دوبئی میں کتاب تجلیات کی رونمائی کے موقع پر
مکمل کتاب : ذات کا عرفان
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6601
خواجہ شمس الدین عظیمی نے حمد و ثناء کے بعد اپنی تقریر کا آغاز قرآن پاک کی آیت وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا سے کیا۔
انہوں نے کہا کہ کتاب تجلیات میں قرآن کریم میں سے 95عنوانات کی تشریح بیان کی گئی ہے۔ یہ ایسے عنوانات ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر مسلمان قوم اپنا کھویا ہوا عروج و مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور اس طرح قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے کہ قرآن آج بھی بالکل ایسے ہمارے پاس موجود ہے جیسا آج سے 1400سو سال قبل نازل فرمایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن میں چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ہر بات کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ جب تک ہمارے اسلاف نے قرآن سے رہنمائی حاصل کی اور قرآن میں تفکر کرتے رہے، تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کی قوت اور حکمرانی قائم رہی۔ انہوں نے کہا کہ کائنات کے انتظام میں جاری و ساری علوم کو جاننا ہر ذی شعور مسلمان کا فریضہ ہے۔
انہوں نے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی علم کے بارے میں چند احادیث سنائیں:
‘‘حکمت مومن کی کھوئی ہوئی پونجی ہے جہاں پائے اٹھا لے۔’’
‘‘حکمت سیکھو جہاں سے بھی ملے۔’’
‘‘طلب علم بہترین عبادت ہے۔’’
‘‘علم اسلام کی قوت اور اسلام کا ستون ہے۔’’
‘‘ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر علم سیکھنا فرض ہے۔’’
نبی آخر الزماںﷺ کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے جب امتی علم حاصل کرنے میں مشغول ہوئے تو علم کی فضیلت نے انہیں اس کرۂ ارض پر قائد و راہنما بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے علم کی بنیاد اوہام پرستی اور قیاس کی بجائے تجربات اور مشاہدات پر ہے۔ اس وقت مسلمان امت میں بڑے بڑے عالم پیدا ہوئے کہ انہوں نے نوع انسانی کے علم میں غیر معمولی اضافہ کیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب یورپ کے پاس علم کی روشنی نہیں تھی۔ حضور پاکﷺ کی تعلیمات کے باعث عرب مسلمان علم و حکمت کو اپنی معراج سمجھتے تھے۔ انہیں جہاں سے حکمت و دانش ملتی اسے حاصل کرتے تھے۔ سینکڑوں مسلم ماہرین علم نے نوع انسانی کے علم میں اہم اور مفید اضافے کیے۔ ان نامور مسلمانوں کی تصنیفات پڑھ کر موجودہ زمانے کا ہر تعلیم یافتہ شخص ان کی کتابوں کی ایک اہم خصوصیت نوٹ کرتا ہے وہ یہ کہ ان میں کہیں بھی اسلام اور سائنس کا ٹکراؤ نہیں ہے۔ ان نامور مسلم سائنسدانوں کے علم و فضیلت کی روشنی جب دنیا میں پھیلی تو اسلامی ملکوں سے باہر دور دور کے علاقوں میں بھی یونیورسٹیاں قائم ہو گئیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی نے کہا۔ آج کا غیر متعصب دانشور جب تخلیق کائنات پر غور کرتا ہے اور اس کے ڈانڈے قرآنی علوم سے ملاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سائنس (علم) انسان کی پیدائشی خاصیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے آدم کو اپنی نیابت عطا کی اور اس کو علم الاسماء سکھائے۔
انہوں نے کہا کہ علمی اعتبار سے سائنس کا علم فطرت و کائنات کا علم ہے۔ علمی طور پر سائنس کائنات کی قوتوں کے بارے میں جاننا اور زمین و آسمانوں کے خزانے تلاش کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قرآن پاک کے مطالعے سے ہمیں اس بات کا علم حاصل ہوتا ہے کہ عملی سائنس بھی مختلف انبیاء کے ذریعے تم تک پہنچی ہے۔ مثلاً حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعے ہم زراعت سے واقف ہوئے۔ حضرت نوع علیہ السلام کے ذریعے کشتی سازی کا علم حاصل ہوا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے ذریعے لوہے اور صنعت و حرفت کا علم ملا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے طب اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعے وائرلیس سسٹم سے آگاہی حاصل ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ قدیم وقتوں کے مسلمان چونکہ نبی آخر الزماں کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے۔ اس لئے اس وقت من حیث القوم مسلمان قوم ایک ممتاز قوم تھی اور جیسے مسلم قوم نبی آخر الزماںﷺ کی تعلیمات، غور و فکر اور ریسرچ سے دور ہوتی گئی اس اعتبار سے ان کی زندگی انفرادی طور پر اور من حیث القوم جہالت کی تاریکی میں ڈوبتی چلی گئی۔ اور جس قوم نے علم کے حصول اور سائنسی ترقی کو اپنے لئے لازم قرار دے دیا۔ وہ بلند اور سرفراز ہو گئی۔
اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جو قوم خود اپنی حالت بدلنا نہیں چاہتی اللہ اس کی حالت نہیں بدلتا۔ اس موقع پر خواجہ شمس الدین عظیمی نے کہا کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ناخلف اور ناسعید اولاد کے زمرے سے نکل کر اپنے اسلاف کے ورثے کو حاصل کریں تا کہ تاریکی کے گہرے غاروں سے ہمیں نجات مل جائے۔
نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
‘‘ایک ساعت کا تفکر ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے۔’’
‘‘علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض ہے۔’’
انہوں نے کہا کہ کتاب تجلیات لکھتے وقت میرے سامنے یہ بات تھی کہ قوموں کو عروج اسی وقت ملتا ہے جب ان میں تفکر ہو، علم ہو اور ریسرچ ہو۔ آج کے دور میں وہی قومیں سرفراز و بلند ہیں جن کے اندر علم اور یسرچ ہے اور جن کے اندر کائنات میں کھوج لگانے کا ذوق و شوق ہے۔
الشیخ عظیمی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان قوم کا زوال اس وقت ہوا جب مسلمان قوم نے اسلاف کے ورثے ریسرچ کو چھوڑ کر اور قرآن کا حکم وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚپر عمل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان قوم کو صرف مادی علوم کےذریعے دنیا کی موجودہ علمی سطح تک پہنچنے کے لئے کئی صدیاں درکار ہوں گی۔ لیکن اگر آج امت مسلمہ سائنسی ریسرچ کا یہ طریقہ اپنائے کہ قرآن کے اندر تسخیری فارمولوں سے راہنمائی حاصل کر کے ریسرچ کی جائے تو مسلم قوم بہت جلد موجودہ ترقی یافتہ اقوام کے برابر آ جائے گی اور اس سے آگے نکل جائے گی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 186 تا 188
ذات کا عرفان کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔