پرندے
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18520
بچپن گزرا، جوانی گئی، بڑھاپا آیا، تیز گام بڑھاپا اب نہ معلوم مگر معین سمت میں بھاگ رہا ہے۔ آدھی صدی سے زیادہ سالوں سے جسے میری دنیا ماضی کے نام سے جانتی ہے میرا عدم وجود بنا۔ پھر اس وجود نے پھیلنا اور بڑھنا شروع کیا۔ ننھی سی جان، زور آور سمجھی جانے لگی۔ معصوم کومل تصویر کے نقوش میں تیکھا پن آ گیا۔ زبان نے تکلم کیا تو یہ سراپا کلیم بن گیا۔ منٹوں تک پلک نہ جھپکنے والی آنکھ بار بار جھپکنے لگی۔ سریلی آواز سے آشنا کان کرخت آواز سے مانوس ہو گئے۔ جسم میں پانی کی جگہ خون دوڑنے لگا۔
خوشبو دار پسینہ بدبو میں تبدیل ہو گیا۔ لطیف نورانی غذا کثافت بن گئی۔ خوش روئی تند خوئی میں تبدیل ہو گئی۔ گوشت جو دراصل درندوں کی غذا ہے آدمی کے لئے مرغوب بن گیا۔ ایک آدمی تھا، ایک پرندہ تھا۔ آدمی نے پرندے کی زندگی کو پرکھا اور پرندے نے آدمی کی زندگی پر غور کیا۔ دونوں کی سوچ جب ایک نقطے پر آ گئی اور دونوں کی سوچیں باہم مل گئیں یعنی جان سے جان مل گئی۔ جان جان سے ملی تو پرندے اور انسان کی مشترک قدریں ایک دوسرے میں تحلیل ہو گئیں۔ ایک سوداگر تھا اس نے انسانی وقار مجروح کر کے آدمیت کے روپ میں دولت اور عقل کے زعم پر ایک طوطا خریدا۔ مشترک قدر، قوت و نطق سے دونوں کے اندر انتقال خیال کا عمل جاری ہوا۔ دونوں ایک دوسرے کی زبان سمجھنے لگے اور ایک دوسرے سے باتیں کرنا مشغلہ بن گیا۔
طوطا اپنا نسب نامہ سناتا تھا کہ میں آزاد پنچھی تھا اور قوم کے ساتھ فضاؤں اور آسمانی وسعتوں میں پرواز کرتا تھا۔ باغوں میں سے پھل کھاتا تھا۔
ہری بھری شاخوں پر جھولا جھولتا تھا۔
قسمت کا مارا اپنے قبیلے اور قوم سے بچھڑ گیا۔ بھوکا پیاسا ادھر سے ادھر اڑتا پھرتا تھا کہ ایک جگہ زمین پر دانہ پڑا ہوا دیکھا۔ بلندیوں کا مکین، اعلیٰ غذاؤں سے پیٹ بھرنے والا۔ میں پنچھی۔ دانہ دیکھ کر صبر نہ کر سکا اور اونچی پرواز بھول پر نیچی اڑان سے اسفل میں گرتا چلا گیا۔ ابھی زمین پر پوری طرح پنجے بھی نہیں لگے تھے اور میں نے شکم سیری کے لئے ایک نوالہ منہ میں نہیں ڈالا کہ دھوکے باز انسان نے رسی کو جھٹکا دیا اور میں جال میں قید ہو گیا۔ بہت پھڑپھڑایا۔ آزاد ہونے کی کوشش کی مگر میرا کچھ بس نہ چلا۔ اس دھوکے باز انسان نے بھوکا رکھ کر پنجرے میں محبوس کر کے بالجبر مجھے اپنی زبان سکھائی اور جب میں نے اس بدنیت انسان کی زبان سیکھ لی تو اس نے بڑے تول مول سے مجھے تیرے ہاتھ بیچ دیا۔ اے میرے محسن! تو نے میری قیمت لگائی ہے لیکن میں خوش نہیں ہوں۔ اگر تجھے میری طرح قید کر دیا جائے تو کیا تو خوش ہو گا؟
سوداگر نے طوطے کی باتیں سنیں تو خوش ہوا اور اس کی قیمت اس کے ذہن میں دوچند ہو گئی۔ مہینوں کے بعد سال گزرا تو سوداگر کو ملک سے باہر جانا پڑا۔ سوداگر نے طوطے سے کہا کہ میں ملک سے باہر جا رہا ہوں، تیرا کوئی کام ہو تو بتا۔ طوطے نے کہا۔ اے میرے محسن! جب تو کسی باغ سے گزرے اور وہاں طوطوں کو دیکھے تو ان سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ تمہارا ایک بھائی قید و بند کی زندگی گزار رہا ہے اور تمہیں یاد کرتا ہے۔ سوداگر سفر میں جب ایک باغ سے گزرا تو اس نے وہاں بہت سارے طوطوں کو دیکھا جو آزادی کیساتھ اڑ رہے تھے اور طرح طرح کی بولیاں بول رہے تھے۔ سوداگر نے طوطوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا۔ تمہارے ایک بھائی طوطے کا پیغام ہے اور اس نے طوطے کا پیغام من و عن سنا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے درخت سے ایک طوطا گرا اور پھڑپھڑا کر موت کی نیند سو گیا۔ سوداگر کو بہت قلق ہوا اور وہ افسوس کرتا ہوا وہاں سے چل پڑا۔ سفر سے واپس آنے کے بعد سوداگر جب اپنے گھر پہنچا تو اس نے پنجرے میں بند طوطے کو ساری روداد سنائی روداد کا سننا تھا کہ طوطا پنجرے میں گرا اور پھڑ پھڑا کر مر گیا۔
سوداگر بہت رنجیدہ خاطر ہوا اور پنجرہ کھول کر نہایت افسوس کیساتھ طوطے کو باہر پھینک دیا۔ ابھی سوداگر افسوس ہی کر رہا تھا کہ طوطا ٹیں ٹیں کرتا ہوا اڑا اور درخت پر جا بیٹھا۔ سوداگر نے حیرانی کے عالم میں کہا کہ تو بہت بے وفا نکلا، بتا کہ یہ ماجرا کیا ہے؟ طوطا بولا۔ جنگل میں میرے قبیلے کے ایک دانشور طوطے نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ آزادی دو طرح سے نصیب ہوتی ہے۔
۱۔ اس طرح کہ قبیلہ متحد رہے اور اجتماعی جدوجہد سے اپنی آزادی کا تحفظ کرے۔
۲۔ اگر کوئی اپنے قبیلے سے بچھڑ جائے اور قید ہو جائے تو اس کے لئے آزادی کا طریقہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ وہ اپنی جان ایثار کر دے اور آزادی کے تحفظ کے لئے مر جائے۔
میں نے اپنے قبیلے کے دانشور بزرگ کا پیغام سمجھ لیا اور میں اس نصیحت پر عمل کر کے آزاد ہو گیا۔ خدا حافظ۔ ٹیں ٹیں ٹیں ٹیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 233 تا 234
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔