آباؤ اجداد
مکمل کتاب : باران رحمت
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=20295
پہلا حصہ: محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب(شیبہ) بن ہاشم(عمرو) بن عبد المناف(مغیرہ)بن قصی(زید) بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہر(قریش ان کا لقب تھا) بن مالک بن نضر(قیس) بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ(عامر) بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔
دوسرا حصہ: عدنان بن أوبن ہمیسع بن سلامان بن عوص بن بوز بن قموال بن أبی بن عوام بن ناشد بن حزا بن بلداس بن یدلاف بن طابخ بن جاحم بن ناحش بن ماخی بن عیض بن عبقر بن عبید بن الدعا بن حمدان بن سنہر بن یثر بن یحزن بن یلحن بن أرعوی بن عیض بن دیشان بن عیصر بن أفناد بن أیہام بن مقصربن ناحث بن زارح بن سمی بن مزی بن عوضہ بن عرام بن قیدار بن اسمٰعیلؑ بن ابراہیمؑ
تیسرا حصہ: ابراہیمؑ بن تارح(آزر)بن ناحور بن ساروع(یا ساروغ) بن راعو بن فالخ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوحؑ بن لامک بن متوشلخ بن اخنوخ(کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت ادریسؑ ہیں) بن یرد بن مہلائیل بن قینان بن آنوشہ بن شیسؑ بن آدمؑ۔
نوٹ: دوسرا اور تیسرے حصے میں اختلاف موجود ہے جبکہ پہلے حصے کے متعلق تمام مؤرخین متفق ہیں۔
قیدار
حضرت اسماعیل ؑ کو اﷲ تعالیٰ نے بارہ صاحبزادے عطافرمائے ۔ایک بیٹے کا نام قیدار تھا ۔ یہ اپنے سب بھائیوں سے زیادہ بہادر،صاحب کردار مشہور تھے ۔ ان کی نسل شمالی عرب میں آباد ہوئی اور اس نسل سے فخرِ کائنات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کاظہور ہوا۔
عدنان
قیدار کی اولادمیں جتنے امیر اور حکمران پیدا ہوئے ان میں اتفاق رائے سے اہلِ عرب کے نزدیک سب سے مشہور لائق اور فہم و فراست کا مالک عدنان تھا ۔ان کا خاندان حجاز میں آباد ہوا۔
قصیٰ
قصیٰ بن کلاب عدنان کی نسل سے ہیں ۔مکہ کی سرداری ان کے زمانہ میں قریش کے پاس آئی ۔ قصیٰ بہت دانشمند، منتظم اور تاجر تھے ۔مکہ کے تمام مناصب اور اعزازات بھی قصیٰ کے پاس تھے ۔یہ اپنی قوم کو جمعہ کے روز جمع کرتے تھے اور انہیں وعظ و نصیحت فرماتے تھے کہ عنقریب ان میں ایک نبی مبعوث ہونے والے ہیں ان کی دعوت قبول کرنا ۔
قصیٰ نے مکہ میں دارالندوہ تعمیرکروایااس کا دروازہ بیت اﷲ کی جانب رکھا۔قصیٰ اس میں بیٹھ کر قوم کے سارے مسائل باہمی مشورہ سے حل کرتے تھے ۔ جب کبھی کسی اہم مشورہ کے لئے وہ قوم کے سر داروں کو حاضر ہونے کا حکم دیتے تھے تو سب وہاں حاضر ہوجاتے تھے۔
قصیٰ نے اپنی قوم میں اتحاد اور یکجہتی کی فضا قائم کی اور مختلف شعبے تشکیل دیئے۔ ان شعبوں کوقریش کے مختلف قبائل کے سپرد کیا تاکہ نظم ونسق بہتر طور پر انجام پاسکے۔
۱۔ حجابہ :۔۔۔۔خانہ کعبہ کی نگرانی و انتظامات کرنا ۔
۲۔ رفادہ:۔۔۔حجاج کی مالی اعانت اور طعام و قیام کا انتظام کرنا۔
۳۔ سقایہ:۔۔۔یہ شعبہ حج کے موقع پر حاجیوں کو پانی کی فراہمی کے انتظامات کرتا تھا ۔
۴۔ لواء:۔۔۔اسے آپ موجودہ دور کا وزارت ِ دفاع سمجھئے ۔ یہ شعبہجنگ کی حکمت عملی بناتا تھا۔
۵۔ سفارت:۔۔۔سفارتی اُمور کی انجام دہی ۔
۶۔ ثالثی:۔۔۔۔۔ تنازعات کا تصفیہ کرنا۔
قصیٰ بن کلاب کے تین بیٹے تھے ۔
۱۔ عبداﷲ بن قصیٰ ۲۔ اسد بن قصیٰ ۳۔ عبدمناف بن قصیٰ
عبدمناف بن قصیٰ
عبد مناف اپنی سرداری کے زمانے میں قریش کو خدا ترسی و حق شناسی کی نصیحت فرمایا کرتے تھے۔اﷲ تعالیٰ نے عبد مناف کو چار بیٹے عطا فرمائے جن سے مزید چار ذیلی قبیلے وجود میں آئے۔
۱۔ عبد شمس بن عبد مناف ۲۔ نوفل بن عبد مناف
۳۔ مطلب بن عبد مناف ۴۔ ہاشم بن عبد مناف
ہاشم بن عبد مناف
ہاشم اپنے اوصاف کی وجہ سے قوم کے سردار تھے ۔ ان کا نام عمرو تھا جبکہ ہاشم لقب تھا۔ ایک مرتبہ مکہ میں قحط سالی کے باعث فاقہ کی نوبت پہنچ گئی ۔لوگوں کو کئی روز تک کھانے کے لئے کچھ میسر نہیں آیا۔ ہاشم مکہ سے شام آگئے وہاں سے اشیاء خوردونوش خریدیں اور مکہ واپس آئے۔روٹیاں پکوائیں اونٹ قطار در قطارذبح کئے سالن بنوایا۔سالن کے شوربے میں روٹیاں توڑ تور کر ڈالی گئیں۔تمام لوگوں کے لئے دسترخوان بچھا دیا گیااور دعوت عام کردی ۔ عربی میں اس کھانے کو ثرید کہتے ہیں اس واقعہ کے بعد انہیں ہاشم کہا جانے لگا ۔ہشم ٹکرے ٹکڑے کرنے کو کہا جاتا ہے ۔
ہاشم ایک روز یثرب میں ٹھہرے۔وہاں انہوں نے قبیلہ خزرج کی خاتون سلمی بنت عمرو سے نکا ح کیا ۔جس کے بطن سے شیبہ نامی فرزند پیدا ہوئے ۔ہاشم کی وفات دورانِ تجارت فلسطین کے شہر غزہ میں ہوئی۔شیبہ یثرب میں اپنی والدہ کے ہاں پرورش پارہے تھے ۔ان کے چچا مطلب ان کی والدہ سلمیٰ بنت عمرو کی رضامندی سے مکہ لے آئے ۔
شیبہ عر ف عبدالمطلب
جس وقت مطلب کی سواری مکہ میں داخل ہوئی شیبہ ان کے عقب میں بیٹھے ہوئے تھے۔اہلِ مکہ نے سمجھا کہ یہ نوجوان مطلب کا غلام ہے اور کسی نے بلند آواز سے یہ کہہ دیا ’’عبدالمطلب ‘‘ مطلب نے فوراً کہا یہ میرا غلام نہیں بلکہ میرا بھتیجا ہے ہاشم کا بیٹاہے۔لیکن شیبہ عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہوگئے اور ان کا اصلی نام لوگوں کے ذہن سے اُتر گیا۔
مطلب کی وفات کے بعد مکہ کی سیادت اور تمام مناصب جناب عبدالمطلب کو منتقل ہوگئے ۔ عبدالمطلب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دادا ہیں ۔عبدالمطلب اپنے عظیم الشان کارناموں بلندہمتی اوراوصاف کے باعث ساری قوم کی آنکھوں کے تارے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عبدالمطلب کو بے مثال حسن و جمال عطا کیا تھا۔حضرت عبدا لمطلب کی شخصیت پر اثر ،پر عظمت اور وقار میں بے مثال تھی۔ حضرت عبدالمطلب کو جو دیکھتا مرعوب ہو جاتا تھا۔ حضرت عبدالمطلب کی سخاوت اپنے باپ ہاشم سے زیادہ تھی ۔ان کی مہمان نوازی چرند وپرند تک پہنچ گئی تھی ۔
زم زم کی کھدائی
حضرت اسماعیل ؑ کی وصیت کے مطابق ان کے بیٹے قیدار خانہ کعبہ کے متولی ہوئے اوربنو اسماعیل کی اولاد خانہ کعبہ کی متولی ہوتی رہی۔انقلاب زمانہ سے بنو اسماعیل اور بنوجرہم میں تنازعہ پیدا ہوگیا جو مخالفت میں بدل گیا۔ بالآخر بنی جرہم غالب آگئے اور مکے میں جرہم کی حکومت ہوگئی۔ زمانے کے نشیب و فراز سے حالات میں تبدیلی آتی رہتی ہے ۔خاندانی اختلاف کی وجہ سے حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد مکہ کے اطراف میں آباد ہوگئی۔ جرہم کا جب ظلم و ستم خصوصاً خانہ کعبہ کی بے حرمتی سامنے آئی تو قبائل عرب کھڑے ہوگئے مجبوراً قبیلہ جرہم کو مکہ سے نکلنا پڑا لیکن جس وقت وہ مکہ سے نکلے انہوں نے خانہ کعبہ کے تبرکات کو زم زم کے کنویں میں ڈال دیا اور اس میں مٹی ڈال کر بھر دیا اور زمین کو ہموار کردیا۔ اس طرح زم زم کا نشان باقی نہیں رہا۔
جب مکہ کی حکومت اور سرداری حضرت عبدالمطلب کو ملی توحضرت عبدالمطلب کو خواب میں بتایا گیا کہ زم زم کے کنویں کو کھودا جائے ۔
حضرت عبدالمطلب کہتے ہیں :
’’ میں حطیم میں سورہا تھا ، میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا:’’برّہ کھودو ۔‘‘
میں نے دریافت کیا :’’برّہ کیا ہے ۔‘‘ لیکن وہ شخص چلاگیا ۔
اگلے روز میں نے پھر خواب میں دیکھا کہ وہ شخص کہہ رہا ہے: ’’مَضْنُونَہ کھودو۔ ‘‘
میں نے پوچھا :’’مَضْنُونَہ کیا ہے؟‘‘لیکن وہ چلاگیا۔
تیسرے روز پھر اسی جگہ میں نے خواب دیکھا ۔ وہ شخص کہہ رہا ہے :
’’طیبہ کھودو۔‘‘
میں نے پوچھا :’’طیبہ کیا ہے؟‘‘ لیکن وہ شخص کچھ کہے بغیر چلاگیا۔
چوتھے روز میں اسی جگہ سورہا تھا میں نے دیکھا کہ وہ شخص کہہ رہا ہے:
’’ زم زم کھودو ۔‘‘
یہ پانی کاایک کنواں ہے ۔ اس کنویں کا پانی نہ کبھی ٹوٹتا ہے اور نہ کبھی کم ہوتا ہے اور بے شمار حاجیوں کو سیراب کرتا ہے۔
پھر اس شخص نے کچھ نشانات اور علامات بتائیں اور کہا: ’’ اس جگہ کو کھودو۔‘‘
اس طرح بار بار دیکھنے اور نشاندہی کے بعدحضرت عبدالمطلب کو یقین ہوگیا کہ یہ سچاخواب ہے۔
حضرت عبدالمطلب نے قریش سے اپنا خواب بیان کیا اور کہا :’’ میرا ارادہ ہے کہ اس جگہ کنواں کھودا جائے ۔ ‘‘
قریش نے کنواں کھودنے کی مخالفت کی ۔ مگر حضرت عبدالمطلب نے مخالفت کی پروا نہیں کی۔
کدال پھاوڑا لے کر اپنے بیٹے حارث کے ساتھ خواب میں بتائی ہوئی جگہ پہنچ گئے اور نشان کے مطابق کنواں کھودنا شر وع کردیا۔ حضرت عبدالمطلب زمین کھودتے تھے اور ان کے بیٹے حارث مٹی باہر نکالتے تھے۔ تین روز کے بعد کنواں کی بنیاد ظاہر ہوئی۔ حضرت عبدالمطلب نے خوشی سے اﷲ اکبر کا نعرہ لگایا اور کہا :’’یہی حضرت اسماعیل ؑ کا کنواں ہے ‘‘۔
اس کے بعدحضرت عبدالمطلب نے چاہ زم زم کے قریب چند حوض بنوائے جن میں آب زم زم بھر کر حاجیوں کو پلاتے تھے۔ حاسدوں نے یہ شرارت کی کہ رات کوان حوضوں کو خراب کردیتے تھے۔ صبح ہوتی تو حضرت عبدالمطلب ان حوضوں کو صاف کرتے تھے۔
بالآخر انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ حضرت عبدالمطلب کو خواب میں بتایا گیا کہ تم یہ دعامانگو:
’’اے اﷲ !میں آبِ زم زم سے لوگوں کو غسل کرنے کی اجازت نہیں دیتا، وہ صرف آبِ زم زم پی سکتے ہیں۔‘‘
صبح بیدار ہونے کے بعد حضرت عبدالمطلب نے اس بات کا اعلان کردیا۔
اس کے بعد جس کسی نے حوض کو خراب کرنے کا ارادہ کیاوہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہوگیا۔ جب باربار بیمار ہونے کے واقعات پیش آئے تو حاسدوں نے آبِ زم زم کے حوضوں کو خراب کرنا چھوڑدیا۔
حضرت عبدالمطلب کی نذر
زم زم کا کنواں کھودنے کے وقت حضرت عبدالمطلب کے اکلوتے بیٹے حارث کے سوا کسی نے کنواں کھودنے میں مد د نہیں کی ۔ حضرت عبدالمطلب نے منت مانی اور اﷲ تعالیٰ سے دعا کی :
’’ مجھے دس بیٹے عطا فرمائیں تو میں ایک بیٹے کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کروں گا۔‘‘
اﷲ تعالیٰ نے حضرت عبدالمطلب کی دعا قبول فرمائی۔ ایک رات حضرت عبدالمطلب خانہ کعبہ کے سامنے سو رہے تھے کہ انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص کہہ رہا ہے :
’’ اے عبدالمطلب!اپنی اس نذر کو پورا کر جو تونے اس گھر کے مالک اﷲ تعالیٰ کیلئے مانی تھی ۔ ‘‘
حضرت عبدالمطلب خواب سے بیدار ہوئے اور سب بیٹوں کو جمع کیا اور اپنی اس نذر کا تذکرہ کیا جو انہو ں نے مانی تھی ۔ سب نے بیک زبان ہوکرکہا :
’’اے ہمارے باپ! آپ اپنی نذر پوری کریں ہم آپ کی مکمل اطاعت کریں گے، ہم سب حاضر ہیں ‘‘۔
حضرت عبدالمطلب نے سب بیٹوں کے نام قرعہ ڈالا۔ قرعہ حضرت عبداﷲ کے نام نکلا۔ حضرت عبداﷲ کو حضرت عبدالمطلب سب بچوں سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بہت خوبصورت اور بڑے پاکیزہ کردار و اخلاق کے حامل تھے۔
حضرت عبدالمطلب نے حضرت عبداﷲ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں قربان کرنے کے لئے مذبح کی طرف لے گئے۔ چھری حضرت عبدالمطلب کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت عبداﷲ کی بہنیں یہ دیکھ کر رونے لگیں اور ایک بہن نے حضرت عبدالمطلب سے عرض کیا:
’’بابا جان! میری درخواست ہے کہ آپ دس اونٹوں اور عبداﷲ میں قرعہ ڈالیے۔ اگر قرعہ اونٹوں کے نام پر نکل آئے تودس اونٹوں کی قربانی دے دیجئے۔‘‘
اس وقت دس اونٹ ایک آدمی کا خون بہا ہوتا تھا۔ جب قرعہ ڈالا گیا تو حضرت عبداﷲ کا نام نکلا۔ حضرت عبدالمطلب دس دس اونٹ زیادہ کرکے قرعہ ڈالتے گئے مگر قرعہ عبداﷲ کے نام کا نکلتا رہا۔ یہاں تک کہ جب سو اونٹوں کا قرعہ ڈالا گیا توقرعہ اونٹوں کے نام کا نکلا۔ اس وقت حضرت عبدالمطلب اور تمام حاضرین نے اﷲ اکبر کا نعرہ لگایا۔ بہنیں اپنے بھائی عبداﷲ کو ساتھ لے گئیں۔ حضرت عبدالمطلب نے قربانی کے سو اونٹ صفا اور مروہ کے درمیان نحر کیے ۔
حضرت عبدالمطلب اپنی اولاد کو ظلم اور ستم سے منع فرماتے اور اچھے اخلاق کی ترغیب دیتے تھے۔ برائیوں سے بچنے اور نذر پورا کرنے کی تاکید فرماتے تھے ۔ بہن، پھوپی اور خالہ وغیرہ سے نکاح کرنے سے منع فرماتے تھے۔ شراب اور زنا سے روکتے تھے۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع فرماتے تھے۔ اس زمانے میں لوگوں میں برہنہ ہوکر خانہ کعبہ کا طواف کرنا معمول تھا۔ جس کی حضرت عبدالمطلب نے ممانعت کی۔
حضرت عبدالمطلب کی اولادوں کے نام
حضرت عبدالمطلب کے ہاں بقول ابنِ ہشام پانچ بیویوں سے دس لڑکے اور چھ لڑکیاں پیدا ہوئیں۔جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
بیٹے
۱۔ حارث ۲۔ زبیر ۳۔ حضرت حمزہ ؓ ۴۔ ضرار ۵۔ ابو طالب
۶۔ ابو لہب ۷۔ مقوم ۸۔ حجل ۹۔حضرت عباسؓ ۱۰۔حضرت عبداﷲ
بیٹیاں
۱۔ ارویٰ ۲۔ برّہ ۳۔ امیمہ ۴۔ حضرت صفیہؓ
۵۔ عاتکہ ۶۔ بیضاء ام حکیم۔
حضرت آمنہ سے شادی
حضرت عبد اﷲ کی پاکیزہ سیرت اور حسن و جمال کی وجہ سے بہت سے اچھے گھرانوں کی لڑکیاں آپ کی زوجیت کا شرف حاصل کرنا چاہتی تھیں۔
حضرت عبدالمطلب نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداﷲ کی شادی کے لئے حضرت آمنہ کا انتخاب کیا جو وہب بن عبدمناف کی صاحبزادی ہیں اور نسب اور رتبے کے لحاظ سے قریش کی افضل ترین خاتون ہیں۔ ان کے والد نسب اور شرف دونوں حیثیت سے قبیلہ بنو زہرہ کے سردار تھے۔
حضرت عبداﷲ شادی کے کچھ عرصے بعد ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام گئے۔ واپسی میں یثرب کے مقام پر بیمار ہوئے اور عالم ِ جوانی میں انتقال کرگئے۔ (اناﷲ واناالیہ راجعون)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ماں اور باپ دونوں کی طرف سے نسب میں افضل ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 38 تا 43
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔