اس لئے کہ روح تو پہلے ہی رب کو پہچانتی ہے۔ اس لئے آسان طریقہ حدیث پاک کی روشنی میں مراقبہ ہے۔ حضور پاکﷺ نے مومن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ مومن مرتبہ احسان پر فائز ہوتا ہے یعنی وہ اللہ کو دیکھتا ہے یا اس کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ جب آدمی اس اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے تو اس آیت کا نمونہ بن جاتا ہے جو میں نے شروع میں تلاوت کی تھی۔
كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا
یعنی جو لوگ روحانی علوم سیکھ جاتے ہیں۔ یہ بات ان کے مشاہدے میں آ جاتی ہے اور اس مشاہدے کی بنیاد پر وہ پکار اٹھتے ہیں۔
جو کچھ بھی ہے وہ ہمارے رب کی طرف سے ہے۔
وما علینا الاالبلاغ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 58 تا 73
ذات کا عرفان کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔