میری ڈائری
مکمل کتاب : ذات کا عرفان
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6592
سوال: اللہ تعالیٰ سے قربت کا احساس ہوتا ہے۔ مگر درمیان میں حجاب حائل ہوتا ہے۔ بعض اوقات ادراک میں یہ بات سما جاتی ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو چھو لیا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ نے سجدہ کی حالت میں اپنا پائے مبارک ہمارے سر پر رکھ دیا ہے۔ فکر کے بعد نتیجہ ہمیشہ یہی نکلتا ہے کہ ہمارے اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب قائم ہے۔
پائے مبارک کے بارے میں صرف ادراک کام کرتا ہے۔ لیکن ہم اس کو یوں بیان نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالیٰ کے پیر مبارک اس طرح کے تھے۔
جواب: ہوتا یہ ہے کہ ادراک میں یہ بات آ جاتی ہے کہ حجاب کے پیچھے اللہ تعالیٰ تشریف فرما ہیں۔ ذوق عبدیت بندہ کو سجدہ کی حالت میں لے آتا ہے۔
اب ادراک میں یہ بات آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عبدیت کو قبول فرما لیا ہے۔ بندہ کے سر پر پائے مبارک رکھ کر قبولیت کا اظہار کر رہے ہیں۔
عرش و کرسی پر اللہ تعالیٰ کا دیدار کسی نہ کسی طرح خدوخال میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی ایسی شکل و صورت ہے۔ صرف اشاریہ کنایہ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عرش پر اللہ تعالیٰ تشریف فرما ہیں۔ بصارت کا ادراک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک نور ہیں۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ دیکھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہنا پڑے گا کہ صرف ہاتھ دیکھا۔ پورا جسم نہیں دیکھا۔
عرش پر ایک ہستی تشریف فرما ہے۔ اس ہستی کے خدوخال کیا ہیں۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک ہستی تشریف فرما ہے جو اللہ ہے مگر اس ہستی اقدس نے ایک واقعہ سے اپنا سراپا چھپایا ہوا ہے۔
ہم نے اللہ تعالیٰ کی آنکھ کا مشاہدہ کیا۔ اگر یہ سوال کیا جائے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی اس طرح کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ جس طرح انسان کی ہوتی ہیں۔ تو جواب یہ ہو گا کہ صرف آنکھ دیکھی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ کے چہرہ پر دو آنکھیں ہیں اور اس طرح کی ہیں۔
آج مراقبہ میں دیکھا کہ میرے اندر کائنات کی بَیس تسلسل کے ساتھ آ رہی ہے۔ اور میرے اندر کائنات تخلیق ہو رہی ہے۔
ذوچین الشتین (مثلث) کے دونوں رخ میرے اندر ہیں۔ اور ان مثلث کو ایک دائرے نے محیط کر رکھا ہے۔
مثلث کے نور کی صورت میں نور کی ہر تعبیر کسی انقطاع کے گر رہی ہے۔ جیسے ہی وہ مثلث سے آ کر ٹکراتی ہے۔ مثلث کے اندر بکھر جاتی ہے اور اس کا بکھرنا ہی کائنات ہے۔
اس کی مثال سینما سے دی جا سکتی ہے۔ مشین سے ایک رو لہروں کی صورت میں نزول کرتی ہے اور وہ لہریں اسکرین سے ٹکراتی ہیں۔
یسے ہی ٹکرانا وقوع پذیر ہوتا ہے۔ پردہ پر مختلف شکلیں نمودار ہو جاتی ہیں۔
یہی صورت انسان کے اندر جاری و ساری ہے۔ مصدقہ اطلاعات یا عالم امر سے ایک رو چلتی ہے۔ اور انسان کے اندر (مثلث) اسکرین پر آ کر ٹوٹتی اور بکھر جاتی ہے۔ بکھرنے کے ساتھ ہی وہ سب لہریں شکل ہو جاتی ہیں۔ اور رو کے اندر پوری کائنات پوشیدہ ہے۔
اس رو میں انسان، جنات، فرشتے تمام اجرام سماوی عرش، کرسی اور حجابات سب کچھ ہیں۔
صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اس رو سے ماوراء ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وجود بالکل الگ ایک ہستی ہے۔
حجابات تک اس رو اور مثلث میں مشاہدہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات بھی اس رو اور مثلث میں مشاہدہ ہوتی ہیں۔ لیکن ذات باری تعالیٰ اس رو اور مثلث سے ماوراء ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس ڈائمنشن اور خدوخال سے ماوراء ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ کی ہستی کو شکل و صورت اور خدوخال میں محدود نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ادراک ضرور کر سکتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 71 تا 72
ذات کا عرفان کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔