سلطان
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18496
حضورﷺ ایک بارہ کوہ نبیر پر تشریف لے گئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ حضورﷺ کے ہمراہ تھے۔ کوہ نبیر ہلنے لگا یہاں تک کہ اس کے پتھر لڑھک کر دامن کوہ میں جا گرے۔ حضورﷺ نے کوہ نبیر کو ٹھوکر لگا کر فرمایا:
’’اے نبیر ساکن رہ تجھ پر نبی اور صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘
حضورﷺ کا یہ فرمان سنتے ہی کوہ نبیر ساکت ہو گیا۔
زمین کی تخلیق سے متعلق دو نظریات ہیں۔ ایک نظریہ کے مطابق زمین ابتداء میں سورج کا حصہ تھی، جو ایک ٹکڑے کی طرح اچھل کر سورج سے علیحدہ ہو گئی۔ دوسرا نظریہ بگ بینگ کی تھیوری ہے۔ دونوں نظریات کے مطابق زمین نے رفتہ رفتہ بیضوی شکل اختیار کر لی ہے۔
قطبین اور خط استواء پر کرہ ارض کا ڈایا میٹر الگ الگ ہے۔ خط استواء زمین کا ڈایا میٹر ۶۳۷۸ کلومیٹر ہے۔ زمین ۲۳ ڈگری زاویہ پر جھکی ہوئی ہے اور تقریباً چوبیس گھنٹوں میں گھوم جاتی ہے۔ اس گردش سے دن رات وجود میں آتے ہیں۔ زمین سورج کے گرد ایک چکر ایک سال میں پورا کرتی ہے اور اس حرکت سے موسم تبدیل ہوتے ہیں۔ زمین کی ساخت جھکاؤ، پھیلاؤ، گردش اور ترتیب و توازن قدرت کی معین کردہ مقداروں کا بہترین شاہکار ہے۔ سائنسدانوں کے خیال میں اگر زمین کا جھکاؤ ۲۵ ڈگری پر ہوتا تو قطبین پر جمی ہوئی برف پگھل کر سمندروں میں آ جاتی اور جھکاؤ ۲۲ ڈگری پر ہوتا تو یورپ قطب شمالی کی برف سے ڈھک جاتا، زمین محوری گردش ۲۴ گھنٹے میں پوری کرتی ہے۔ اگر زمین محوری گردش ۲۰ گھنٹوں میں پوری کرتی تو تیز ہوائیں چلتیں اور ان طوفانی ہواؤں سے زمین صحرا میں تبدیل ہو جاتی، اگر محوری گردش کا دورانیہ ۲۴ گھنٹوں کے بجائے ۲۵ گھنٹے ہوتا تو زمین خشک اور بنجر بن جاتی۔
سورہ رحمٰن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’اے گروہ جنات اور گروہ انسان! تم آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے۔‘‘
سلطان کا مطلب چھ شعوروں پر غلبہ حاصل کرنا ہے، کوئی انسان زمینی شعور پر رہتے ہوئے چھ شعوروں پر غلبہ حاصل کر لے تو وہ زمینی شعور سے باہر نکل سکتا ہے، آسمانی دنیا کو پہچاننے کے لئے سات مزید شعوروں سے گزرنا پڑتا ہے، جب انسان ان سات شعوروں کا ادراک حاصل کر لیتا ہے تو وہ اللہ کی صفات کا عارف بن جاتا ہے، صفات کا عرفان حاصل کرنے کے لئے سالک گیارہ شعوروں سے گزرتا ہے، شعور کی طاقت کا دارومدار زمان پر ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ دیوار کے اوپر گھڑی لگی ہوئی ہے، گھڑی کے درمیان سوئی لگی ہے گھڑی میں بارہ ہندسے بنے ہوئے ہیں، ایک ساے بارہ تک ہندسے اسپیس ہیں اور سوئی کا گھومنا ٹائم ہے، اگر سوئی کو اتنی رفتار سے گھمایا جائے کہ وہ پلک جھپکنے سے پہلے چھ کے ہندسے پر پہنچ جائے تو زمین پر موجود شعور جو اسپیس میں بند ہے پردے میں چلا جائے گا اور انسان کو سلطان حاصل ہو جائے گا، جس سلطان کے ذریعے وہ زمین کے کناروں سے باہر نکل سکتا ہے اور جب، سوئی کو اس طرح گھما دیا جائے کہ وہ پلک جھپکنے کے وقت سے پہلے بارہ پر پہنچ جائے تو انسان کو وہ سلطان حاصل ہو جائے گا جس کے ذریعے وہ زمین اور آسمان کے کناروں سے باہر نکل جاتا ہے، اس کے برعکس اگر سوئی بارہ کے ہندسے سے بیک وقت دو پر آ جائے تو انسان کو وہ شعور حاصل ہو جاتا ہے جو اسے خواب دکھاتا ہے، اگر سوئی بیک وقت بارہ سے اچھل کر تین پر آ جائے تو اسے مراقبہ کا شعور حاصل ہو جاتا ہے، اگر سوئی بیک وقت چار پر آ جائے تو اسے وہ شعور حاصل ہو جاتا ہے جس کو وحی کہتے ہیں اور یہ وہی وحی ہے جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے کہ:
’’ہم نے شہد کی مکھی پر وحی کی۔‘‘
اگر بارہ کے ہندسے پر قائم سوئی اتنی تیزی کے ساتھ حرکت کرے کہ وہ ایک دم پانچ پر آ جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہو گئی ہے جس کو قرآن میں ’’سلطان‘‘ کہا ہے، یعنی اب انسان زمین کے کناروں سے باہر دیکھ سکتا ہے، زمین کے کناروں سے باہر دیکھنے کی صلاحیت کے حامل سالک کے اندر پہلے آسمان کا شعور پیدا ہو جاتا ہے، علیٰ ہذالقیاس اس طرح سات آسمانوں کو وہ دیکھ بھی لیتا ہے اور سات آسمانوں میں وہ داخل بھی ہو جاتا ہے۔ اللہ کریم نے فرمایا:
’’ہم نے آسمان اور زمین کو تہہ در تہہ بنایا ہے۔‘‘
سورۃ الطارق میں ارشاد فرمایا ہے:
’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم بھی انہی کی مانند ہے۔‘‘
سورۃ المومنین آیت نمبر ۱۷ میں ہے۔
’’اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے تخلیق کے کام سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔‘‘
تہہ در تہہ سے مراد دراصل وہ شعور یا صلاحیتیں ہیں جو اللہ نے انسان کو ودیعت کی ہیں۔ سات تہوں والے آسمان یا زمین سے مراد یہ ہے کہ ہر تہہ ایک مکمل نظام ہے اور ہر نظام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جس کا ایک دوسرے سے تصادم نہیں ہوتا، ان سب کا رشتہ خالق کائنات کے ساتھ قائم ہے، تمام چیزیں جو سات آسمانوں اور زمینوں میں ہیں سب اللہ کی حمد و ثناء بیان کرتی ہیں، یہ تمام چیزیں اور مخلوقات اس بات کا علم رکھتی ہیں کہ ہمارا خالق اللہ ہے اور اس علم پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء بیان کرتی ہیں اور شکر ادا کرتی ہیں۔ اربوں، کھربوں سے زیادہ ان چیزوں یا مخلوقات میں سے کوئی ایک مخلوق بھی اللہ کی خالقیت سے انحراف کرے تو نظام میں خلل واقع ہو جائے گا۔
یہی بات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ:
’’تمام چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی حمد بیان کرتی ہیں یعنی اللہ کی خالقیت سے انحراف نہیں کرتیں۔‘‘
قانون یہ ہے کہ جب کوئی آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو وہ ماضی سے آتا ہے اور جب وہ دوبارہ ماضی میں پلٹتا ہے تو سوئیوں کی گردش ریورس ہو جاتی ہے، جب تک انسان چھ دنیاوی شعور یا چھ دائروں میں رہتا ہے اس کے اوپر مکانیت کا غلبہ رہتا ہے اور جب انسان چھ شعوروں سے نکل کر ساتویں شعور میں داخل ہوتا ہے تو گیارہویں شعور تک اس پر زمانیت کا غلبہ رہتا ہے، مکانیت مغلوب ہو جاتی ہے۔ زمین و آسمان میں موجود ہر شئے شعور رکھتی ہے وہ اس بات سے واقف ہے کہ رحمت العالمین سیدنا حضورﷺ کے لئے کائنات کی ہر شئے محکوم ہے، پہاڑ کے اوپر جیسے ہی حضورﷺ تشریف لے گئے تو محکوم پہاڑ آپ کی جاری و ساری حاکمیت کے رعب سے ہلنے لگا یعنی اس پر زلزلہ آ گیا۔ زلزلے کے معنی ہیں ’’زور سے ہلا دینا۔‘‘
’’جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی۔‘‘
(الزلزال)
’’جب وہ ہونے والا واقع پیش آ جائے گا تو کوئی اس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا نہ ہو گا وہ تہہ و بالا کر دینے والی آفت ہو گی، زمین اس وقت یک بار ہلا دی جائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ ہو جائیں گے جیسے اڑتا ہوا غبار۔‘‘
(الواقعہ)
پہاڑ میں شعور ہے، قرآن پاک اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔
’’اور ہم نے اپنی امانت پیش کی آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر سماوات و ارض اور پہاڑوں نے کہا کہ ہم اس امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘
کسی چیز کے بارے میں انکار یا اقرار اس بات کی علامت ہے، اس شئے کے اندر شعور ہے، جس طرح کوئی ایک فرد اپنے شعور کو نہیں دیکھ سکتا اور شعور کی مزاحمت یا شعور کی پسندیدگی کا وزن محسوس کرتا ہے، اسی طرح ہم پہاڑوں کو وزنی اور جما ہوا دیکھتے ہیں۔
’’تم دیکھتے ہو پہاڑ اور گمان کرتے ہو کہ یہ جمے ہوئے ہیں حالانکہ پہاڑ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔‘‘
یعنی پہاڑ کثیف مادے پر قائم نہیں ہیں، جب حضور پاکﷺ نے پہاڑ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’ٹھہر جا! تجھ پر نبی اور صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں۔‘‘
تو پہاڑ نے حکم کی تعمیل کی اور وہ ہلنے اور لرزنے سے رک گیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 210 تا 213
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔