اللہ تعالیٰ بہت بڑے ہیں
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11712
مورخہ 11مارچ2001 ء بروز اتوار
اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت خالقیت سے مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خالق و مالک ہیں۔ انسان میں اللہ تعالیٰ کی صفات کام کر رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ رحیم ہیں، کریم ہیں، بخشنے والے ہیں، رحم کرنے والے ہیں، مخلوق کیلئے وسائل پیدا کرتے ہیں، اس دنیا کی زندگی ختم ہونے کے بعد دوسرے عالم کی زندگی میں بھی آرام و آسائش کے وسائل عطا فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ دنیا میں وسائل کے ساتھ زندہ رکھتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی وسائل کے ساتھ زندہ رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ بڑے اور بہت بڑے ہیں
اللہ تعالیٰ کرم فرماتے ہیں۔
رحم فرمانے والے ہیں۔
غلطیوں کو معاف کرتے ہیں۔
اپنی مخلوق کی حفاظت فرماتے ہیں۔
انسان اللہ تعالیٰ کی سماعت سے سنتا ہے، اللہ تعالیٰ کی بصارت سے دیکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کا احاطہ کیا ہوا ہے، ہر شئے جو پیدا ہوتی ہے اسے واپس جانا ہے۔
’’بہترین لوگ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں جانتا ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جبہ مبارک لے کر جب حضرت اویس قرنیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت اویس قرنیؓ کی خدمت میں عرض کیا۔
یا اویس قرنیؓ! کوئی نصیحت فرمایئے۔
حضرت اویس قرنیؓ نے فرمایا: ’’یا عمرؓ! تم اللہ تعالیٰ کو جانتے ہو؟‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’جی ہاں! میں اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں۔‘‘
حضرت اویس قرنیؓ نے فرمایا: ’’یا عمرؓ! اللہ تعالیٰ بھی تمہیں جانتے ہیں۔‘‘
حضرت عمرؓ نے جواب دیا: ’’جی ہاں! اللہ تعالیٰ بھی مجھے جانتے ہیں۔‘‘
حضرت اویس قرنیؓ نے فرمایا: ’’اب تمہیں نصیحت کی ضرورت نہیں۔‘‘
بہترین لوگ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو جانتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہے۔
بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کو زیب دیتی ہے۔ اگر کوئی آدمی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، حسد کرتا ہے، بغض رکھتا ہے، اپنی جائز، ناجائز بات منوانے کی ضد کرتا ہے، چغل خوری کرتا ہے تو وہ بڑا آدمی نہیں ہے۔
آدمی اپنے اندر تکبر کی گٹھلی بو دیتا ہے اور جب یہ گٹھلی درخت بن جاتی ہے تو وہ شیطان بن جاتا ہے۔
انسان یہ سوچتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں کھلونا ہوں۔ جس قدر اللہ تعالیٰ نے اختیارات عطا فرمائے ہیں اس ہی قدر میں بااختیار ہوں۔ بندہ کو اللہ تعالیٰ نے اختیارات عطا فرمائے ہیں۔ اگر میں نیک کام کرتا ہوں تو یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق ہے۔ اگر میں صلح رحمی کرتا ہوں تو مجھ پہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ وہ سوچتا ہے میرے اندر جو بھی صلاحیت ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ تمام صلاحیتیں اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی ہیں اور ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے کرتے ہیں۔
ہر انسان کو غور کرنا چاہئے کہ رعایا بادشاہ، عالم فاضل، امیر غریب، فقیر، گورا کالا ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔
مخلوق میں جو صلاحیتیں کام کر رہی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی ہیں۔
ہمیں اپنی تخلیق اور مادی وجود پر غور فکر کرنا چاہئے کہ ہمارے اجسام تعفن سے بنے ہوئے ہیں۔ بادشاہ اور عالم آدمی ایک ہی طرح پیدا ہوتے ہیں۔
غور فرمایئے۔۔۔
جب ہم کوئی کام کرتے ہیں اور اس کام میں ہمارا دل نہیں لگتا اور ہمیں ادھر ادھر کے خیالات شدت سے آتے ہیں تو وہ کام صحیح نہیں ہوتا۔
اکائنٹینٹ ہے، ٹیچر ہے، خاتون خانہ ہے، ڈرائیور ہے۔
ان چاروں کے دماغ میں خیالات کا ہجوم ہے۔ اتنا زیادہ ہجوم ہے کہ کام میں توجہ اور یکسوئی نہیں ہے۔
اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔۔۔؟
۱۔ اکاؤنٹینٹ حساب صحیح نہیں کرے گا۔
۲۔ ٹیچر اپنے اسٹوڈنٹ کو صحیح طور پر تعلیم نہیں دے گا۔
۳۔ خاتون خانہ گھر کے کام صحیح طور پر نہیں کرے گی۔ کھانا مزے دار نہیں پکائے گی۔
۴۔ ڈرائیور اگر ذہنی یکسوئی کے ساتھ گاڑی نہیں چلائے گا تو اس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔
اسی طرح اگر کسی نمازی کے دماغ میں خیالات کا ہجوم ہوتا ہے تو یکسوئی کے ساتھ نماز قائم نہیں ہوتی۔ جب نماز میں یکسوئی نہیں ہوتی تو اطمینان قلب نصیب نہیں ہوتا۔
لیکچر10
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 255 تا 258
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔