استغناء، توکل اور بھروسہ
مکمل کتاب : توجیہات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=3081
سوال: استغناء کی اصطلاح کا اصل مفہوم کیا ہے۔ کیا یہ توکل اور اللہ پہ بھروسہ رکھنے کا ہی دوسرا نام ہیں؟ اس کی وضاحت کریں۔
جواب: صاحب مراقبہ جب پہلی سیڑھی سے قدم بڑھا کر دوسری سیڑھی پر قدم رکھتا ہے تو اس کے سامنے اس کا اصلی جسم جسم مثالی یا Auraآ جاتا ہے۔ پہلی بات جو سالک کے ذہن میں وارد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسے اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ مٹی کے ذرات سے بنے ہوئے گوشت پوست کی حیثیت محض عارضی، فانی اور مفروضہ ہے۔ حقیقی حیثیت روشنیوں کا وہ جسم ہے جس نے گوشت پوست کے جسم کو سنبھالا ہوا ہے اس وقت کیونکہ تخلیقی فارمولوں کے تحت وہ قانون بیان ہو رہا ہے جس قانون کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کرنے کی اجازت ہے، اس لئے یہاں روح، Auraاور جسم مثالی کا فرق بیان کرنا ضروری ہے۔ مرنے کی حالت کو عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ روح نکل گئی۔ مرنے کے بعد جس عالم میں آدمی منتقل ہوتا ہے اس کے بارے یہ کہا جاتا ہے کہ مرنے والا اپنے دوستوں اور عزیزوں کی روحوں کے عالم اعراف میں چلا گیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اعراف میں آدمی کھانا بھی کھاتا ہے، پانی بھی پیتا ہے، سوتا جاگتا بھی ہے، وہاں اپنے رشتہ داروں سے ملتا بھی ہے، دکھ درد، سکون، راحت اور اطمینان سے آشنا بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مرنے والے آدمی کی روح نکل گئی ہے تو روح نکلنے سے مراد یہ ہو گی کہ اب آدمی نہ سن سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے نہ محسوس کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ ہم جس کو مرنا کہتے ہیں دراصل وہ ایسی حالت ہے جس کو ہم روشنی کے ہالے کا مٹی کے جسم سے رشتہ منقطع کر لینے کا نام دے سکتے ہیں۔ حضور قلندر بابا صاحبؒ نے کتاب ’’لوح و قلم‘‘ میں اس بات کو بالوضاحت بیان کیا ہے، فرماتے ہیں۔ ’’آدمی گرم و سرد سے محفوظ رہنے کے لئے اور اعضائے جسمانی کو تپش اور سرد لہروں سے بچانے کے لئے ایک لباس اختراع کرتا ہے، یہ لباس سوتی کپڑے کا ہوتا ہے، اونی کپڑے کا ہوتا ہے یا کسی بھی قسم کے بنے ہوئے دھاگوں کے تانے بانے سے مرکب یا بنا ہوا ہوتا ہے، جب تک یہ خود تخلیق کردہ لباس جسم کے اوپر محفوظ ہے۔ اس وقت تک اس لباس میں حرکت رہتی ہے جسم کے اوپر قمیض کی حرکت جسم کی حرکت کے تابع ہوتی ہے اگر قمیض جسم کے اوپر ہے تو آستین ہاتھ کی حرکت کے ساتھ ہلنے پر مجبور ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہاتھ ہلے اور آستین نہ ہلے۔ اس طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ پہنی ہوئی قمیض کی آستین ہلے تو اس کے ساتھ ہاتھ بھی حرکت کرے ہمیشہ ہاتھ کی حرکت کے ساتھ قمیض کی آستین میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ اگر جسم پر پہنی ہوئی اسی قمیض کو اتار کر زمین پر یا چارپائی پر ڈال دیا جائے اور اس قمیض سے کہا جائے کہ وہ حرکت کرے چلے پھرے تو اس کے اندر ہرگز کوئی حرکت پیدا نہیں ہو گی۔ بابا صاحب قبلہ گوشت پوست کے جسم کو جسم مثالی کا لباس قرار دیتے ہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف اتنا کہ کپڑے کی بنی ہوئی قمیض جسم کے اوپر ہوتی ہے اور جسم مثالی گوشت پوست کے اوپر ہوتا ہے۔ لباس اور گوشت پوست کے جسم کی حیثیت قائم کر کے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مرے ہوئے آدمی کا جسم یا لاش جب زمین پر پڑی ہوئی ہوتی ہے تو قمیض کی طرح اس کے اندر اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ آپ لاکھ کوشش کریں کہ یہ لاش اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے حرکت کرے۔ یہ تمام کوشش بے کار اور بے سود ثابت ہو گی۔ اس لئے بے سود ثابت ہوتی ہے کہ جس جسم کا یہ لباس تھا اس جسم نے اسے اتار پھینکا ہے۔
عام حالات میں جب استغناء کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کس آدمی کو اللہ تعالیٰ کے اوپر کتنا توکل اور بھروسہ ہے توکل اور بھروسہ کم و بیش ہر آدمی کی زندگی میں داخل ہے۔ لیکن جب ہم توکل اور بھروسہ کی تعریف بیان کرتے ہیں تو ہمیں بجز اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہماری دوسری عبادات کی طرح بھروسہ اور توکل بھی دراصل لفظوں کا ایک خوش نما جال ہے۔ توکل اور بھروسہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے لیکن جب ہم فی العمل زندگی کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ بات محض نعرہ اور غیر یقینی ہے اور یہ ایسی بات ہے کہ ہر آدمی کی زندگی میں اس کا عمل دخل جاری و ساری ہے۔ مثلاً ایک آدمی کسی فرم میں ملازمت کرتا ہے۔ اس کے پیش نظر یہ بات رہتی ہے کہ فرم کا مالک یا سیٹھ ساہوکار اگر مجھ سے ناراض ہو گیا تو ملازمت سے برخاست کر دیا جاؤں گا۔ یا میری ترقی نہیں ہو گی یا ترقی تنزلی میں بدل جائے گی۔ ظاہر ہے یہ بات بھروسہ اور توکل کے سراسر خلاف ہے۔ اس کے برعکس ہم زندگی میں یہ بات بار بار دہراتے ہیں کہ اگر کوئی کام نہیں کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے۔
یہ بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ جب کسی کام کا نتیجہ اچھا مرتب ہوتا ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ نتیجہ ہماری عقل اور ہماری فراست و فہم سے مرتب ہوا ہے۔ اس قسم کی بے شمار مثالیں ہیں جن سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ کے اوپر توکل اور بھروسہ محض مفروضہ ہے۔ جس بندے کے اندر توکل اور بھروسہ پیدا نہیں ہوتا اور اس کے اندر استغناء بھی نہیں ہوتا۔ استغناء سے مراد یہ ہے کہ ضروریات زندگی گزارنے میں بندے کا اپنا ذاتی ارادہ یا اختیار شامل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اگر مرغی کھلاتے ہیں اس میں خوش رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اگر چٹنی سے روٹی دیتے ہیں اس میں بھی خوش رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر کھدر کے کپڑے پہناتا ہے اس میں بھی خوش رہتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے ہر عمل اور حرکت کو اللہ کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ پہلے بندے کے اندر توکل اور بھروسہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ استغناء کے دائرے میں قدم رکھتا ہے۔ توکل اور بھروسہ دراصل ایک خاص تعلق ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان براہ راست قائم ہے اور جس بندے کا اللہ کے ساتھ یہ رابطہ قائم ہو جاتا ہے اس بندے کے اندر سے دنیا کا تمام لالچ نکل جاتا ہے۔ ایسا بندہ دوسرے تمام بندوں کی امداد اور تعاون سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور اس بندے کی حیثیت ایسی ہو جاتی ہے کہ جس حیثیت کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورہ اخلاص کی 5آیتوں میں کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ اخلاص میں پانچ حتمی باتیں بیان فرمائی ہیں۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ اخلاص میں اپنی ذات پر سے پردہ اٹھا دیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ جو صفات اللہ تعالیٰ کے اندر موجود ہیں یا جو صفات اللہ تعالیٰ کی ہیں وہ صفات مخلوق کے اندر موجود نہیں ہیں۔ سورہ اخلاص کی پانچ آیتیں ہمیں خالق اور مخلوق کا امتیاز سکھاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’اے پیغمبرﷺ! آپ فرما دیجئے اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، کسی سے احتیاج نہیں رکھتا۔ اللہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ اللہ کسی کا باپ، اللہ تعالیٰ کوئی خاندان بھی نہیں رکھتا۔‘‘
ان صفات کی روشنی میں جب ہم مخلوق کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مخلوق کبھی ایک نہیں ہوتی۔ مخلوق ہمیشہ بکثرت ہوتی ہے۔ مخلوق زندگی کے اعمال و حرکات پورے کرنے پر کسی نہ کسی احتیاج کی پابند ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مخلوق کسی کی اولاد ہو۔ مخلوق کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا کوئی خاندان ہو۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ ان پانچ صفات میں جب لاشعوری تفکر سے کام لیا جاتا ہے تو ہمیں ایک بات ایسی ملتی ہے کہ ہم ان صفات کو جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں ان میں سے ایک صفت اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے اوپر وارد کر سکتے ہیں۔ مخلوق کے لئے یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ وہ کثرت سے بے نیاز ہو۔ مخلوق اس بات پر بھی مجبور ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ اسی طرح مخلوق کا خاندان ہونا بھی ضروری ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ پانچ صفات میں سے چار صفات میں مخلوق اپنا اختیار استعمال کرنے کے لئے بے بس اور مجبور ہے۔ صرف ایک ایجنسی ایسی ہے کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کی صفت کو اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے اوپر وارد کر سکتی ہے اور وہ ہے، اللہ احتیاج سے ماوراء ہے۔ مخلوق کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دنیاوی تمام وسائل سے اپنی ضروریات اور احتیاج کو توڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ کر لے۔ یہی وابستگی توکل اور بھروسہ ہے۔ اگر بندے کے اندر مخلوق کے ساتھ احتیاجی عوامل کام کر رہے ہیں تو وہ تو کل اور بھروسہ کے اعمال سے دور ہے۔ راہ سلوک کے مسافر کو سب سے پہلے اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ زندگی کے تمام تقاضے اور زندگی کی تمام حرکات و سکنات پیر و مرشد کے تابع ہیں۔ زندگی کی حرکات و سکنات جب سالک پیر و مرشد کے سپرد کر دیتا ہے تو وہ اس کی تمام ضروریات کا کفیل بن جاتا ہے، بالکل اس طرح جس طرح ایک دودھ پیتے بچے کے کفیل اس کے والدین ہوتے ہیں۔ ان بچوں کی کفالت زیر بحث آتی ہے جنہوں نے ابھی تک شعور کے دائرے میں قدم نہیں رکھا ہے۔ جب تک بچہ شعور کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا والدین چوبیس گھنٹے اس کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔
لا تعداد ماورائی واقعات میں سے چند مزید واقعات کا دہرا دینا اس لئے ضروری ہے کہ راہ سلوک کے مسافروں کے سامنے وہ تمام مراحل آ جائیں جن مراحل سے گزر کر کوئی سالک استغناء کے دائرے میں قدم رکھتا ہے اور اس کے ذہن میں استغناء اور بے نیازی کا ایسا پیٹرن Patternترتیب پا جاتا ہے جس کی بنیاد پر سالک غیر اختیاری طور پر بھی اپنے معاملات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ ابھی ہم نے یہ بتایا ہے کہ یقین پیدا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کو یقین کے عوامل سے اس طرح رد و بدل کر دیا جائے کہ یقین اس کی زندگی کا احاطہ کرے۔ ایسا احاطہ کہ شعوری اختیار سے جاننے کے باوجود وہ اس احاطہ یا اس دائرے سے قدم باہر نہ نکال سکے۔ یقین کی تعریف میں ہم پچھلے اسباق میں بالوضاحت بتا چکے ہیں کہ پیدائش سے موت تک اور موت کے بعد کی زندگی میں اعراف حشر و نشر، حساب و کتاب، جنت دوزخ اور
اللہ تعالیٰ کی تجلی کا دیدار سب کا سب یقین کے اوپر قائم ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آدمی کو سب سے پہلے اس بات کا یقین پیدا ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہے وہ موجود ہے اس کے اندر عقل و شعور کام کرتا ہے وہ ایک حد تک بااختیار ہے اور بڑی حد تک اس کے اوپر غیر اختیاری کیفیات نازل ہوتی رہتی ہیں مثلاً کوئی آدمی اپنے ارادے اور اختیار سے اگر سانس لینا شروع کر دے تو چند منٹ میں وہ ہانپ جائے گا۔ کوئی آدمی اپنے ارادے اور اختیار سے سانس نہ لینے کا عمل اختیار کرے تو بیمار ہو جائے گا۔ یا اس کے دماغ میں خون جم جائے گا۔ اسی طرح کوئی آدمی زندگی کے بنیادی تقاضے بھوک میں اپنا ذاتی اختیار استعمال نہیں کرتا عام زندگی میں بھوک لگتی ہے وہ کچھ کھا لیتا ہے، پیاس لگتی ہے تو پانی پی لیتا ہے۔ یہی حالت آدمی کے اندر اس مشین کی ہے جو مشین مسلسل متواتر ہر لمحہ اور ہر آن چل رہی ہے۔ اس مشین کے کل پرزے اعضائے رئیسہ دل، پھیپھڑے، گردے، جگر، پتہ اور آنتوں کی حرکت مسلسل جاری ہے
ارب کی آبادی میں ایک آدمی ایسا نہیں ہے جو اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے اندر فٹ کی ہوئی مشین کو چلاتا ہو۔ مشین بالکل غیر اختیاری طور پر چل رہی ہے۔ اس مشین میں جو ایندھن استعمال ہوتا ہے اس پر بھی انسان کی کوئی دسترس نہیں ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب یہ مشین بند ہو جاتی ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت یا ترقی اسے چلا نہیں سکتی۔ یہ مشین قدرتی نظام کے تحت بتدریج بھی بند ہو جاتی ہے اور اک دم بھی بند ہو جاتی ہے۔ بتدریج بند ہونے کا نام بیماری رکھا جاتا ہے اور مشین کے اک دم بند ہو جانے کو حرکت قلب بند ہو جانا یا ہارٹ فیل کہا جاتا ہے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ بیماری کا علاج اختیاری ہے۔ اگر بیماریوں کا علاج اختیاری ہے تو دنیا میں کوئی آدمی مرتا نہیں۔ علیٰ ہذالقیاس زندگی کے بنیادی عوامل اور وہ تمام محرکات جن پر زندگی رواں دواں ہے انسان کے اختیار میں نہیں ہیں۔ اگر ہم بنیاد پر نظر ڈالیں تو زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب آدمی پیدا ہوتا ہے اور پیدائش پر انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ لاکھوں سال کے طویل عرصے میں ایک فرد بھی ایسا نہیں ہوا جو اپنے ارادے اور اختیار سے پیدا ہو گیا ہو۔ پیدا ہونے والی ہر چیز پیدا ہونے والا ہر فرد ایک وقت متعینہ کے لئے اس دنیا میں آتا ہے اور جب وہ وقت پورا ہو جاتا ہے تو آدمی ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس دنیا میں ٹھہر نہیں سکتا، مر جاتا ہے۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں زیادہ سوچ بچار تفکر یا ذہنی گہرائی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر لمحۃ، ہر آن، ہر منٹ، ہر سیکنڈ یہ صورت حال واقع ہو رہی ہے۔ مختصر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے پیدا کرتے ہیں، چاہتے ہیں تو آدمی صحت مند پیدا ہوتا ہے نہیں چاہتے تو آدمی کی نشوونما میں ایسا سقم واقع ہو جاتا ہے کہ اس کے اعضاء صحیح ہوتے ہیں نہ اس کا دماغ صحیح ہوتا ہے۔ اس کی نظر بھی صحیح کام نہیں کرتی۔ ہاتھ پیروں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی چیز کو پکڑ نہیں سکتا اپنی مرضی سے چل پھر نہیں سکتا۔ سائنس کتنی بھی ترقی کر لے پیدائشی اپاہج اور معذور بچوں کا علاج اس کے پاس نہیں ہے اور اس قسم کے معذور بچوں کو یہ کہہ کر رد کیا جاتا ہے کہ یہ پیدائشی مریض ہیں، یہاں بھی انسان کی بے بسی اور بے اختیاری اظہر من الشمس ہے، سورج کی طرح عیاں ہے۔ قدرت جب بچوں کو پیدا کرتی ہے تو مختلف صورتوں میں پیدا کرتی ہے۔ قد کاٹھ مختلف ہوتا ہے، یہ نہیں دیکھا گیا کہ کوئی بنیادی طور پر کوتاہ آدمی 7فٹ کا بن گیا ہو۔ ایسی بھی دنیا میں کوئی مثال نظر نہیں آتی کہ 7فٹ کا آدمی گھٹ کر دو اڑھائی فٹ کا ہو گیا ہو۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ قد و قامت کے معاملے میں بھی آدمی بے اختیار ہے۔ اب مسئلہ ذہنی صلاحیت اور عقل و شعور کا آتا ہے۔ لوگوں میں جب ہم عقل و شعور کا موازنہ کرتے ہیں تو کوئی آدمی ہمیں زیادہ باصلاحیت ملتا ہے کوئی آدمی ہمیں کم صلاحیت والا ملتا ہے او رکوئی آدمی بالکل بے عقل ملتا ہے۔ سائنس خلاء میں چہل قدمی کا دعویٰ کر سکتی لیکن ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ بے عقل آدمی کے اندر اللہ تعالیٰ فکر و گہرائی عطا کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے اندر اللہ تعالیٰ فکر اور گہرائی پیدا کر دیتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی چیز ہے لیکن جب وہی فکر اور شعور اور گہرائی ان سے چھین لی جاتی ہے اس وقت وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ زندگی کے تمام اجزائے ترکیبی کسی ایک طاقت کے پابند ہیں۔۔۔۔۔۔وہ طاقت جس طرح چاہے چلاتی ہے اور جب چاہے ساکت کر دیتی ہے۔ مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاء نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ لوگ نادان ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہماری گرفت حالات کے اوپر ہے انسان اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق حالات میں رد و بدل کر سکتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ انسان ایک کھلونا ہے۔ حالات جس قسم کی چابی اس کھلونے میں بھر دیتے ہیں اسی طرح یہ کودتا ہے ، ناچتا ہے، آوازیں نکالتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر فی الواقع حالات پر انسان کو دسترس حاصل ہوتی تو کوئی آدمی غریب نہ ہوتا۔
موت کے پنجے نے ان کی گردن مروڑ دی اور دنیا پر ان کا نام و نشان نہیں رہا۔ یہ شداد و نمرود اور فرعون کی مثالیں ایسی نہیں ہیں کہ جس کو ہم تاریخی باتیں کہہ کر گزر جائیں۔ تاریخ ہر زمانے میں خود کو دہراتی ہے۔ البتہ رنگ، روپ، نام اور شکل بدل جاتی ہے۔ ہمارے زمانے میں شہنشاہ ایران کی مثال سامنے ہے جس نے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ منائی، موت کے پنجے نے اس کو اس قدر بے بس اور ذلیل کر دیا کہ اس کے لئے اس کی سلطنت کی زمین بھی تنگ ہو گئی۔ وہ دیار غیر میں مر گیا اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔ اگر حالات انسان کے بس میں ہیں تو اتنا بڑا بادشاہ غریب الدیار نہیں ہو سکتا۔ یہ اور اس قسم کی بے شمار باتیں ہمارے ساتھ ہر روز پیش آتی رہتی ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم ان باتوں پر غور نہیں کرتے اور ان سب باتوں کو اتفاق کہہ کر گزار جاتے ہیں جبکہ کائنات میں اتفاق اور حادثہ کو ہرگز کوئی دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے جو مربوط ہے۔ ہر نظام کی دوسرے نظام کے ساتھ وابستگی ہے۔ اس نظام میں نہ کہیں اتفاق ہے ، نہ کہیں حادثہ ہے، نہ کوئی قدرتی مجبوری ہے۔ اللہ کا ایک نظام ہے اور اس نظام کو چلانے والے کارندے اللہ کے حکم اور اللہ کی مشیئت کے مطابق اسے چلا رہے ہیں۔ آدمی کیا ہے؟ کٹھ پتلی ہے۔ جس طرح کائنات کا نظام چلانے والے کارکن ڈوریوں کو حرکت دیتے ہیں آدمی چلتا رہتا ہے۔ ڈوریاں ہلنا بند ہو جاتی ہیں۔ آدمی مر جاتا ہے۔ یہ باتیں اس لئے عرض کی گئی ہیں کہ میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ استغناء اس وقت تک کسی شخص کے اندر پیدا نہیں ہو سکتا جب تک اس کے یقین میں یہ بات راسخ نہ ہو جائے کہ ہر چیز من جانب اللہ ہے۔ جب کسی بندے کے اندر یہ بات یقین بن جاتی ہے کہ اس نظام میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی حرکت اور بڑی سے بڑی شے اللہ کے بنائے ہوئے ایک مربوط نظام میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی حرکت اور بڑی سے بڑی شے اللہ کے بنائے ہوئے ایک مربوط نظام کے تحت قائم ہے تو اس کے اندر ایک ایسا Patternبن جاتا ہے جس کا اصطلاحی نام استغناء ہے۔ اس Patternکو جب تحریکات ملتی ہیں اور زندگی میں مختلف واقعات پیش آتے ہیں تو ان واقعات کی کڑیاں اس قدر مضبوط، مستحکم اور مربوط ہوتی ہیں کہ آدمی کی عقل یہ سوچنے اور ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کسی چیز کے اوپر یقین کا کامل ہو جانا اسی وقت ممکن ہے۔ جب وہ چیز یا عمل جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ یہ کس طرح واقع ہو گی بغیر کسی ارادے اور اختیار اور وسائل کے پوری ہوتی رہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں کمرے میں بیٹھا ہوا لوح و قلم کے صفحات دوبارہ لکھ رہا تھا۔ عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا۔ لاہور سے کچھ مہمان آ گئے۔ عام حالات میں چونکہ تھوڑی دیر کے بعد کھانے کا وقت تھا اس لئے ذہن میں یہ بات آئی کہ ان مہمانوں کو کھانا کھلانا چاہئے۔ یہ اس دور کا واقعہ ہے جب میں حیرت کے مقام پر سفر کر رہا تھا اور نہ صرف یہ کہ کوئی کھانے پینے کا انتظام نہیں تھا لباس بھی مختصر ہو کر ایک لنگی اور ایک بنیان رہ گیا تھا۔ یہ ایک الگ داستان ہے کہ اس لباس میں گرمی سردی اور برسات کس طرح گزری جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو ہمت اور توفیق عطا کر دیتے ہیں تو بڑی سے بڑی مشکلات اور پریشانیاں پلک جھپکتے گزر جاتی ہیں۔ قصہ کوتاہ یہ کہ ذہن میں یہ بات آئی کہ پڑوس میں سے 5روپے ادھار مانگ لئے جائیں اور ان روپوں سے خورد و نوش کا انتظام کیا جائے۔ خیال آیا کہ اگر 5روپے دینے سے انکار کر دیا گیا تو بڑی شرمندگی ہو گی پھر خیال آیا کہ جھونپڑی والے ہوٹل سے کھانا ادھار لے لیا جائے۔ طبیعت نے اس بات کو بھی پسند نہیں کیا یہ سوچ کر خاموش ہو رہا کہ اللہ چاہے گا تو کھانے کا انتظام ہو جائے گا اور میں کمرے سے باہر آیا جیسے ہی دروازے سے قدم باہر نکالا چھت میں سے 5روپے کا ایک نوٹ گرا۔ نوٹ اس قدر نیا تھا کہ زمین پر گرنے کی آواز آئی۔ فرش پر جب ایک نوٹ پڑا ہوا دیکھا تو نہ معلوم طریقے سے میرے اوپر دہشت طاری ہو گئی لیکن یکایک ذہن میں ایک آواز گونجی یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ وہ نوٹ اٹھا لیا گیا اور کھانے پینے کا بہ فراغت انتظام ہو گیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 135 تا 144
توجیہات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔