یہ تحریر 简体中文 (چائینیز) میں بھی دستیاب ہے۔
قربانی کے مسائل
مکمل کتاب : روحانی نماز
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6904
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ قربانی کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے وہ زمین تک پہنچنے سے پہلے مقبول بارگاہ ہو جاتا ہے۔
قربانی ہر اس عاقل و بالغ مقیم مسلمان پر واجب ہے جس کی مِلک میں ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کے برابر کا مال موجود ہو۔ یہ مال سونا، چاندی ہو یا اس کے زیورات ہوں یا تجارت کا مال ہو یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا زائد کوئی مکان وغیرہ ہو۔ قربانی کے لئے اس مال پر سال بھر گزرنا بھی ضروری نہیں ہے۔
جس شخص پر قربانی واجب نہ تھی، اگر اس نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خرید لیا تو اس کے اوپر قربانی واجب ہو گی۔
قربانی صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے۔ قربانی کے یہ دن ذی الحجہ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخیں ہیں۔ ان تین روز میں کسی بھی روز قربانی کی جا سکتی ہے لیکن افضل یہ ہے کہ پہلے روز قربانی کر دی جائے۔
اگر قربانی کے دن گزر گئے۔ ناواقفیت، غفلت یا کسی عذر کی وجہ سے قربانی نہیں کی جا سکی تو قربانی کی قیمت فقراء و مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے لیکن قربانی کے تین دنوں میں جانوروں کی قیمت صدقہ کر دینے سے یہ واجب ادا نہ ہو گا جیسے نماز ادا کرنے سے روزہ اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا۔
اگر اللہ نے استطاعت دی ہے تو اپنے مرحوم رشتہ داروں، ماں باپ، دوسرے بزرگوں، پیر و مرشد، سلسلہ کے مشائخ، انبیاء اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے قربانی کی جائے۔
بکرا، دنبہ، بھیڑ ایک ہی شخص کی طرف سے قربانی کیا جا سکتا ہے۔ گائے، بیل، بھینس اور اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ایک کافی ہے۔
خصّی (بدھیا) بکرے کی قربانی جائز ہے۔ بکرا، بکری ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے۔ بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا فربہ اور تیار ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے۔ گائے، بیل، بھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے۔
اگر جانوروں کا فروخت کرنے والا پوری عمر بتاتا ہے اور ظاہری حالت سے اس کے بیان کی تکذیب نہیں ہوتی تو اس پر اعتماد کر لینا چاہئے۔
اندھے، کانے، لنگڑے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ اسی طرح ایسا مریض اور لاغر جانور جو قربانی کی جگہ تک اپنے پیروں سے نہ جا سکے، اس کی قربانی بھی جائز نہیں۔ جس جانور کا تہائی سے زیادہ کان یا دُم وغیرہ کٹی ہوئی ہو اس کی قربانی نہیں ہو سکتی۔
جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر نہ ہوں اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ اسی طرح جس جانور کے کان پیدائشی طور پر بالکل نہ ہوں، اس کی قربانی بھی درست نہیں۔
قربانی کے جانورکو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے۔ اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو دوسرے سے ذبح کرا سکتا ہے مگر ذبح کرتے وقت وہاں موجود رہنا انسب ہے۔
قربانی کی نیت صرف دل سے کرنا کافی ہے۔ زبان سے کہنا ضروری نہیں البتہ ذبح کرتے وقت بِسْمِ اللّٰہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہنا ضروری ہے۔
سنت ہے کہ جب جانور کو ذبح کرنے کے لئے رُوبقبلہ لٹا دیا جائے تو یہ دعا پڑھی جائے:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَالْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلوٰتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَانِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰالِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo
اور ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے۔
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ وَّ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْھِمَا الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ
اگر قربانی دوسروں کی طرف سے ہو تو دعا مذکورہ میں مِنِّیْ کی جگہ مِنْ کہا جائے اور اس کے ساتھ ان لوگوں کے نام لئے جائیں جن کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہو۔
قربانی کے جانور کو چند روز پہلے پالنا افضل ہے۔
قربانی کے جانور کا دودھ نکالنا یا اس کے بال کاٹنا جائز نہیں اور اگر کسی نے ایسا کیا تو دودھ یا بال یا ان کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔
عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں لیکن جس شہر میں کئی جگہ نماز عید ہوتی ہو تو شہر میں کسی ایک جگہ بھی نماز عید ہو گئی تو پورے شہر میں قربانی جائز ہو جاتی ہے۔
قربانی واجب تھی اور قربانی کا جانور خرید لیا۔ پھر وہ گم ہو گیا یا چوری ہو گیا یا مر گیا تو واجب ہے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کر دی جائے۔ اگر دوسری قربانی کرنے کے بعد پہلا جانور مل جائے تو بہتر ہے کہ اس کو بھی راہ اللہ قربان کر دیا جائے۔ اگر یہ شخص غریب ہے جس پر پہلے سے قربانی واجب نہ تھی، نفلی طور پر اس نے جانور خرید لیا، پھر وہ گم ہو گیا یا مرگیا تو اس کے ذمے دوسری قربانی واجب نہیں۔ ہاں، اگر گم شدہ جانور قربانی کے دنوں میں مل جائے تو قربانی کرنا واجب ہے اور ایام قربانی کے بعد ملے تو اس جانور یا اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔
جس جانور میں کئی حصے وار ہوں تو گوشت وزن کر کے تقسیم کیا جائے۔ اندازے سے تقسیم نہ کیا جائے۔
قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے۔ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں۔ ایک اپنے اہل و عیال کے لئے، ایک حصہ احباب کے لئے اور ایک حصہ غرباء میں تقسیم کیا جائے۔
ذبح کرنے والے کا اُجرت میں قربانی کا گوشت یا کھال دینا جائز نہیں۔ اجرت علیحدہ سے دینی چاہئے۔ قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا مثلاً مصلّٰے یا چمڑے کی کوئی چیز ڈول وغیرہ بنوا لینا جائز ہے۔ لیکن اگر اس کو فروخت کر دیا جائے تو اس کی قیمت اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں۔ قربانی کی کھال کسی خدمت کے معاوضے میں دینا جائز نہیں۔ مسجد کے مؤذن یا امام وغیرہ کو حق الد مت کے طور پر بھی دینا درست نہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 137 تا 141
یہ تحریر 简体中文 (چائینیز) میں بھی دستیاب ہے۔
روحانی نماز کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔