انگلینڈ میں خطاب
مکمل کتاب : ذات کا عرفان
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6603
جب زمین پر بہت زیادہ فساد پھیلا اور انسان انسان کا دشمن بن گیا اور لوگوں کے دلوں سے اپنی اولاد کی محبت مٹ گئی اور لوگوں نے اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا شروع کر دیا۔ فحاشی اور عریانی عام ہو گئی۔ دنیا میں ایک عذاب مسلط ہو گیا۔ انسان نے انسان کو کھانا شروع کر دیا۔ ہر طرف ظلم و جہالت کا بازار گرم ہو گیا۔ زمین نے جب یہ دیکھا کہ میرے اوپر رہنے والے انسان درندے بن گئے تو زمین نے اللہ سے فریاد کی۔ اللہ نے زمین کی فریاد سنی اور اللہ تعالیٰ کو زمین پر اور زمین پر بسنے والے لوگوں کی نجات کے لئے اپنے حبیب خاتم النبیین محمد رسول اللہﷺ کو بھیجا۔ حضورﷺ کی تشریف آوری اس زمین پر بلاشبہ زمین کی اور زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کی خوش نصیبی ہے۔ رسول اللہﷺ ایک ایسے مقام پر تشریف لائے جہاں جھلستی ہوئی دھوپ، سورج کی تمازت اور ظلم اور بربریت کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ رسول اللہﷺ نے جب اپنی قوم کا یہ حال دیکھا تو حضورﷺ کا دل جو اللہ کے نور سے معمور تھا ، اس طرف متوجہ ہوا کہ نوع انسانی جو ایک دوسرے کی دشمن بن گئی ہے اس کے اندر پیار اور محبت تقسیم کی جائے تا کہ پیار اور محبت سے تمام انسان ایک نقطہ اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور انسانوں نے جو یہ بے شمار خدا بنا لئے ہیں۔ ان خداؤں سے ہٹ کر ایک خدا کی پرستش کریں۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک سے ہر مسلمان کم و بیش واقف ہے۔ رسول اللہﷺ کی زندگی اس طرح گزری کہ پیدائش سے پہلے والد کا انتقال ہو گیا۔ پھر والدہ کا انتقال ہوا۔ اور پھر دادا اس دنیا سے دوسری دنیا میں چلے گئے۔ تمام سرپرستوں سے آزاد ہونے کے بعد بھی اللہ کی طرف سے جو تربیت مقرر تھی وہ رنگ لائی۔ حضورﷺ نے محنت کی۔ مزدوری کی۔ شادی کی اور تجارت بھی کی لیکن ان دنیاوی تمام کاموں کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ نے اللہ کی طرف بھی ہمیشہ دھیان دیا اور اللہ کے معاملات میں بھی تفکر کرتے رہے۔
جب یہ دیکھا کہ دنیاوی معاملات اللہ کے بارے میں تفکر کرنے میں خارج ہوتے ہیں تو مکہ سے غار حرا تشریف لے جانے لگے اور وہاں مراقبہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور حضور پاکﷺ پر قرآن نازل ہوا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا:
‘‘اپنے رب کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا انسان کو خون کی پھٹکی سے۔’’
اللہ کے محبوب نے فرمایا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا۔ تم پڑھو اور پھر ایک امی آدمی نے جس نے کبھی قاعدہ نہیں پڑھا لکھا کبھی کتاب نہیں پڑھی، کبھی تختی نہیں لکھی۔ قرآن جیسی کتاب تمام نوع انسانی کے لئے محفوظ کر دی۔
قرآن نازل ہونے کے بعد نماز فرض ہوئی، روزے فرض ہوئے اور جتنے دوسرے دینی ارکان ہیں ان سب کی فرضیت ہوئی اور مسلمان کو ایک پروگرام مل گیا۔ آج ہم جتنے بھی مسلمان ہیں، ہماری شناخت حضورﷺ کا چھوڑا ہوا یہی پروگرام ہے۔
ہماری پہچان یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں یعنی ہم اللہ کے برگزیدہ بندے اور اللہ کے محبوب خاتم النبیین رسول اللہﷺ کے امتی ہیں اور ہماری دوسری پہچان یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارا عمل قرآن کے مطابق ہو۔ ہماری زندگی قرآن کے مطابق ہو، حضور پاکﷺ کی زندگی کے مطابق ہو۔ جب تک ہمارا عمل خالصتاً قرآن و حدیث کے مطابق رہا ہم ترقی کرتے رہے۔ ایسی ترقی کہ ساری دنیا میں ہماری حکمرانی قائم ہو گئی۔ ہمارے بزرگوں نے نئی نئی سائنس ایجادات کیں پھر ایسا وقت آیا اور مسلمانوں کو ایسی نظر لگی اور دشمنوں نے کچھ ایسی سازشیں کیں کہ اس کے باوجود کہ ہم مسلمان بھی ہیں کلمہ طیبہ بھی پڑھتے ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان سے ہمیں عشق بھی ہے، محبت بھی ہے، اللہ کو ایک بھی مانتے ہیں، ترقی رک گئی اور مسلمان قوم آہستہ آہستہ ذلیل و خوار ہوتی گئی۔ یہ کون نہیں جانتا کہ اسپین میں مسلمانوں نے سینکڑوں سال حکومت کی اور اب وہاں دیکھنے کو مسلمان نظر نہیں آتا۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے کئی سو سال حکومت کی۔
میں پاکستان سے ہزاروں میل کا سفر کر کے آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ ہم سر جوڑ کر بیٹھیں اور یہ تلاش کریں کہ آخر وہ کونسا عمل ہے کہ جس عمل سے ہمارے بزرگوں نے ہمارے اسلاف اور ہمارے بڑوں نے تمام دنیا پر حکمرانی کی اور وہ کونسا ناقص عمل ہے جس کی وجہ سے ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔ یہ ہمیں تلاش کرنا ہے۔ ایسی کونسی بات ہو گئی ہے کہ جب ہم اپنے بزرگوں کی طرح سارے کام کر رہے ہیں، وہی کام جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ساری دنیا پر حکمران کر دیا اور جب وہ سارے کام جو ہمارے بزرگوں نے کئے ہیں ہم بھی کر رہے ہیں تو ہمیں حکمرانی کیوں نہیں ملتی؟ ہم ہر چیز کے لئے غیروں کے محتاج کیوں ہیں؟
اس کی وجہ میں نے جو تلاش کی ہے۔ یقیناً آپ حضرات بھی اس سلسلے میں سوچ بچار کرتے ہوں گے۔ یہ کہ آج کے دور میں ہمارا عمل جسمانی اور زبانی زیادہ ہے۔ ہمارے بزرگ جب یہی عمل کرتے تھے تو جسمانی حرکت کے ساتھ ساتھ ہر عمل کی حکمت اور روح بھی ان کے پیش نظر ہوتی تھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک واقعہ عام طور پر تذکرہ میں آتا ہے کہ دشمن نے تیر مارا جو کمر میں اتر گیا۔ جب اس تیز کو نکالنا چاہا تو تکلیف ہوئی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں نماز کی نیت باندھ لیتا ہوں پھر تم تیر نکال لینا۔
حضرت علیؓ نے نماز کی نیت باندھ لی۔ کمر میں سے تیر نکالا گیا۔ پٹی بھی ہو گئی۔ انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کیا ہوا۔ اس بات سے یہ ثابت ہوا کہ ہمارے بزرگ جب نماز قائم کرتے تھے تو نماز کی حکمت، نماز کے مفہوم اور نماز کی روح سے قریب ہو جاتے تھے، وہ نماز کے انوار میں جذب ہو جاتے تھے۔ آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اپنی پوری کوشش کے باوجود ہم نماز میں کسی بھی طرح یکسوئی حاصل نہیں کر سکتے۔ نماز میں اتنے خیالات آتے ہیں کہ ہم چار رکعتیں پوری کر لیتے ہیں اور ہمیں یہ یاد بھی نہیں رہتا کہ ہم نے کس رکعت میں کونسی سورۃ پڑھی تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم قرآن کو لفظوں میں پڑھتے ہیں لیکن معنی اور مفہوم پر غور و فکر نہیں کرتے۔
دیکھئے! یہ بات ہر آدمی جانتا ہے کہ اگر کوئی کام بغیر سوچے سمجھے، بغیر غور و فکر کے کیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ عام طور پر غلط نکلتا ہے لیکن اگر وہی کام سوچ سمجھ کر اور غور و فکر کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ عام طور پر اچھا ہوتا ہے۔
جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کو اس لئے دی ہے کہ نوع انسانی اس کتاب کو پڑھ کر اس کے معنی و مفہوم پر غور کر کے اس کے انوار سے فائدہ اٹھائے جو انوار انسان کو اللہ کے حبیب رسول اللہﷺ سے قریب کر دیتے ہیں اور وہ انوار جن کا ذخیرہ انسان کے اندر اگر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اتنا انعام اس کے اوپر کرتے ہیں کہ اسے اپنا عرفان عطا فرما دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں جو قرب نوافل سے اللہ کی یاد سے اتنے ہلکے اور لطیف ہو جاتے ہیں کہ اللہ انہیں اچک لیتا ہے اور انہیں اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے۔ جب ہم اپنے بزرگوں کو دیکھتے ہیں تو یہ بات ہمیں کھلی آنکھوں سے نظر آتی ہے کہ ہمارے اسلاف اللہ سے بھی قریب تھے۔ اللہ کے رسولﷺ کی محبت سے بھی قریب تھے۔ قرآن پڑھتے تھے۔ قرآن کی حکمت سے بھی واقف تھے۔
قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو خود اپنا تعارف کراتی ہے اور انسان کو یہ بتاتی ہے کہ اگر کوئی انسان مجھے تلاش کرے۔ میرے اندر غور و فکر کرے تو میں اس انسان کے اوپر ایسے ایسے فارمولے منکشف کر دیتی ہوں جن فارمولوں سے انسان نئی نئی ایجادات کرتا ہے۔ جن فارمولوں سے انسان ٹائم اورسپیس کو توڑ دیتا ہے۔ جن فارمولوں سے انسان تمام دنیا میں اور کھربوں آنکھوں سے اوجھل سیاروں میں اشرف المخلوقات بن جاتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو خود کہتی ہے کہ میں ایسی کتاب ہوں کہ جب کوئی بندہ مجھے اپنا لیتا ہے۔ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میرے اندر تفکر کرتا ہے تو ایسا بندہ جو میرے اندر تفکر کرتا ہے وہ اللہ کا دوست بن جاتا ہے اور جب کوئی بندہ اللہ کا دوست بن جاتا ہے تو اللہ کی نیابت سے واقف ہو جاتا ہے۔
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورۃ یونس -62)
جب کوئی بندہ اللہ کا دوست بن جاتا ہے تو اس کے اوپر سے غم اور خوف کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور اس کے اندر سے غم اور خوف نکل جاتا ہے۔
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ – ( البقرہ -2)
‘‘یہ ایسی کتاب ہے اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔’’ ذلک الکتاب۔ یہ کتاب ، لاریب ہے، نہیں ہے شک اس میں۔ اس کتاب میں جو کچھ بیان کر دیا گیا ہے وہ نوع انسانی کی زندگی سے متعلق معاشی مسائل ہوں، رہن سہن کے معاملات ہوں۔ شادی بیاہ کے مسائل ہوں، نہانے دھونے کے مسائل ہوں یا انسان کی پیدائش سے پہلے کے مسائل ہوں یا کائنات سے متعلق تسخیری فارمولے ہوں۔ اس کتاب میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان کر دیئے ہیں کہ اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ کتاب ایسی کتاب ہے:
ترجمہ: اس کتاب میں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور ہر بڑی سے بڑی بات وضاحت کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے۔
اگر آپ اس میں سے ایٹمی فارمولے تلاش کرنا چاہیں تو آپ کو مل جائیں گے۔ اگر آپ اس میں سے ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہونے کے فارمولے تلاش کرنا چاہیں تو وہ آپ کو مل جائیں گے۔ اگر آپ اس کتاب میں یہ تلاش کریں کہ انسانوں کو معاشرتی اعتبار سے کس طرح رہنا چاہئے تو سارے مسائل کا حل آپ کو مل جائے گا۔ اگر آپ اس کتاب میں یہ تلاش کرنا چاہیں کہ انسان پاکیزہ اور پاک و صاف کس طرح ہوتا ہے تو آپ کو پاکیزہ رہنے کے طریقوں کا علم مل جائے گا۔ آپ اس میں سے یہ تلاش کریں کہ اولاد کی تربیت کس طرح کی جائے تو اللہ کی کتاب آپ کو یہ بھی بتائے گی۔
اگر آپ اس کتاب کے اندر زندگی سے متعلق انفرادی زندگی سے متعلق قومی زندگی سے متعلق پوری نوع انسانی کی زندگی سے متعلق زمین سے متعلق آسمان سے متعلق فرشتوں سے متعلق لوح محفوظ سے متعلق برزخ سے متعلق کوئی بھی چیز جب آپ اس کتاب میں تلاش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق وہ تمام چیزیں آپ کو مل جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں کسی قسم کے شک اور شبہ کی گنجائش نہیں۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے جو متقی ہیں۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ اس میں دین و دنیا علم و جہالت عذاب و ثواب خیر و شر ہر چیز موجود ہے اور اس طرح موجود ہے کہ جب کوئی بندہ کتاب کے علم کو تلاش کر لیتا ہے تو اس کے اندر شک اور بے یقینی نہیں رہتی۔
اب یہ بات سوچنے کی ہے کہ متقی کیا چیز ہے؟ متقی کون لوگ ہیں؟ بظاہر تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں۔ حج کرتے ہیں۔ زکوٰۃ دیتے ہیں، اپنی زندگی کو صاف ستھرا رکھتے ہیں ان کو قرآن متقی کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
‘‘یہ کتاب اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے جو متقی ہیں۔’’
اور متقی لوگ کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ متقی لوگ وہ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں۔ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ ایمان کا مطلب ہے یقین۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق مسلمان ہونا الگ بات ہے، مومن ہونا الگ بات ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
‘قولومسلمون’’ وہ کہتے ہیں مسلمان ہیں۔ یہ بات تو صحیح ہے وہ مسلمان ہیں۔ ‘‘لیکن ابھی ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔’’
مسلمان الگ حیثیت ہے اور ایمان الگ ایک حیثیت ہے۔ اللہ کے راستہ پر چلنے کے لئے پہلا قدم مسلمان ہونا ہے۔ اللہ کی قربت بحال کرنے کے لئے دوسرا قدم مومن ہونا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں۔ دیکھئے! ہر آدمی جانتا ہے کہ یقین بغیر دیکھے نہیں ہوتا۔ آپ کسی عدالت میں جا کر گواہی دیں کہ صاحب اس آدمی نے چوری کی ہے۔ عدالت آپ سے پوچھے گی کہ آپ نے دیکھا۔ آپ کہیں گے کہ دیکھا تو نہیں البتہ ہم نے سنا ہے۔ عدالت آپ کی گواہی کو نہیں مانے گی اور آپ کی گواہی ختم کر دے گی۔ جب تک کہ آپ دیکھ نہ لیں، مشاہدہ نہ کر لیں اس وقت تک یقین کی شرط پوری نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ متقی وہ لوگ ہیں جو غیب کا مشاہدہ کرتے ہیں، غیب کو دیکھتے ہیں۔ غیب کو محسوس کرتے ہیں یعنی متقی لوگ غیب کو دیکھتے ہیں اور قائم کرتے ہیں صلوٰۃ۔
صلوٰۃ یعنی نماز کو وہ اس طرح قائم کرتے ہیں کہ اللہ کا اور ان کا ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آل میں سے ہیں۔ وہ لفظ صلوٰۃ کا ترجمہ رابطہ یا تعلق کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ سو سے زیادہ جگہ کا تذکرہ قرآن پاک میں ہے۔ نماز کے لئے پڑھنا کہیں نہیں آیا۔ قائم کرنا آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب نمازی نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے تو اس کا اللہ کے ساتھ ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ ایسا رشتہ قائم ہو جاتا ہے کہ بندہ عبد بن جاتا ہے اور اللہ معبود بن کر سامنے آ جاتا ہے۔
یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے کہ جو غیب کو دیکھتے ہیں، غیب پر یقین رکھتے ہیں اور نماز میں اللہ کے ساتھ ان کا تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ ‘‘اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔’’
جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں وہ جانتے ہیں اور اس بات پر ان کا یقین ہوتا ہے کہ یہ جو وسائل ہیں یہ سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ یہ کون نہیں جانتا کہ اگر زمین پیدا نہ کرے تو کھیتی کہاں پر اُگے گی۔ اللہ تعالیٰ دھوپ نہ پیدا کریں تو کھیتیاں کس طرح پکیں گی۔ اللہ تعالیٰ چاند پیدا نہ کریں تو پھلوں میں شیرینی کیسے پیدا ہو گی۔ انسان کی جتنی بنیادی ضروریات ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لئے پیدا کر دی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ رحیم و کریم نے اس بات کی تخصیص نہیں کی ہے کہ پانی مسلمان کو ملے گا، مومن کو ملے گا۔ کافر کو ملے گا ، فاسق کو ملے گا۔ ہر مخلوق اللہ کا پانی پی رہی ہے۔ ہوا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر آج ہوا بند ہو جائے تو دنیا ایک منٹ کے ہزارویں حصے میں ختم ہو جائے گی۔ ہوا مفت اور فری ہے۔ زمین کے اندر ایسی ایسی چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی ہیں جو انسان کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہیں لیکن انسان کی زندگی سے ان کا ہر وقت تعلق ہے۔ آپ سمندری غذا کی طرف غور کریں۔ سمندر میں کتنی مچھلیاں انسان پیدا کرتا ہے؟ مچھلیاں پیدا کرنے کے لئے انسان ہل نہیں چلاتا۔ تخم ریزی نہیں کرتا۔ محنت مشقت نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ بکرے بکریاں پیدا کرتے ہیں۔ لاکھوں بکرے روز کٹ جاتے ہیں لیکن ان میں کمی نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ متقی لوگوں کی تعریف یہ ہے کہ جو کچھ وہ کھاتے ہیں جو کچھ پیتے ہیں جو کچھ پہنتے ہیں، جب وہ گھروں میں رہتے ہیں، جب وہ کاروبار کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔
یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں اور فلاح کے راستے پر گامزن ہیں۔
یہ قرآن پاک کی سورہ بقرہ کی پہلی آیات سے میں نے تقریباً رکوع تک آپ کے سامنے ترجمہ اور تشریح بیان کی ہے۔ اب آپ غور فرمائیں کہ قرآن پاک کے اس پہلے رکوع کے جو معنی اور مفہوم میں نے آپ کے سامنے عرض کئے ہیں۔ ہم ان معنی و مفہوم میں کہاں تک قرآن کو سمجھتے ہیں۔ اگر ہم قرآن کو جس طرح کہ قرآن کہہ رہا ہے اور اللہ کہہ رہا ہے۔ اللہ کے ارشاد کے مطابق معنی اور مفہوم کے ساتھ سمجھنے لگیں تو ہمارا عمل اور ہمارے بزرگوں کا عمل ایک ہو جائے گا۔ اس لئے کہ ہمارے بزرگ ہمارے اسلاف، ہمارے صحابہ کرام، ہمارے تابعین، ہمارے تبع تابعین، ہمارے اجداد، ہمارے علماء، ہمارے بزرگ ہیں۔ جن کی ہم اولاد ہیں، اور جن کی اولاد ہونے میں ہمیں فخر ہے۔ وہ قرآن کو معنی، مفہوم اور حکمت کے ساتھ سمجھتے تھے۔ قرآن کو جب معنی اور مفہوم اور حکمت کے ساتھ سمجھا جاتا ہے تو قرآن خود کھل کر سامنے آ جاتا ہے اور قرآن کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو خزانے بھر دیئے ہیں قرآن ان خزانوں کو کھول دیتا ہے اور نوع انسانی ان سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ قرآن لاریب ایک طاقت ہے کہ اگر اس کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا جائے اور اس کے اندر غور و فکر کیا جائے تو انسان کو وہ علوم حاصل ہو جاتے ہیں جن علوم کی بدولت انسان تمام دنیا پر حکمران ہو جاتا ہے اور دنیا میں اپنا ایک مقام حاصل کر لیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
قرآن ایک عظیم طاقت ہے۔ ایسی طاقت کہ اللہ اگر قرآن کو پہاڑوں پر نازل کر دیتا تو پہاڑ مشیئت سے ریزہ ریزہ ہو جاتے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن اپنے حبیب رسول اللہﷺ کی معرفت نوع انسان کو عطا کیا ہے تا کہ نوع انسانی اس عظیم طاقت سے جو طاقت پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کر سکتی ہے فائدہ اٹھائے۔ نوع انسانی اگر فائدہ نہیں اٹھاتی تو اللہ کے رسول کے امتیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کی کتاب پڑھیں۔ اللہ کی کتاب کے معنوں میں غور و فکر کریں اور اس کتاب میں سے ایسے ایسے علوم تلاش کریں جو علوم تمام دنیا میں کہیں بھی نہیں ہیں۔ ایسے علوم جن کو فرشتے بھی نہیں جانتے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ سجدہ کرو آدم کو۔ فرشتوں نے کہا کہ یہ تو خون خرابہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو علوم سکھا دیئے۔
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا (البقرہ -31)
اور جب آدم نے اللہ تعالیٰ کے ان صفاتی علوم کو بیان کرنا شروع کیا تو فرشتے دم بخود رہ گئے اور انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بار الھٰی ہم نہیں جانتے۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں کہ جتنا علم آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے۔(البقرہ – 32)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدم زاد کو وہ علوم حاصل ہیں جو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں ہیں۔ اگر آپ ان علوم کو سیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ ان علوم سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اپنے بزرگوں کی طرح اپنے آباؤ اجداد کی طرح قرآن کو پڑھیں۔ معافی پڑھیں اور قرآن کے اندر غور و فکر کریں۔ قرآن کے اندر اللہ تعالیٰ کے چھپے ہوئے خزانوں کو تلاش کریں۔ یہ سب اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہمارے اندر سوچنے سمجھنے اور گہرائی میں اترنے کا جذبہ پیدا ہو۔ سطحی کام نہ ہو۔ سطحی نتیجہ، ٹھیک ٹھیک فائدہ جب ہی مرتب ہوتا ہے جب اس کام کے اندر آپ کی عقل بھی کام کرتی ہو اور تفکر بھی کام کرتا ہو اور آپ گہرائی میں اس کام کے بارے میں سوچتے ہوں، سمجھتے ہوں۔
قرآن کا مطالبہ نوع انسانی سے یہ ہے کہ تمام انسان آدم کے رشتہ سے بھائی بھائی ہیں لیکن اگر ان بھائیوں میں اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ ہو، اللہ کے پیغمبروں پر ایمان نہ ہو، اللہ کی کتابوں پر ایمان نہ ہو، یوم آخرت پر ایمان نہ ہو، تو وہ نوع انسانی کے رشتے سے بھائی بھائی تو ہیں لیکن ایک کنبہ نہیں ہیں۔
نوع انسانی میں سے وہ افراد جو اللہ پر اور اللہ کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں وہ ایک برادری ہیں۔ ایسی برادری جس کا ہر فرد اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتا ہے۔ ایسی برادری کا نام مسلمان رکھا ہے اور اس برادری کی طرز فکر اور اس برادری کی زندگی گزارنے کے طور طریقوں کا نام اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ برادری کے لئے فرماتے ہیں:
‘‘(بحیثیت برادری) اللہ کی رسی مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ بازی نہ ڈالو۔’’
ہم جانتے ہیں کہ اگر برادری میں تفرقہ پڑ جائے تو برادری نہیں رہتی، طاقت ٹوٹ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کی رسی کو متحدہ ہو کر مضبوطی سے تھام لو اور اس میں رخنہ نہ ڈالو۔ اور جب کوئی قوم مضبوط اور متحد ہو جاتی ہے اور اس کے اندر تفرقہ بازی نہیں ہوتی تو اس کی اپنی ایک شان ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ کے دور میں اور خلفائے راشدین کے دور میں جتنی فتوحات ہوئی ہیں جتنا اسلام پھیلا ہے۔ آپ تاریخ پڑھ کر دیکھیں ۔ اسلام کے پھیلنے کی جہاں اور بہت ساری وجوہات ہیں، ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں تفرقہ نہیں تھا ۔ اس وقت مسلمان ایک جان تھا۔ اکٹھے تھے دشمن کی سب سے بڑی کامیابی اور دشمن کی سب سے بڑی چال یہ ہوتی ہے کہ وہ قوموں میں فوجوں میں، لشکروں میں تفرقہ ڈال دیتا ہے اور جب فوج میں لشکروں میں تفرقہ پڑ جاتا ہے تو دشمن مضبوط ہو جاتا ہے اور دشمن ایسی قوموں کو ختم کر دیتا ہے جس کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہوتی اور یہ آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ اللہ اکبر نماز میں کتنا بڑا مجمع ہوتا ہے۔ سب بھائی کندھے سے کندھا لگائے کھڑے ہوتے ہیں، جھکتے ہیں، سلام پھیرتے ہیں۔ کتنا عظیم الشان مظاہرہ اتحاد اور طاقت کا ہوتا ہے۔
روزے کو دیکھیں صبح کو اللہ اکبر کہہ کر اذان ہوئی سب مسلمانوں کے منہ بند ہو گئے۔ پانی کا ایک قطرہ حلق کے نیچے نہیں جا سکتا اور جب افطار کا وقت آیا پھر اللہ اکبر کی آواز پر تمام مسلمان ایک ساتھ روزہ افطار کرتے ہیں۔ تو یہ روزے، پانچ وقت کی نماز، جمعہ کی نماز، عیدین کی نمازیں، حج، حج میں آپ دیکھیں ہر سال تقریباً (۲۰) لاکھ آدمی ایک مرکز پر اللہ کے گھر میں جمع ہو جاتے ہیں اور ہر شخص اللہ کے گھر کا طواف کرتا ہے۔
اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام نام ہے مرکزیت کا۔ اسلام نام ہے اتحاد کا۔ اسلام نام ہے برادری سسٹم کا جس میں برادری کا ہر فرد معزز ہے۔ عزت دار ہے اس کی اپنی ایک رائے ہے اس کا اپنا ایک مقام ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے۔
‘‘اللہ نے جو نظام قائم کر دیا ہے اس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی اور کبھی اس میں تعطل واقع نہیں ہوتا۔’’
جو اللہ نے نظام بنا دیا وہ چلتا رہتا ہے۔ اب انبیاء کا سلسلہ تو ختم ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد رسول اللہﷺ پر اپنی تمام نعمتیں پوری کر دیں اور دین مکمل کر دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ میری سنت میں تبدیلی نہیں ہوتی اور تعطل واقع نہیں ہوتا۔ اب انبیاء تو آئیں گے نہیں اس لئے کہ نبوت ختم ہو گئی ہے۔ رسول اللہﷺ خاتم النبیین ہیں۔
رسول اللہﷺ نے اللہ کی دی ہوئی تعلیمات کو نوع انسان تک پہنچانے کے لئے ایک سلسلہ قائم کیا اور وہ سلسلہ اولیاء اللہ کا سلسلہ ہے۔
اولیاء اللہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم کیوں ذلیل و خوار ہیں اورہمارے اسلاف کیوں عزت و مرتبت والے تھے۔ دیکھئے میں نے ابھی آپ سے عرض کیا کہ ہر عمل میں ایک روح ہوتی ہے اگر ہمیں کامیاب ہونا ہے، اگر ہمیں دنیا میں اپنا کوئی مقام تلاش کرنا ہے، اگر ہمیں اپنی نسلوں کو تباہی سے محفوظ رکھتا ہے تو یہ ضروری ہے کہ ہم اس جسمانی نظام کو سنبھالنے والی اس شئے سے جس کا نام روح ہے واقفیت حاصل کریں۔ جب تک روح انسان کے جسم کے ساتھ رہتی ہے۔ انسان کا جسم حرکت کرتا رہتا ہے اور جب روح انسان کے جسم سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے تو انسان مر جاتا ہے اور لاش بن جاتا ہے۔ ہم سب نے مرے ہوئے آدمی دیکھے ہیں۔ ہاتھ بھی ہوتے ہیں، پیر بھی ہوتے ہیں، آنکھ، ناک، کان بھی ہوتے ہیں۔ کھوپڑی کی ہڈیاں الگ الگ کی جائیں تو اندر ہمیں بھیجا بھی ملے گا، آنکھ کے اندر پتلی بھی ہوتی ہے لیکن ان سب چیزوں کے باوجود اگر روح نے اس جسم سے اپنا رشتہ منقطع کر لیا ہے تو انسان نہ بول سکتا ہے نہ کھا سکتا ہے نہ اٹھ سکتا ہے، نہ بیٹھ سکتا ہے، نہ چل سکتا ہے کیوں؟ اس لئے کہ روح اصل ہے، روح کی بدولت ہی جسمانی حرکات و سکنات قائم ہیں۔ روح اگر نہیں ہے تو جسم کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حبیب رسول اللہﷺ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہر امتی کے اوپر فرض ہے کہ وہ یہ تلاش کرے کہ یہ جسمانی نظام چلتے چلتے رک کیوں جاتا ہے، مر کیوں جاتا ہے۔ وہ کونسی چیز ہے جو اس جسم کو سنبھالے ہوئے ہے جو جسم کے اندر موجود رہتی ہے تو جسم حرکات و سکنات ختم ہو جاتی ہیں۔ اس ہی روح کو تلاش کرنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کے دوست اور وارث علماء اولیاء اللہ نے ایک نظام قائم کیا ہے اور اس نظام کا نام مراقبہ ہے۔
وہ مراقبہ جو حضورﷺ نے غار حرا میں فرمایا تھا۔
اگر ہم اپنی روح سے واقفیت ہو جائیں تو یقیناً ہمیں وہی عروج نصیب ہو جائے گا جو ۱۴۰۰ سال پہلے ہماری قوم کا شعار تھا اور جیسے جیسے ہم اپنی روح سے بے خبر ہوتے چلے گئے اسی مناسبت سے ہم دنیا میں حکمرانی سے محروم ہوتے رہے۔
مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جس میں پریکٹس اور کوشش کی جاتی ہے کہ انسان مادی خیالات اور کثیف وسوسوں سے ذہن ہٹا کر صرف اور صرف لطافت پاکیزگی اور انوار کے اندر ذہن کو مرکوز کرے۔ رسول اللہﷺ نے مراقبہ کو مرتبہ احسان کا نام دیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ بھی ارشاد ہے:
موتو قبل انت موتو
مر جاؤ مرنے سے پہلے
یعنی اس دنیا میں رہتے ہوئے مرنے کے بعد کی زندگی سے واقفیت حاصل کر لی جائے۔ ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اس بات کو جان لے کہ مرنے کے بعد جس عالم میں جانا ہے وہ عالم کیا ہے اور اس عالم میں آسائش و آرام اگر مجھے حاصل کرنا ہے تو اس کا طریقہ کیا ہے۔ اس بات کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح بیان فرمایا موتو قبل انت موتو مر جاؤ مرنے سے پہلے۔ یعنی مرنے سے پہلے مرنے کے بعد کی زندگی سے واقف ہو جاؤ۔
مرنے کے بعد کی زندگی سے واقفیت حاصل کرنے کا طریقہ صرف اپنی روح سے واقفیت حاصل کرنا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 189 تا 201
ذات کا عرفان کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔