افکار کی دنیا
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11472
دنیا میں رائج علوم کو ہم تین دائروں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔ طبعی علوم
۲۔ نفسیاتی علوم
۳۔ مابعد النفسیاتی علوم
پہلے دو علوم کے بارے میں تفصیلات بیان کرنا ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ ہم مابعد النفسیات کے علوم کی تشریح بیان کرتے ہیں۔
آدمی تین دائروں سے مرکب ہے۔ شعور، لاشعور، ورائے لاشعور۔ یہ تینوں دائرے دراصل تین علوم ہیں۔
جس وقت ہم مظاہراتی خدوخال میں داخل ہوتے ہیں یعنی ہمیں کسی چیز کا احساس ہوتا ہے ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں یا ہمارے اند رخواہشات اور تقاضے پیدا ہوتے ہیں تو ہم تین دائروں میں سفر کرتے ہیں۔
پہلے ہمیں کسی چیز کی اطلاع ملتی ہے پھر اس اطلاع میں تصوراتی نقش و نگار بنتے ہیں اور پھر یہ تصوراتی نقش و نگار، مظہر کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔
اطلاعات کے علم کو ہم ایک دوسرے طریقے سے بیان کرتے ہیں۔
کائنات میں پھیلے ہوئے مظاہر میں اگر تفکر کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اطلاعات تمام موجودات میں قدر مشترک رکھتی ہیں۔
اس کی مثال یہ ہے کہ پانی کو آدمی، حیوانات، نباتات و جمادات پانی سمجھتے ہیں اور پانی سے اسی طرح استفادہ کرتے ہیں جس طرح آدمی کرتا ہے۔ جس طرح پانی کو پانی سمجھا جاتا ہے اسی طرح آگ ہر مخلوق کے لئے آگ ہے۔ آدمی اگر آگ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو بکری، شیر، کبوتر اور حشرات الارض بھی آگ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک آدمی مٹھاس پسند کرتا ہے۔ دوسرا طبعاً میٹھی چیزوں کی طرف راغب نہیں ہوتا لیکن ہر دو اشخاص میٹھے کو میٹھا اور نمک کو نمک کہتے ہیں۔علم مابعد النفسیات یا مصدر اطلاعات کا علم ایک ایسا علمی دائرہ ہے جس کے اندر بے رنگی پائی جاتی ہے۔ جب اس بے رنگی میں لاشعور رنگ بھر دیتا ہے تو اس کی حیثیت نفسیات کی ہو جاتی ہے اور جب یہ عمل فعال اور متحرک ہو جاتا ہے تو اس کی حیثیت شعوری بن جاتی ہے۔
شعور اس ایجنسی کا نام ہے جو معانی کو مظاہراتی لباس بخشتا ہے۔ لاشعور اس رخ کا نام ہے جو کسی اطلاع کو معنی پہناتا ہے اور ورائے لاشعور ایک ایسا دائرہ ہے جس میں علم کی حیثیت محض علم کی ہوتی ہے یعنی وہ علم جو بحیثیت علم کے صرف علم ہوتا ہے۔ اس میں معانی اور خدوخال سمتیں یا اُبعاد (Dimension) نہیں ہوتے۔ ورائے لاشعور سے گزر کر جب علم شعور میں داخل ہوتا ہے تو لاشعور اپنی دلچسپی اور ماحول سے ملی ہوئی طرز فکر کے مطابق اسے معنی پہنا دیتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 139 تا 141
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔