ذات مطلق کی شناخت
مکمل کتاب : ذات کا عرفان
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6558
سوال: الشیخ عظیمی صاحب! انبیاء کرام علیہم السلام ذات مطلق اللہ تعالیٰ کو شناخت کرنے کا درس دیتے ہیں اور غیر اللہ کو مخلوق قرار دے کر اس کی نفی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ذات مطلق کو پہنچانے کا روحانی طریقہ کیا ہے؟
جواب: انبیاء علیہم السلام کی طرز تعلیم میں یہ بات نظر آتی ہے کہ انہوں نے خالق کائنات کے حکم کا تعارف کرایا ہے۔ انبیاء کرام نے اپنی تعلیم میں زور دیا ہے کہ اسی ذات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جس ذات کے امر سے کائنات وجود میں آئی۔ اس لئے کہ جب تک ذات مطلق کو نہیں سمجھا جائے گا ذات مطلق کے امر یا حکم کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ کچھ لوگ اس بات پر معترض ہیں کہ امر کو سمجھنا یا خالق کائنات کی ذات مطلق کے ارادے کو سمجھنا کس طرح ممکن ہے؟ اس لئے کہ امر جب تک خود کسی انسان کا ادراک نہ بنے امر کا سمجھنا ممکن نہیں ہے۔
امر کو سمجھنے کے لئے انسان کو اپنی اسی کنہہ سے وقوف حاصل کرنا ہو گا جو دراصل انسان کی صورت میں خود کو امر ہے۔ مقصد یہ ہے کہ انسان پہلے خالق کائنات کے امر کا تعارف حاصل کرتا ہے۔ یعنی انسان خود سے متعارف ہونا چاہتا ہے۔ کیونکہ انسان کی حیثیت خود امر ہے یا امر کے تابع ہے۔ انسان جب خود سے متعارف ہو جاتا ہے اور اپنے اندر حکم الٰہیہ سے متعارف ہو جاتا ہے تو وہ ذات مطلق کا تعارف حاصل کر لیتا ہے۔ جب تک کوئی روحانی آدمی امر کو نہیں جانتا نہ خود اپنی ذات سے واقف ہو سکتا ہے اور نہ خالق کائنات کا تعارف حاصل کر سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب کوہ طور پر روشنی دیکھ کر سوال کیا:
کون ؟
خالق کائنات نے جواب دیا۔
‘‘میں ہوں تیرا رب۔’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو روشنی دیکھی وہ روشنی امر رب تھی۔ وہ روشنی کس کی تھی؟
وہ روشنی ذات مطلق کی تھی۔ اس واقعہ سے ذات مطلق اور ذات امر کی حدود کا تعین ہو جاتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام ذات امر ہے۔
خالق کائنات ذات مطلق ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ذات امر ہونے کے باوجود امر کو روشنی میں مشاہدہ کر کے یہ سوال کیا کہ کون؟
یعنی امر نے اس بات کی احتیاج محسوس کی کہ وہ ذات مطلق کو پہچانے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روشنی دیکھ کر یہ جان لیا کہ یہ میرا رب ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو اس بات کی احتیاج ہوئی کہ روشنی امر سے اپنا تعارف کرائے۔
امر ذات مطلق کا محتاج ہے۔ اور ذات مطلق کسی چیز کی محتاج نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ذات مطلق کو حقیقت مطلقہ کہا اور امر مطلق کو کائنات کہا ہے۔ یہ طرز بیان ان لوگوں کا ہے جن لوگوں کی طرز تلاش یہ ہے کہ وہ پہلے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور ظاہر جس باطن پر قائم ہے اس کو تلاش کرتے ہیں اور اس تلاش سے کسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں بے شمار لا محدود چیزیں ایسی ہیں جو ظاہر نہیں ہیں۔
(آج کے سائنسی دور میں ایسی چیزوں کا انکشاف ہوا ہے اور ہو رہا ہے جو چیزیں آنکھ نے نہیں دیکھی تھیں)۔
سائنسدان جن چیزوں کی علامتیں خارج میں نہیں دیکھتے ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ان کے اس عمل سے کائنات کے اندر مخفی حقائق زیادہ سے زیادہ تر انجانے رہ جاتے ہیں۔
سائنسدانوں کے برعکس انبیاء کا عمل حقیقت پر مبنی ہے۔ اس لئے کہ وہ ظاہر سے باطن کو تلاش نہیں کرتے بلکہ باطن سے ظاہر کو تلاش کرتے ہیں۔ وہ ذات مطلق کے ذریعے امر مطلق کو تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی فکر ایسے اجزاء کو پا لیتی ہے جو مظاہر کے پابند نہیں ہیں۔ انبیاء مظاہر کو نظر انداز نہیں کرتے تا ہم وہ مظاہر کو اصل قرار دے کر صرف مظاہر کی روشنی میں گم نہیں ہو جاتے۔
وہ مظاہر کو بھی اتنی اہمیت دیتے ہیں جتنی مظاہر کی اصلوں کو۔ انبیاء کی فکر میں ذات مطلق ہی حیات ہے۔ اس لئے وہ حیات کو ابدی قرار دیتے ہیں اور کائنات کو ثانوی درجہ دیتے ہیں۔ انبیاء کہتے ہیں کہ پہلے حیات ہے پھر کائنات ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلے کائنات پھر حیات ہو۔ حیات ہے تو کائنات ہے۔ اس کے برخلاف مظاہر کو اولیت دینے والے سائنسدان اس لئے حیات کی پہنائیوں اور گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتے کہ وہ پہلے کائنات کو اہمیت دیتے ہیں پھر حیات کو اہمیت دیتے ہیں۔ انبیاء نے یہ بات اپنی طرز فکر سے تحقیق کی ہے کہ فکر انسانی میں ایسی روشنی موجود ہے جو کسی ظاہر کے باطن کا کسی حضور کے غیب کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔
باالفاظ دیگر انسانی ذہن پر یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ حیات کی ابتداء کہاں سے ہوئی ہے اور انتہا کہاں تک ہے۔ جب ہم ابتداء اور انتہا پر تفکر کرتے ہیں تو منکشف ہوتا ہے کہ ہر ابتداء، انتہا تک پہنچنے کے لئے قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام موت کے بعد کی زندگی کو سمجھنے پر زور دیتے ہیں۔
آخری نبی محمد الرسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
‘‘مر جاؤ مرنے سے پہلے۔’’
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 87 تا 89
ذات کا عرفان کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔