کرامات اور سائنس

مکمل کتاب : ذات کا عرفان

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6585

سوال: پیران پیر حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی ذاتِ مبارکہ اور ان کی کرامات پر بے شمار تحریریں لکھی جا چکی ہیں مگر آج تک ان کی سائنسی توجیہہ کسی نے بھی نہیں کی۔ عظیمی صاحب! آپ اللہ کے خاص فضل و کرم سے علمی بصیرت رکھتے ہیں۔ آپ سائنسی نقطہ نظر سے آج بڑے پیر صاحب کی کرامات کے بارے میں کچھ فرمایئے۔
جواب: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورت کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم اور معانی سے خالی نہیں ہے۔ قرآن پاک میں جن علوم کا تذکرہ ہوا ہے اور انبیاء سے متعلق جتنے بھی واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے ہدایت اور روشنی ہے۔
تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن پاک میں کوئی تذکرہ ایسا نہیں کیا گیا جو محض کہانی یا تاریخ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کے پس پردہ نوع انسانی کے لئے ایک لائحہ عمل اور ایک ایسا پروگرام ہے جس میں مخلوق اور خالق کے ربط کی تشریح کی گئی ہے۔
نیز تخلیق کائنات کے فارمولوں سے ہمیں روشناس کرایا گیا ہے۔ تخلیقی فارمولوں کا تجزیہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ‘‘علم الکتاب’’ تخلیق کے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے زاویوں پر محیط ہے۔ علم کی تشریح کے لئے دو رخ یا دو طرزیں قائم کی جائیں گی۔ تصوف کی زبان میں ان دو طرزوں کو ‘‘علم حضوری’’ اور ‘‘علم حصولی’’ کہا جاتا ہے اور علم حضوری اور علم حصولی میں فرق یہ ہے کہ علم حصولی کے دائرہ کار میں جتنی چیزیں وجود میں آتی ہیں وہ وسائل کی پابند ہیں اور ‘‘علم حضوری’’ وسائل کی احتیاج سے بے نیاز ہے۔
سائنس کے اس ترقی یافتہ دور میں ان طرزوں کے لئے دو اصطلاحیں وضع کی گئی ہیں۔ ایک کا نام ‘‘فکر جدید’’ اور دوسری کا نام ‘‘فکر قدیم’’ رکھا گیا ہے۔ وہ باتیں جو عقل و شعور کے احاطہ میں آ سکیں۔ آنکھ مظاہراتی طور پر ان کا ادراک کر سکے اور فہم خدوخال یا ڈائمنشن کے ساتھ اس کے اندر معانی پہنا سکے۔ فکر جدید سے ہم رشتہ ہیں۔ وہ علم جو عقل و شعور کے دائرے میں نہیں آتے اور جن کے رموز و نکات عام طور سے بیان نہیں کئے جا سکتے ‘‘فکر قدیم’’ کے دائرہ عمل میں آتے ہیں۔
آج کی نشست میں حضرت پیران پیر دستگیر، عارف اسرار و رموز، شہنشاہ ہفت اقلیم، حامل علم لدنی، ابدال حق، وزیرِ حضوری سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے باطنی اور قلبی علوم اور ان علوم کی روشنی میں ان سے صادر ہونے والی کرامات کو سماوی علوم اور جدید نظریات کے نقطہ نظر سے بیان کرنا ہمارے پیش نظر ہے۔
قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی سنت میں نہ تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔ اس قانون کے تحت ازل سے ابد تک اللہ کی سنت کا جاری رہنا ضروری ہے۔ چونکہ حضور خاتم النبیینﷺ پر پیغمبری ختم ہو چکی ہے اس لئے فیضان نبوت کو جاری و ساری رکھنے کے لئے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث اولیاء اللہ کا ایک سلسلہ قائم ہوا۔
آج کے لاسلکی دور میں ٹائم اسپیس کی آہنی دیواریں منہدم ہو گئیں، ذہنی رفتار اتنی بڑھی کہ تین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والا شعور ہزاروں میل فی گھنٹہ سفر کرنے کے قابل ہو گیا۔ فاصلے سمٹ گئے۔ آواز ہزاروں میل کو محیط ہو گئی۔ وسائل میں بند اس ترقی کی علمی توجیہہ ہمارے سامنے یہ آئی کہ آواز کے قطر بہت چھوٹے اور بہت بڑے ہوتے ہیں۔ جن کو طول موج (ویو لینگتھ) کا نام دیا گیا ہے۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ آدمی چار سو (۴۰۰) قطر سے نیچے اور ایک ہزار چھ سو قطر سے اوپر کی آوازیں نہیں سکتا۔ لیکن یہ آوازیں جب برقی رو کے دوش پر سفر کرتی ہیں تو آدمی کے لئے ان آوازوں کا سننا ممکن ہو جاتا ہے۔ فکر جدید یا سائنس کی اس ترقی کو سامنے رکھ کر ہم جب اپنے اسلاف کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو ہمارے اوپر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ آوازیں برقی رو، آلہ سماعت یا کسی میڈیم کے بغیر بھی سنی جا سکتی ہیں۔
حضرت عمرؓ مدینہ منور میں خطبہ دے رہے تھے۔ دوران خطبہ بلند آواز میں فرمایا:
‘‘یا ساریۃ الجبل’’۔
حضرت عمرؓ کے ہونٹوں سے نکلی ہوئی یہ آواز ہزاروں میل دور سنی گئی اور حضرت ساریہ نے اس آواز کا پورا پورا مفہوم سمجھ کر اس پر عمل کیا۔ زمان اورمکان اور ٹائم اسپیس کی نفی کی مثال حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں بھی مذکور ہے (سورۃ النمل)۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے فرمایا۔
‘‘میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا کے پہنچنے سے پہلے اس کا تخت دربار میں موجود ہو تم میں سے کون اس خدمت کو انجام دے سکتا ہے۔’’
عفریت نے جو قوم جنات میں سے ایک فرد تھا، کہا۔
‘‘اس سے پہلے کہ آپ دربار برخاست کریں میں یہ تخت لا سکتا ہوں۔’’
عفریت کا یہ دعویٰ سن کر ایک انسان جس کے پاس ‘‘کتاب کا علم’’ تھا یوں گویا ہوا۔
‘‘اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے ملکہ سبا کا تخت میں آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں۔’’
حضرت سلیمان علیہ السلام نے رخ پھیر کر دیکھا تو دربار شاہی میں ملکہ سبا کا تخت موجود تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یمن سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً ۱۵۰۰ میل ہے اور یہ ۱۵۰۰ میل کا فاصلہ پلک جھپکتے طے ہو گیا۔ یہ محض خیالی بات نہیں ہے بلکہ ایک مجسم تخت بغیر کسی وسیلہ کے ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل ہو گیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس واقعہ میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ زماں و مکاں کی نفی کا یہ عمل ایک ایسے انسان سے سرزد ہوا جس کے پاس ‘‘کتاب کا علم’’ تھا۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سارا کا سارا علم ‘‘علم الکتاب’’ ہے اور یہی علم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث اولیاء اللہ کو منتقل ہوتا ہے اور اسی علم کے ذریعے ان سے کرامات صادر ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسی سائنس ہے۔
جو روحانی لوگوں کا ورثہ ہے۔
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ علم لدنی یعنی علم الکتاب کے جید عالم ہیں۔ علم لدنی میں وہ تمام علوم زیر بحث آ جاتے ہیں جن علوم کی بناء پر کائنات کی تخلیق عمل میں آئی ہے۔ علم لدنی کائناتی تخلیقی فارمولوں سے مرکب ہے۔ حضرت پیران پیر دستگیر کی کرامات کا تذکرہ صدیوں سے سینہ بہ سینہ کتاب در کتاب جاری و ساری ہے۔ بے شمار تصنیفات کے لاکھوں صفحات ان کے حالات و واقعات اور کرامات سے بھرے ہوئے ہیں۔ تا ہم اب تک ہماری نظر سے کوئی کتاب ایسی نہیں گزری جس میں پیران پیر دستگیر کے مخفی علوم اور کرامات کی علمی توجیہہ بیان کی گئی ہو۔ حالانکہ موجودہ سائنسی دور میں ان حقائق کا منکشف ہونا ضروری تھا تا کہ فکر جدید کی پیروکار نوجوان نسل دلیل و براھین کے ساتھ پیش کئے گئے ان علوم سے استفادہ حاصل کر سکے۔
اللہ تعالیٰ نے پیران پیر دستگیرؒ کو اپنی رحمت خاص سے تسخیر کائنات کے جو علوم عطا کئے ہیں ان کا ثبوت خود ان کے اپنے اقوال و افکار سے ملتا ہے۔ حضرت محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں:
‘‘میری تلوار مشہور ہے، میرا تیر کمان پر چڑھا ہوا ہے، میرا نیزہ بے خطا ہے، میرا گھوڑا زین کسا ہوا ہے، میں خدا کی روشن آگ ہوں، میں حالات سلب کرنے والا ہوں۔’’
مزید ارشاد فرماتے ہیں:
‘‘میں وہ سمندر ہوں جس کا کوئی کنارہ نہیں، میں وقت ہوں اور وقت کی دلیل ہوں، میں محفوظ ہوں اور مامون ہوں۔ کھڑے ہوئے لوگو! پہاڑوں کے رہنے والو! تمہارے پہاڑ ٹوٹ گئے۔ گرجا والو! تمہارے گرجا گر گئے۔ تم خدا کی طرف آؤ میں خدا کے احکام میں سے ہوں۔ راستہ بتانے والا۔ مردو! بہادرو!بچو! جو کچھ لینا ہے سمندر سے لے لو۔ اے عزیز! تو اکیلا ہے آسمان پر اور میں اکیلا ہوں زمین پر۔ مجھ سے ایک رات اور ایک دن میں ستر مرتبہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے تجھے اپنے لئے پسند کر لیا ہے تا کہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے پرورش پائے۔ مجھ سے کہا جاتا ہے کہ تجھے ہمارے حق کی قسم ہے، ہمارے حق کی قسم ہے پی! تجھے ہمارے حق کی قسم ہے کلام کر۔ کیونکہ ہم نے تجھے ہلاکت سے بے خوف کر دیا ہے۔’’
سیدنا پیران پیرؒ کا یہ ارشاد کہ ہم نے تجھے ہلاکت سے بے خوف کر دیا ہے۔ قرآن پاک کی آیت
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہوتا ہے اور نہ غم۔ کی عملی تشریح ہے۔
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‘‘اور ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ سب کا سب اور ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا سورج اور چاند اور ستارے۔’’ سورۃ القمان – 20
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی پذیرائی میں وزیرِ حضوری سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ جذب و جلال میں فرماتے ہیں:
‘‘آفتاب مجھ سلام کہتا ہوا طلوع ہوتا ہے۔ سال میرے پاس آتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے اور ان باتوں کی خبر دیتا ہے جو اس سال میں رونما ہوں گی۔’’
پیران پیر دستگیرؒ کی تمام کرامات کو سمیٹ لینا تو ممکن نہیں بہرکیف چند نہایت محیر العقول کرامات اور ان کی علمی توجیہہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
ایک شخص نے خدمت مبارکہ میں حاضر ہو کر عرض کیا:
‘‘یا شیخ! فرزند ارجمند کا خواستگار ہوں۔’’
آپؒ نے فرمایا: ‘‘میں نے دعا کی ہے خدا تمہیں فرزند عطا کرے گا۔’’
اس کے ہاں لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی۔ تو وہ لڑکی کو لے کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا:
‘‘شیخ نے فرمایا تھا کہ لڑکا پیدا ہو گا۔ یہ تو لڑکی ہے۔’’
شیخ نے فرمایا:
‘‘ا س کو کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے جا اور دیکھ پردۂِ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔’’
گھر میں جا کر دیکھا تو وہ لڑکا تھا۔ اس کرامت کی علمی توجیہہ یہ ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ
اور ہم نے تخلیق کیا ہر چیز کو جوڑے دوہرے۔ سورۃ الذاریات -49
فارمولا یہ بنا، ہر فرد دو پرت سے مرکب ہے۔ ایک پرت ظاہر اور غائب رہتا ہے اور دوسرا پرت مغلوب اور چھپا ہوا رہتا ہے۔ عورت بھی دو رخ سے مرکب ہے اور مرد بھی دو رخ سے مرکب ہے۔ عورت میں ظاہر رخ وہ ہے جو صنفِ لطیف کے خدوخال میں جلوہ نما ہو کر ہمیں نظر آتا ہے اور باطن رخ وہ ہے جو ہماری ظاہر آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ اسی طرح مرد کا ظاہر رخ وہ ہے جو مرد کے خدوخال میں نظر آتا ہے اور باطن رخ وہ ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا۔ اس کی تشریح یہ ہوئی کہ مرد بحیثیت مرد کے جو نظر آتا ہے وہ اس کا ظاہر رخ ہے اور عورت بحیثیت عورت کے جو نظر آتی ہے وہ اس کا ظاہر رخ ہے۔ ایکویشن یہ بنی کہ مرد کے ظاہر رخ کا متضاد باطن رخ (عورت) مرد کے ساتھ لپٹا ہوا ہے اور عورت کے ظاہر رخ کے ساتھ اس کا متضاد رخ (مرد) چپکا ہوا ہے۔
آئے دن جنسی تبدیلی کے واقعات ہمارے مشاہدے میں آتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ باطن رخ کی تحریکات اتنی زیادہ سریعُ السَّیر اور غالب ہو جاتی ہیں کہ ظاہر رخ کی اپنی تحریکات معطل اور معدوم ہو جاتی ہیں۔ یہ تبدیلی اس طرح واقع ہوتی ہے کہ مرد کے اندر عورت کا باطن رخ غالب ہو جاتا ہے اور ظاہر رخ مرد مغلوب ہو جاتا ہے۔ نتیجہ میں کوئی مرد عورت بن جاتا ہے اور کوئی عورت مرد بن جاتی ہے۔
چونکہ صاحب بصیرت اور صاحب تصرف بزرگ اس قانون کو جانتے ہیں اس لئے تخلیقی فارمولے میں رد و بدل کر سکتے ہیں۔ وزیرِ حضوری پیران پیر دستگیرؒ عالِمِ علمِ لَدنّی ہیں اور انہیں کائنات میں جاری و ساری تخلیقی قانون کا علم حاصل ہے۔ انہوں نے جب لڑکی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ لڑکا ہے تو دراصل انہوں نے تصرف کر کے لڑکی کے اندر باطن رخ مرد کو غالب کر دیا اور وہ لڑکی سے لڑکا بن گیا۔
ایک روز حضرت شیخ محلہ سے گزرے۔ ایک عیسائی اور ایک مسلمان دست و گریبان تھے۔
پوچھا۔ ‘‘کیوں لڑ رہے ہو؟’’
مسلمان نے کہا۔’‘یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسول اللہﷺ سے افضل ہیں اور میں کہتا ہوں کہ ہمارے نبیﷺ سب سے افضل ہیں۔’’
حضرت شیخ نے عیسائی سے دریافت کیا:
‘‘تم کس دلیل کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہمارے نبیﷺ پر فضیلت دیتے ہو؟’’
عیسائی نے کہا۔ ‘‘حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیتے تھے۔’’
شیخ نے فرمایا:
‘‘میں نبی نہیں ہوں بلکہ اللہ کے نبیﷺ کا غلام ہوں۔ اگر میں مردہ زندہ کر دوں تو کیا تم حضرت محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لے آؤ گے؟’’
عیسائی نے کہا۔ ‘‘بے شک۔’’
اس کے بعد دین کو زندہ کرنے والے قادر کے بندے جیلانیؒ نے فرمایا:
‘‘مجھے کوئی پرانی قبر دکھاؤ تا کہ میں مردہ زندہ کروں اور تمہیں ہمارے نبیﷺ کی فضیلت پر یقین ہو۔’’
‘‘اس قبر سے مردہ کو زندہ کرو۔’’ عیسائی نے کہا۔
حضرت شیخ نے فرمایا:
‘‘قبر کے اندر یہ شخص دنیا میں موسیقار تھا۔ اگر تم چاہو تو یہ قبر میں سے گاتا ہوا باہر نکلے۔’’
عیسائی نے کہا۔ ‘‘ہاں۔ میں یہی چاہتا ہوں۔’’
حضرت شیخ قبر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
‘‘قُمْ بِاِذْنِ اللہ’’
قبر پھٹ گئی اور مردہ گاتا ہوا قبر سے باہر آ گیا۔ اور عیسائی حضرت شیخؒ کی یہ کرامت دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔ اس واقعہ کی علمی توجیہہ کے لئے بے شمار صفحات درکار ہیں۔ مختصراً یوں سمجھئے کہ:
ہم جس کو آدمی کہتے ہیں وہ گوشت پوست کے پِنجر سے بنا ہوا ایک پتلا ہے۔ اس پتلے کی حیثیت اور اہمیت اسی وقت تک برقرار ہے جب تک کہ پتلے کے اندر روح رہتی ہے۔ روح نکل جائے تو ہم اس کو آدمی نہیں لاش کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‘‘انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور یہ بولتا، سنتا، دیکھتا، چکھتا اور محسوس کرتا انسان بن گیا۔’’
روح امرِ رب ہے۔ سورہ یٰسین میں اللہ تعالیٰ نے امرِ رب کی تعریف اس طرح کی ہے۔
اس کا امر یہ ہے کہ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ‘‘ہو جا’’ اور وہ ‘‘ہو’’ جاتی ہے۔
ایکویشن یہ بنی۔ آدمی پتلا ہے، پتلا خلا ہے، خلا میں روح ہے، روح امرِ رب ہے اور امرِ رب یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ‘‘ہو’’ اور وہ چیز مظہر بن جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ کو روح اور تخلیقی فارمولوں کا علم عطا کیا ہے۔ حضرت شیخ نے اس اسرار و رموز الٰہیہ کے فارمولے کو جب نافذ کیا تو مردہ قبر میں سے باہر نکل آیا۔
ایک ولی سے ولایت چھن گئی جس کی وجہ سے لوگ اسے مردود کہنے لگے۔ بے شمار اولیاء اللہ نے اس کا نام لوح محفوظ پر اشقیاء کی فہرست میں لکھا ہوا دیکھا۔ وہ نہایت سراسیمگی اور مایوسی کے عالم میں پیران پیر دستگیرؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور رو رو کر اپنی کیفیت بیان کی۔ حضرت نے اس کے لئے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی۔
‘‘اسے میں نے تمہارے سپرد کیا۔ جو چاہے کرو۔’’
حضرت نے اسے منہ دھونے کا حکم دیا اور اس کا نام بدبختوں کی فہرست سے دھل گیا۔
اس کی توجیہہ یہ ہے۔
ایک کتاب المبین ہے اور تیس کروڑ لوح محفوظ ہیں۔ ہر لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے ہیں۔ ہر حضیرے میں تقریباً مستقل اور غیر مستقل ۹ کھرب نظام شمسی کام کرتے ہیں۔ کتاب المبین کے علوم اور اسرار و رموز حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وراثتاً منتقل ہوئے ہیں۔ ایسے وارث مقدس، مُطہّر نفوسِ قدسی حضرات کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور خاص وہ اختیارات تفویض ہوتے ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہے:
‘‘میں اپنے بندہ کو دوست رکھتا ہوں اور میں اس کے کان، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں پھر وہ میرے ذریعے سنتا ہے، میرے ذریعہ بولتا ہے اور میرے ذریعہ چیزیں پکڑتا ہے۔’’
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث، دربارِ رسالت مآبﷺ میں وزیرِ حضوری کے عہدے پر فائز ابدالِ حق، شاہ عبدالقادر جیلانیؒ چونکہ اسرار و رموز کے حامل ہیں، اس لئے جب انہوں نے کسی ایک بدبخت کو سعادت مند بنانے کے لئے اپنے اختیارات استعمال فرمائے تو وہ بندہ مَردود سے مَسعود بن گیا۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 145 تا 153

ذات کا عرفان کے مضامین :

ترتیب و پیشکش 1 - ذات روح اور جسم 2 - روشنی کی رفتار 3 - ٹیلی پیتھی کیا ہے؟ 4 - خواب کا علم 7 - دنیا آخرت کی کھیتی 8 - عالم اعراف کی سیر 5 - عذاب قبر سے مراد 6 - اپنی سوچ بدلیں 9 - اللہ کو پہچانئے 10 - اللہ کا امین 11 - ذات مطلق کی شناخت 12 - مرد حق 13 - تعویذ اور ہندسے کیا کام کرتے ہیں؟ 14 - عالم اعراف اور عالم برزخ میں فرق 15 - جنات کی حقیقت 16 - اہرام مصر کیا ہیں؟ 18 - اللہ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے 19 - نفس کی خواہش 20 - روح امر الٰہی ہے 17 - اللہ کی جان 21 - حضور غوث پاک 22 - روشنی + نور = نور مطلق 23 - کرامات اور سائنس 24 - ذات کا عرفان 25 - خواب میں مستقبل کا انکشاف ہوتا ہے 26 - میری ڈائری 27 - مراقبہ کی تعریف 28 - شک کیا ہے 29 - وسط ایشیا میں نظام خانقاہی کا کردار 30 - دوبئی میں کتاب تجلیات کی رونمائی کے موقع پر 31 - انگلینڈ میں خطاب 32 - بی بی سی کے لئے ایک انٹرویو 33 - خواب اور بیداری 34 - مسلمان اور تسخیر کائنات 35 - علم الاسماء کیا ہیں؟ 36 - روحانی استاد اور ٹیلی پیتھی 39 - قرآن کانفرنس 40 - کمزور بچے کیوں؟ 37 - تلاوت اور توجہ 38 - روحانیت اور قلب
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)