احسن الخالقین
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18400
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمایا ہے کہ:
’’انسان ہماری بہترین صناعی ہے۔‘‘
بہترین صناعی کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں انسان ان سب سے افضل ہے، انسان کو مخلوقات میں فضیلت اس بنیاد پر قائم ہے کہ اس کے اندر مخفی علوم جاننے، سمجھنے اور ان سے استفادہ کرنے کے لئے صلاحیتیں موجود ہیں۔ اب سے صدیوں پہلے کی سائنسی ایجادات ہوں یا موجودہ دور میں سائنسی ایجادات، یہ سب دراصل مخفی صلاحیتوں کے استعمال کا مظاہرہ ہیں، زمین پر موجود ہر شئے روشنی کے غلاف میں بند ہے اور روشنی کے غلاف میں مقداریں کام کر رہی ہیں۔ انسان جب مخفی صلاحیتوں کو بیدار کر کے کسی شئے میں خواہ وہ ایٹم ہی کیوں نہ ہو تفکر کرتا ہے تو اس کے اوپر کی شئے کے اندر چھپی ہوئی قوتوں کا انکشاف ہوتا ہے، موجودہ سائنسی ترقی بھی اسی ضابطے اور قاعدے پر قائم ہے۔
سائنسدانوں نے جیسے جیسے تفکر سے کام لیا ان کے اوپر شئے کے اندر کام کرنے والی تخریبی اور تعمیری قوتیں آشکار ہو گئیں۔ جس کے نتیجے میں ایٹم کے بارے میں سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ کائنات میں جتنی بھی اشیاء ہیں خواہ وہ مائع ہوں یا ٹھوس ہوں یا گیس کی صورت میں ہوں، سب کی سب ایٹموں سے بنی ہوئی ہیں اور خود ایٹم زیادہ تر خلاء پر مشتمل ہے، بعض اشیاء میں تمام کے تمام ایٹم ایک جیسے ہوتے ہیں، ایسی اشیاء کو عناصر کہا جاتا ہے جن میں ہائیڈروجن، کاربن، لوہا، سونا، سیسہ اور یورینیم جیسے قدرتی عناصر اور پلاٹینم جیسے انسان کے بنائے ہوئے عناصر شامل ہیں۔ عناصر کے علاوہ مرکبات میں مختلف عناصر کے ایٹم ایک دوسرے میں جذب اور گندھے ہوئے ہوتے ہیں اس طرح عناصر کی باہمی پیوستگی سے باضابطہ اور باقاعدہ سانچے میں ڈھلے ہوئے سالمات بنتے ہیں۔
ایٹم یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ناقابل تقسیم شئے کے ہیں، یونانی زبان میں ٹوم تقسیم کرنے کو کہتے ہیں، آریائی زبانوں میں ’’آ‘‘ نفی کا کلمہ ہے۔ ایٹم کا نام دمقراط نامی سائنسدان کا وضع کردہ ہے، دمقراط نے یہ نظریہ پیش کیا کہ دنیا کی ہر شئے نہایت چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذروں یعنی ایٹموں سے بنی ہوئی ہے۔ ایٹم کا سائز ایک انچ کا ڈھائی کروڑواں حصہ یا ایک سینٹی میٹر کا ایک کروڑواں حصہ ہوتا ہے۔ چھوٹی سوئی کی نوک پر لاکھوں ایٹم رکھے جا سکتے ہیں، ہلکی اشیاء کے ایٹم ہلکے اور بھاری اشیاء کے ایٹم بھاری ہوتے ہیں۔ بشمول انسان تمام جانداروں کی روح بھی ایٹموں سے مرکب ہے، روح کے ایٹم باقی تمام تر اشیاء کے ایٹموں سے چھوٹے اور لطیف ہوتے ہیں۔
موت کے بارے میں دمقراط کا خیال تھا کہ جب روح کے تمام ایٹم جسم سے نکل جاتے ہیں تو موت واقع ہو جاتی ہے، اس حالت میں جسم میں روح کا ایٹم بھی باقی نہیں رہتا جو خارج شدہ ایٹموں کو واپس لا سکے، اس لئے روح نکل جانے کے بعد آدمی زندہ نہیں رہ سکتا۔
ایٹم پر ریسرچ کرنے والے محققین نے تحقیق کی ہے کہ ہر ایٹم میں الیکٹران کی تعداد مختلف ہوتی ہے، الیکٹران ایک ترتیب اور توازن سے مرکز کے گرد تہہ در تہہ مداروں میں گردش کرتے رہتے ہیں، الیکٹران کی گردش کے حوالے سے یہ سوالات ابھرے کہ وقت کے ساتھ ساتھ الیکٹران بتدریج تھکتے کیوں نہیں، ان کی توانائی میں کمی کیوں نہیں ہوتی؟ وہ تھک کر ٹوٹ پھوٹ کر مرکزے میں کیوں نہیں گر جاتے؟ ان سولات کا یہ جواب دیا گیا کہ:
الیکٹران مرکزے کے ارد گرد توانائی کے مختلف سطحوں پر ایک خاص ترتیب سے بکھرے ہوئے گھوم رہے ہیں وہ ایک سطح سے چھلانگ لگا کر دوسری سطح میں داخل ہو سکتے ہیں لیکن دو سطحوں میں معلق نہیں رہ سکتے، جب کوئی ایٹم کسی بھی قسم کی شعاع ’’حرارت‘‘ کو کاسمک ریز روشنی کی شعاعوں کے زیر اثر آ جاتا ہے تو اس کے الیکٹرانوں میں توانائی آ جاتی ہے اور وہ چھلانگ لگا کر واپس قریب کی نچلی سطح میں آجاتے ہیں، توانائی ضائع یا فنا نہیں ہوتی اس لئے وہ روشنی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، روشنی کا طول موج توانائی کی اس مقدار کے مطابق ہوتا ہے جو الیکٹران نے قبول کی تھی۔ ایٹم کی تحقیق میں ایک نئے باب کا اضافہ اس انکشاف سے ہوا کہ بعض عناصر سے شعاعوں کی صورت میں توانائی خود بخود خارج ہوتی رہتی ہے ایسے عناصر میں دریافت ہونے والا سب سے پہلا عنصر یورینیم تھا لیکن توانائی کا اس بے بڑا منبع ریڈیم ہے۔
پائرے کیوری اور مادام کیوری نے دریافت کیا کہ ریڈیم سے شعاعیں نکلتی ہیں یعنی ریڈیم تابکار دھات ہے۔ یہ شعاعیں دیکھی جا سکتی ہیں اور ان کی پیمائش بھی کی جا سکتی ہے۔
لارڈ تھرفورڈ فریڈرک سوڈی کے نظریہ سے اب تک کی جانے والی ایٹم کی تعریف تبدیل ہو گئی ہے، سینکڑوں برس سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ایٹم ناقابل تقسیم ہے لیکن انہوں نے ثابت کر دیا کہ ایٹم قابل تقسیم ہے، انہوں نے ثابت کیا کہ ریڈیم کا ایٹم مسلسل انتشار اور تقسیم در تقسیم کی حالت میں رہتا ہے، فعال ذرات ایک طرف ہو جاتے ہیں اور ایک ہلکا پھلکا ایٹم باقی رہ جاتا ہے جو طبعی اور کیمیائی لحاظ سے اصلی ریڈیم سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔
ایٹم پر ریسرچ کرنے والی لیبارٹری میں مصروف کار سائنٹسٹوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایٹم کی اندرونی صورتحال پیش کرنے والی تصاویر اتار لی گئی ہیں، اس سلسلے کا پہلا فوٹو پینسلوانیا یورنیورسٹی کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ یہ تصویر اصل سائز سے دو لاکھ پچہتر ہزار گنا بڑی کر کے دکھائی گئی۔
تحقیق و تجربات سے یہ بات سامنے آئی کہ مادہ اور توانائی ایک ہی شئے کے دو روپ ہیں کیونکہ یہ تمام ذرات جو اب تک معلوم کئے گئے ہیں، توانائی کی صورت میں سامنے آئے ہیں یعنی ان بنیادی ذرات پر تجربات سے یا ان کی تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ سے آخر کار توانائی ہی حاصل ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مالیکیولز، ایٹم یا بنیادی ذرات جو اب تک دیکھے نہیں جا سکے ہیں ان کے بارے میں اتنی مفصل معلومات کن بنیادوں پر حاصل کی گئی ہیں؟ سائنسدان اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ تجربات کے نتائج سے حاصل ہونے والے تاثر یا خصوصیت کے مظاہرے کی صورت میں یہ اخذ کیا گیا ہے کہ ایٹم اور اس کے ذرات کیا ہیں؟ مثلاً ٹی وی اسکرین پر جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ الیکٹران کے ذرات کے بہاؤ کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ الیکٹران یا الیکٹران بیم دکھائی نہیں دیتی، اس طرح تجربات میں ایٹم کو جب کسی بیرونی قوت یا شعاع کے زیر اثر لایا جاتا ہے تو ایٹمی ذرات پر اس کی اثر پذیری کے نتائج ایک اسکرین پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسکرین پر نظر آنے والا یہ عمل اسکرین کے دھبے، رنگ یا ٹمٹماہٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ روشنی کا دھبہ گہرا ہوتا ہے، بڑا ہوتا ہے، چھوٹا ہوتا ہے، رنگ میں ٹمٹماہٹ کی صورت میں ہوتا ہے اس طرح ذرات کی خصوصیات معلوم کر لی جاتی ہیں۔
الیکٹران ایک ایسا دھبہ ہے جو اب تک ناقابل تقسیم ہے، باقی دونوں ذروں کا قابل تقسیم ہونا ثابت کیا جا چکا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
’’اور جو بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اس نے تمہارے لئے زمین میں پیدا کر رکھی ہیں ان میں نشانی ہے ان کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں یعنی ریسرچ کرتے ہیں۔‘‘
’’اللہ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی۔‘‘
’’چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کی قرآن میں وضاحت نہ ہو۔‘‘
’’اے پیغمبرا! کہہ دیجئے کہ اس کتاب کو اس نے اتارا ہے جو زمین و آسمان کے بھیدوں کو جاننے والا ہے۔‘‘
یعنی کائنات کا ایک ایک ذرہ یعنی اس کا ایک ایک ایٹم اور اس کا ایک ایک سالمہ اس کے علم میں ہے۔
’’پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے مقداروں کے ساتھ تقسیم کیا اور پھر اس تخلیقی فارمولے سے آگاہ کیا۔‘‘
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شئے کو معین مقداروں (ایٹم) سے بنایا اور یہ معین مقداریں دراصل اس شئے کے ظاہر و باطن میں کام کرنے والی صلاحیتیں جو ایک قانون اور نظم کے تحت ایک واحد ہستی کی نگرانی میں برقرار ہیں، بڑے بڑے اجرام سماوی معمولی اور ننھے سے ایٹم، ایٹم کے اندرونی خول یا اجراء، الیکٹران، پروٹان، نیوٹران اس ذات واحد کی نظر کے سامنے ہے، کوئی بھی ذرہ ہو وہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں ہے۔
قرآن پاک میں ہے:
’’وہ ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے، اس کے علم سے کوئی رتی برابر چیز بھی باہر نہیں، وہ چیز آسمان میں ہوں یا زمین میں اور ان تمام چھوٹی بڑی چیزوں کا اور چیزوں کی تمام اقسام کے فارمولے کھلی کتاب میں موجود ہیں۔‘‘
(سباء۔ ۳)
سورۃ سباء کی اس آیت میں تین قسم کے ذرات کا بیان ہوا ہے
- رتی برابر ذرہ
- اس سے چھوٹا
- نسبتاً اس سے بڑا
تخلیق میں تین قسم کے ذرات پائے جاتے ہیں۔
- ایٹم
- ایٹم کے اندرونی اجزاء
- سالم ایٹم کے مرکبات
- مشقال ذرہ یونی وہ رتی برابر چیز جس میں وزن ہے، جب ہم مادی تخلیق یا کسی بھی عنصر کا تذکرہ کرتے ہیں یا میٹر کا لفظ استعمال کرتے ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ چیز جس میں وزن ہو اور معین مقدار یا مقداریں ہوں، ایٹم چونکہ ایک ایسی اکائی ہے جس کے اندر الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران موجود ہوتے ہیں، اس لئے اس میں مقدار اور وزن دونوں ہیں۔ فزکس کے طلباء و طالبات یہ جانتے ہیں کہ ایٹم کا وزن کر لیا گیا ہے، ہائیڈروجن کے ایک ایٹم کا وزن اس کے ایک گرام مقدار کا ایک ہزار چوبیسواں حصہ ہوتا ہے، بتایا جاتا ہے کہ ایک گرام مادے میں کھربوں ایٹم ہوتے ہیں۔‘‘
- اس سے چھوٹا یعنی ایٹم سے نسبتاً چھوٹا، الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران وغیرہ اور ایٹموں کے مرکزوں سے خارج ہونے والی الفا، بیٹا اور گیما شعاعیں۔
- اور اس سے بڑا یعنی ایٹم سے بڑا یعنی قیامت تک دریافت ہونے والے ہر ایٹم کے ذرات اور اجزاء خواہ وہ کتنے ہی چھوٹے ہوں اور کتنے ہی بڑے ہوں، قرآن میں تفکر کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایٹم کا خالق، ایٹم کے اندرونی اجزاء کا خالق ارض و سماء کا خالق ایک ہے اور پوری کائنات میں اس کی ملکیت ہے، اس نے کائناتی سسٹم کو ایک ضابطے کے ساتھ تخلیق کیا ہے اور ہر چیز کو معین مقداروں کے ساتھ وجود بخشتا ہے، مقداروں کا یہ علم وہ لوگ حاصل کر لیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق:
’’اور جن لوگوں نے میرے لئے یعنی میری تخلیق کو جاننے کے لئے جدوجہد اور کوشش کی، میں انہیں اپنے راستے دکھاتا ہوں۔‘‘
اللہ نے قرآن شریف میں لوہے کی (دھات) کا تذکرہ کیا ہے۔
’’ہم نے نازل کیا لوہا (اس میں دوسری دھاتیں بھی شامل ہیں جیسے یورینیم وغیرہ) اور ہم نے اس میں انسانوں کے لئے بے شمار طاقت اور فائدے رکھ دیئے ہیں۔‘‘
زمین کے اوپر جتنی گیس یا دھاتیں موجود ہیں ان کی پہچان ان مقداروں کی وجہ سے ہے جن مقداروں سے ان کی تخلیق ہوئی ہے۔
ہم جب لوہے کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس میں جو مقداریں کام کرتی ہیں وہ یہ ہیں۔
۱۔ 62-59-24-48-30-42-35
اور جب ہم سونے کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس کی مقداریں یہ ہیں۔
۲۔ 51-50-31-35-3
اگر کوئی صاحب بصیرت ان مقداروں سے واقف ہو جائے جو اشیاء کی تخلیق میں کام کر رہی ہیں تو وہ مقداروں کو کم و بیش کر کے شئے میں ماہیت قلب کر سکتا ہے، مقداروں کا علم اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ دھات، سیسہ میں ایسی مقداریں موجود ہیں جو ایٹم کی قوت پر غالب آ سکتی ہیں، یہ دونوں دھاتیں تسویدی لہروں سے فیڈ ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
’’زمین اور آسمان اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب انسانوں کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے۔‘‘
اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان زمین و آسمان میں موجود کسی بھی شئے کے اندر جب تفکر کرے گا تو اس شئے کے اندر کام کرنے والی مقداروں کا علم بھی اسے حاصل ہو جائے گا، مذہبی دانشور اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’زمین، آسمان، چاند، سورج، ہوا اور پانی کو ہماری خدمت گزاری کے لئے معمور کر دیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چاند، سورج، زمین صرف انسانوں کی خدمت گزاری میں مصروف نہیں ہے، زمین پر موجود ہر مخلوق کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔ جس طرح ایک انسان سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی سے فائدہ اٹھاتا ہے اس طرح پرندے، درندے، چرندے اور اشجار بھی فائدہ اٹھاتے ہیں یعنی چاند، سورج، زمین پر موجود تمام مخلوق کی خدمت گزار ہیں۔ محکوم و مسخر ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان کو ان مقداروں کا علم عطا کر دیا گیا ہے، جن مقداروں پر چاند، سورج، زمین، فرشتے، جنات، نباتات و جمادات قائم اور متحرک ہیں۔
مختصر یہ کہ ایٹم مقداروں کا ایک مرکب ہے اور یہ مقداریں مادیت کی اکائی ہیں، مادیت کی ہر اکائی نور کے غلاف میں بند ہے، نور کے اوپر روشنی کا غلاف ہے، روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں دو لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل بتائی جاتی ہے، روشنی کی رفتار سے ہزاروں گنا نورانی لہروں کی رفتار ہے۔ نور اور روشنی مرکب اور مفرد لہروں کا ایک جال ہے جس کے اوپر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ذرہ بنا ہوا ہے۔
فکر جب روشنی کی سطح سے نکل کر نور کی سطح میں داخل ہو جاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹا ذرہ اور اس کے اندر ناقابل بیان طاقت انسانی ذہن پر منکشف ہو جاتی ہے، اس انرجی کو تعمیر اور تخریب دونوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ سائنسی ترقی میں جو عوامل کام کر رہے ہیں ان میں انفرادی سوچ اور مادی مفاد کا عمل دخل ہے اس لئے یہ ساری ترقی نوع انسانی کے لئے ہلاکت کا پیش خیمہ بن گئی ہے، اگر یہی ترقی اور ایجاد قرآن و حکمت اور پیغمبرانہ طرز فکر کے مطابق ہو تو سائنس نوع انسانی کے لئے سکون اور روشنی کا گہوارہ بن جائے گی، فی الواقع صورتحال یہ ہے کہ ترقی کا فسوں انسانی نسل کو آتش فشاں کے کنارے لے آیا ہے۔ یہ دنیا کسی بھی وقت بھک سے اڑ جائے گی اس لئے کہ جو چیز بن جاتی ہے اس کا استعمال اور مظاہرہ ضرور ہوتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 143 تا 149
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔