اشرف المخلوقات
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18244
مختصر طور پر زندگی کا تذکرہ کیا جائے تو یہ کہنا مناسب ہے کہ زندگی جذبات سے تعبیر ہے یعنی زندگی بیشمار جذبات پر رواں دواں ہے اور حواس کے دوش پر سفر کر رہی ہے۔ ان جذبات کو کنٹرول کرنا بھی حواس کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
مثال۔۔۔۔۔۔ایک آدمی کو پیاس لگی۔ پیاس ایک تقاضہ ہے۔ پیاس کے تقاضے کو پورا کرنے کیلئے حواس ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔
حواس ہمیں بتاتے ہیں کہ پانی گرم ہے۔ یہ پانی سرد ہے۔ یہ پانی کڑوا ہے یا یہ پانی شیریں ہے۔ پیاس کا عمل یا پیاس کا تقاضہ پانی پینے سے پورا ہوتا ہے۔
پانی کی پہچان بھی حواس کے ذریعے ممکن ہے۔ ایک تقاضہ پیاس ہے ایک تقاضہ بھوک ہے۔
کسی کو چاہنا ایک الگ تقاضہ ہے آدمی کے اندر یہ تقاضہ پیدا ہونا کہ کوئی مجھے بھی چاہے الگ تقاضہ ہے۔ ان تقاضوں کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو اس کا نام زندگی ہے اور جب ان تقاضوں کو الگ الگ کر کے دیکھا اور سمجھا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر تقاضہ اس لئے الگ الگ ہے کہ تقاضوں کے اندر مقداریں الگ الگ کام کرتی ہیں۔
پیاس کے تقاضے میں جو مقداریں کام کر رہی ہیں وہ بھوک کے تقاضے میں موجود نہیں ہیں۔ اس لئے صرف پانی پی کر ہی بھوک کا تقاضہ رفع نہیں ہوتا۔ بھوک کے اندر جو معین مقداریں کام کر رہی ہیں اس کی اپنی الگ ایک حیثیت ہے اس لئے کہ صرف کچھ کھا کر پیاس کا تقاضہ پورا نہیں ہوتا۔ تمام حواس الگ الگ تقاضوں کو جانتے ہیں، سمجھتے ہیں۔
انسانی زندگی میں ایک تقاضہ محبت ہے۔ محبت ایک ایسا مجموعی تقاضہ ہے جس کے بغیر زندگی ادھوری اور نامکمل رہتی ہے۔ حواس محبت کے اس تقاضے کو الگ الگ حیثیت دیتے ہیں۔ مثلاً یہ حواس ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ خاتون ہماری بیوی ہے اور یہ لڑکی بیٹی ہے اور یہ خاتون ہماری ماں ہے۔ جب ہم محبت کا نام لیتے ہیں تو محبت کا مجموعی مفہوم ہمارے ذہن میں ہماری بیٹی آتی ہے لیکن جب ہم حواس کے ذریعے محبت کو سمجھتے ہیں تو محبت کا مفہوم ایک رہتا ہے لیکن محبت کا طرز عمل بدل جاتا ہے۔ ایک عورت ہر حال میں عورت ہے لیکن حواس اس عورت کو الگ الگ تقسیم کرتے ہیں۔ حواس ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ عورت بہن ہے۔ یہ عورت بیٹی ہے اور یہ عورت ماں ہے اور یہ عورت بیوی ہے۔ بحیثیت عورت اور مرد سب میں قدریں مشترک ہیں لیکن حواس ہمیں بتاتے ہیں کہ مشترک قدروں میں بھی ایک ضابطہ اور قانون موجود ہے۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ انسانی زندگی جس بنیاد پر قائم ہے اس کے دو پیر یا دو ستون ہیں۔ ایک پیر یا ستون جذبہ ہے اور ایک پیر یا ستون حواس ہیں۔ جب تک آدمی جذبات کے دائرہ میں رہتا ہے اس وقت تک اس کی حیثیت دوسرے حیوانات سے الگ نہیں ہے اور جب ان جذبات کو وہ انسانی حواس کے ذریعے سمجھتا ہے اور جذبات کی تکمیل میں حواس کا سہارا لیتا ہے تو وہ حیوانات سے الگ ہوتا ہے۔ جذبات اور حواس کا اشتراک انسانوں کی طرح حیوانوں میں بھی موجود ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ایک بکری یا گائے حواس میں معنی نہیں پہنا سکتی۔ اس کا علم زندگی کو قائم رکھنے کی ضروریات پوری کرنے تک محدود ہے۔ وہ صرف اتنا جانتی ہے کہ پانی پینے سے پیاس بجھتی ہے۔ پتے کھانے سے بھوک رفع ہوتی ہے۔ اس بات سے اسے کوئی غرض نہیں کہ پانی کس کا ہے۔ اس کے اندر قائم رہنے کیلئے ایک تقاضہ ابھرتا ہے اور وہ تقاضہ پورا کر لیتی ہے اس کے برعکس انسان کے اندر زندگی کو قائم رکھنے کیلئے جب تقاضہ ابھرتا ہے تو وہ حواس کے ذریعے یہ بات سمجھتا ہے یہ تقاضہ کس طرح پورا کیا جاتا ہے۔
چونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے حواس کے ذریعے ایک علم عطا کر دیا ہے اس لئے انسان دوسری مخلوق کے مقابلے میں ممتاز ہو گیا ہے اور یہ ممتاز ہونا ہی مُکلف ہونا ہے۔ یہ بات واضح طور پر سامنے آگئی ہے کہ زندگی قائم رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں تقاضے یکساں ہیں، آدمی کو بھی بھوک لگتی ہے اور بکری اور بیل کو بھی بھوک لگتی ہے، پیاس آدمی کو بھی لگتی ہے اور پیاس دوسرے حیوانات کو بھی لگتی ہے، دونوں بھوک اور پیاس کے تقاضے کو پورا کرتے ہیں لیکن انسان تقاضوں اور حواس کی الگ الگ حیثیت سے واقف ہے۔ یہ وقوف ہی انسان کو اشرف کے درجہ پر فائز کرتا ہے۔ حواس کے قانون سے واقف ہونا روحانیت میں داخل ہو جانا ہے۔ روحانی علوم میں یہ بات پڑھائی جاتی ہے اور دکھا دی جاتی ہے کہ حواس اور جذبات کس طرح تخلیق ہوتے ہیں۔
انسان کے اندر کئی کھرب کل پرزوں سے مشین کام کر رہی ہے۔ کچھ کل پرزے ایسے ہیں جو حواس بناتے ہیں۔ کچھ کل پرزے ایسے ہیں جو جذبات کی تخلیق کرتے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ علم عطا کیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو یہ جان لیتا ہے کہ اس کے اندر نصب شدہ مشین میں یہ کل پرزے کس طرح فٹ ہیں اور ان کے ذریعے جذبات اور حواس کس طرح بنتے ہیں۔
جذبات اور حواس کے اعتبار سے انسان اور تمام حیوانات ایک دائرے میں کھڑے ہیں لیکن بکری کے اندر یہ صلاحیت نہیں کہ وہ حواس بنانے کی مشین یا حواس بنانے کے کل پرزوں کو سمجھ سکے۔ اگر کوئی انسان بکری کی طرح اپنے اندر نصب شدہ اس کائناتی نظام کو نہیں سمجھتا تو اس کی حیثیت بلی اور کتے سے زیادہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ بھوک کتے کو بھی لگتی ہے۔ پیٹ کتا بھی بھرتا ہے۔ بھوک آدمی کو بھی لگتی ہے۔
یٹ آدمی بھی بھرتا ہے، پیاس چوہے کو بھی لگتی ہے، پانی چوہا بھی پیتا ہے، پیاس آدمی کو بھی لگتی ہے، پانی آدمی بھی پیتا ہے۔ جبلی طور پر ایک آدمی بھی اپنی اولاد کی پرورش کرتا ہے۔ اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے۔ اپنی اولاد کی تربیت کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک بلی بھی اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے، اولاد کی پرورش بھی کرتی ہے۔ اپنی اولاد کو دودھ پلاتی ہے اور زندگی گزارنے کیلئے تمام ضروری باتوں سے آگاہ کر کے اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہے۔ روحانی نقطہ نظر سے اگر کوئی آدمی سب وہی کام کرتا ہے جو ایک بلی کرتی ہے تو اس کی حیثیت بلی کے برابر ہے۔ اسے بلی سے افضل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کوئی انسان بلی، کتے، چوہے سے اس لئے افضل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نصب شدہ مشین یا کمپیوٹر کا علم عطا کر دیا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 45 تا 47
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔