اطلاع کہاں سے آتی ہے؟
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11204
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اطلاع ہمیں کہاں سے ملتی ہے اور اس اطلاع کا مخزن کیا ہے؟
کوئی بھی اطلاع یا کسی بھی شئے کا علم یا وقت ہمیں لازمانیت سے موصول ہوتا ہے اور یہ ہی لازمانیت نت نئی اطلاعیں زمانیت (وقت) کے اندر ارسال کرتی رہتی ہیں۔ لازمانیت موجودات یا کائنات کی بیس(Base) ہے۔ اگر ہم لازمانیت کو ایک نقطہ سے تشبیہہ دیں تو اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ نقطہ میں کائنات کا یکجائی پروگرام نقش ہے۔ لہروں کے ذریعہ اس نقطہ سے جب کائنات کا یکجائی پروگرام نشر ہوتا ہے تو انسان کے حافظہ سے ٹکراتا اور بکھرتا ہے، بکھرتے ہی ہر لہر مختلف شکلوں اور صورتوں میں ہنستی بولتی، چلتی پھرتی، گاتی بجاتی، تصویر بن جاتی ہے لیکن چونکہ انسان کا حافظہ جبلی طور پر (فطری نہیں) محدود ہے۔ اس لئے حافظہ ایک دائرہ کے اندر محدود ہونے کی وجہ سے تصویر کے مابین فاصلہ بن جاتا ہے یہی فاصلہ ہمیں کسی چیز کو خود سے دور دکھاتا ہے لیکن ہمارا دیکھنا (Fiction) یا مفروضہ ہے۔ اگر ہم اس بیس(Base) یا نقطہ کو تلاش کر لیں جہاں کائنات کا یکجائی پروگرام نقش ہے تو فاصلہ معدوم ہو جاتا ہے۔
ٹرانزسٹر یا ریڈیو جن ذرات سے مرکب ہے۔ اس کو بھی وقت سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ لازمانیت سے آئی ہوئی ہر اطلاع وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہے۔ اس لئے ہر وہ ذرہ جو زمین پر موجود ہے۔ ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس میں انحطاط بھی ہو رہا ہے۔ انحطاط کا مطلب یہ ہے کہ ذرہ جہاں سے آیا تھا وہاں جانے کے لئے بے قرار رہتے ہوئے خود کو وقت کے دائرے سے آہستہ آہستہ دور کر رہا ہے اور اپنے مخزن کی طرف لوٹ رہا ہے جیسے جیسے زمانیت سے بُعد (دوری) واقع ہوتا ہے اسی مناسبت سے لازمانیت کے دائرے سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ اب ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں ٹرانزسٹر میں کام کرنے والے ذرات وقت کے دائرہ سے اتنی دور ہو جاتے ہیں کہ لازمانیت کی تحریکات قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیو کا ذرہ ہزاروں میل دور کی آواز پکڑ (Catch) لیتا ہے اور نشرر کر دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی انسان قریب یا بعید کی آواز سن کر دوسروں کو سنا دیتا ہے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ ٹرانزسٹر کے ان ذرات کو اس مقام تک پہنچانے میں انسان نے اپنی لازمانی صلاحیتیں استعمال کی ہیں اور ان صلاحیتوں کا ثمر یہ ہے کہ آج آواز کی دنیا میں پردے حائل نہیں ہیں۔ جب انسان اپنی توانائیوں کو بروئے کار لا کر ذرات سے کام لے سکتا ہے تو پھر یہ کیوں ممکن نہیں کہ وہ ذرات سے کام لینے والی صلاحیتوں کو اپنے حق میں استعمال کر کے براہ راست اس سے مستفیض ہو۔ لیکن نوع انسانی کی تاریخ شاہد ہے کہ انسان نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی کہ جن صلاحیتوں کو وہ استعمال کر کے ایک ذرہ یا ایک ایٹم سے ناقابل تصور کام لے سکتا ہے تو اپنی باطنی صلاحیت سے براہ راست وسائل کے بغیر کام کیوں نہیں لیتا۔ یہ انسان کی جبلی اور اسلاف سے ملی ہوئی جہالت ہے جس نے پوری نوع انسانی کو مجبور کر کے وسائل کا پابند کیا ہوا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 27 تا 29
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔