مخلوق کی خدمت
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18436
اگر آدمی کوئی علم نہیں جانتا تو اس علم کو سیکھنے کے لئے ان تمام علوم سے جو وہ سیکھ چکا ہے صرف نظر کر کے اسے نرسری کا بچہ بننا پڑے گا۔
استاد جب کہتا ہے کہ پڑھو ’’الف‘‘
بچہ یہ نہیں کہتا کہ ’’الف‘‘ کیا ہے
استاد کی تقلید میں بچہ کہہ دیتا ہے ’’الف‘‘
عقل و شعور استعمال کر کے کوئی اعتراض نہیں کرتا یہ وصف بچہ کو قدم قدم آگے بڑھاتا ہے اور بچہ پڑھ لکھ کر پی ایچ ڈی کر لیتا ہے۔ دنیاوی علوم کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی، جب تک عقل و شعور کی نفی کر کے طالب علم سکھائے جانے والے علم کو قبول نہ کرے، معاشرتی طرزیں بچے میں ماحول اور ماحول میں رہنے والے افراد سے منتقل ہوتی رہتی ہیں، ماں آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہتی ہے ’’وہ چاند ہے‘‘ بچہ چاند کو اسی طرح چاند سمجھتا ہے جس طرح ماں کے شعور میں چاند ہے۔ باپ کہتا ہے ’’یہ درخت ہے‘‘۔ بچے کے اندر درخت کے متعلق باپ کا علم منتقل ہو جاتا ہے۔ بہن، بھائی، دادی، نانی بچے کو پانی پلاتے ہیں، بچے کی آنتیں پانی سے اسی طرح سیراب ہوتی ہیں جس طرح گھر کے دوسرے افراد پانی پی کر سیراب ہوتے ہیں، بچہ اگر چاند کو چاند تسلیم کرنے سے انکار کر دے، درخت کو درخت نہ مانے، پانی سے پیاس بجھنے پر اعتراض کرے، ماں کو ماں نہ کہے، باپ کو باپ تسلیم نہ کرے تو معاشرے کے اقدار بچے میں منتقل نہیں ہونگی۔
بچہ جب تک بے شعوری کو قبول نہیں کرتا، اس کے اندر شعور پیدا نہیں ہوتا، روحانی استاد کہتا ہے، ’’اندھیرا روشنی ہے‘‘ چھ ارب لوگ کہتے ہیں اندھیر، اندھیر ہے، تاریکی ہے اگر شاگرد، عامل، معمول کے طریقہ پر حاصل ہونے والے شعور پر اعتراض کر دے کے اندھیرا روشنی کیسے ہو سکتا ہے؟ اندھیر تو اندھیر ہے تو وہ روحانی علوم نہیں سیکھ سکتا۔
جس طرح بچے نے اے، بی، سی ڈی پڑھنے میں اپنی عقل استعمال نہیں کی اس طرح جب تک روحانی شاگرد اندھیرے کو روشنی تسلیم نہیں کرے گا، اگلی کلاسوں میں داخل نہیں ہو سکتا۔ روحانی استاد کہتا ہے ’’مادی جسم فکشن ہے اس کی اپنی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے‘‘ فرد حجت پیش کرتا ہے اگر جسمانی نظام فکشن ہے تو روٹی نہ کھانے سے ہم کمزور کیوں ہو جاتے ہیں؟ اگر روٹی کھانا فکشن ہے تو ہمارے اندر کھانا کھانے سے طاقت کیوں آ جاتی ہے؟
روحانی استاد بتاتا ہے کہ ’’ہمارا مادی جسم اس لئے فکشن ہے کہ ہم روٹی بھی کھا رہے ہیں، پانی بھی پی رہے ہیں، فضا سے آکسیجن بھی ہمیں مل رہی ہے لیکن جسم انحطاط پذیر ہے، آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ روٹی کھا کر آدمی بوڑھا کیوں ہو رہا ہے؟ جوان آدم سوکھی روٹی کھا کر بھی صحت مند ہے، بوڑھا آدمی طاقتور غذائیں کھا کر روز بروز کمزور ہوتا رہتا ہے، رگ، پٹھوں سے مرکب جسم کے خوبصورت خدوخال سکڑ جاتے ہیں، اعصاب ڈھیلے ہو جاتے ہیں، چہرے پر جھریاں پڑ جاتی ہیں۔
دنیاوی علوم کا استاد ہو یا روحانی استاد ہو، دونوں کا ادب و احترام ضروری ہے۔ روحانی استاد اور علم حصولی کے استاد میں یہ فرق ہے کہ روحانی استاد کے پیش نظر صرف اللہ ہوتا ہے۔ دنیاوی غرض، لالچ، طمع کچھ نہیں ہوتا، روحانی استاد کے ذہن میں شاگرد کی اصلاح و تربیت کا ایک مکمل پروگرام ہوتا ہے کہ شاگرد غیب کی دنیا سے واقف ہو جائے، اسے عرفان ذات حاصل ہو جائے، روحانی استاد تعلیم دیتا ہے کہ اللہ سے دوستی کی شرط یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرے جو اللہ کے لئے پسندیدہ ہے۔
روحانی استاد بتاتا ہے کہ روحانی انسان کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہے، روحانی انسان وہی کام کر کے خوش ہوتا ہے جو اللہ کی صفت ہے۔
جواری کی دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ دوست کے ساتھ جا کر کلب میں جوا کھیلے، شطرنج کے کھلاڑی سے دوستی شطرنج پر مہارت حاصل کرنے کی متقاضی ہے۔
مصور کی دوستی آدمی کو ماہر مصور نہ بھی بنائے تو اسے اس قابل ضرور بنا دیتی ہے کہ وہ کینوس پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر خدوخال اور نقش و نگار واضح کر دے، سینما دیکھنے کا شوقین پیسے خرچ کر کے دوست کو فلم دکھانے کے لئے لے جاتا ہے۔
دنیاداری میں کبھی دوستی اس وقت تک بااعتبار نہیں ہے جب تک دوست وہی اوصاف اختیار نہ کرے جو اس کے دوست کے ہیں، بچہ کا نو ماہ تک ماں کے پیٹ میں بظاہر حیاتیاتی ضابطوں کے خلاف پرورش پانا، پیدا ہو کر دنیا میں آنا، غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے ماں کے سینے سے دودھ کا چشمہ ابل پڑنا، پیدائش سے موت تک حفاظت، وسائل کا مہیا ہونا، یہ سب بندوں کی خدمت ہے جو اللہ کے قائم کردہ نظام کے تحت جاری و ساری ہے۔
اللہ کے نظام میں ہر آدمی کے ساتھ بیس ہزار فرشتے ہمہ وقت کام کرتے ہیں۔ یعنی ہر آدمی اللہ تعالیٰ کا کمپیوٹر ہے جس میں بیس ہزار چپس ہیں، ایک چپ یا ایک کنکشن بھی کام نہ کرے تو پورے نظام میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔
انسان کے اندر جو مشینری فٹ ہے بیس ہزار فرشتے اس کے ایسے کنکشن ہیں جن سے انسانی مشین کے اندر بجلی دوڑتی ہے اور اس بجلی سے انسان کے اندر بارہ کھرب سیلز چارج ہوتے ہیں۔
دماغ میں دو کھرب سیلز ہیں۔ ایک سیل کسی نہ کسی حس، کسی نہ کسی عضو، کسی نہ کسی شریان اور رگ پٹھوں سے متعلق ہے۔ دو کھرب سیلز میں سے ایک سیل بھی متاثر ہو جاتا ہے تو انسانی جسم پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو جاتے ہیں۔ ایسے مربوط نظام کو اللہ کی جانب سے مخلوق کی خدمت کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔
زمین، سورج، چاند، ستارے، ہوا کی پرواز، بارشوں کا انتظام، جمادات، نباتات، معدنیات، سمندروں میں آباد دنیائیں کس چیز کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ہوا ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں جاتی ہے اور مختلف نالیوں سے گزرتی ہوئی پورے جسم میں داخل ہوتی ہے۔ جیسے جیسے ہوا آگے بڑھتی ہے ہوا کا دباؤ زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ ان نالیوں کا قطر بتدریج چھوٹا ہوتا جاتا ہے اور پھیپھڑوں میں موجود تین سو ملین تھیلیوں میں ہوا پہنچ جاتی ہے۔ کانوں سے ہم سنتے ہیں ، آواز کی لہریں کان میں داخل ہوتی ہیں، کان کے پردے پر بالوں کی ضرب سے پیدا ہونے والی گونج میں ہم معنی پہناتے ہیں۔ کیا یہ سب مخلوق کی خدمت نہیں ہے؟ ان خدمات کے لئے آدمی اللہ کو کتنے پیسے دیتا ہے؟ آدمی زبانی کلامی بھی شکر ادا نہیں کرتا۔
سب تعریفیں اللہ رب اللعالمین کے لئے ہیں۔
جو عالمین کی خدمت کرتا ہے۔
جو عالمین کو وسائل فراہم کرتا ہے۔
جو عالمین کو رزق دیتا ہے۔
جو عالمین میں آباد مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے وسائل فراہم کرتا ہے۔
جس بندے کا اللہ سے تعلق قائم ہو جاتا ہے اس کے اندر اللہ کا وصف منتقل ہو جاتا ہے اور اللہ رب اللعالمین کا وصف خدمت ہے، کوئی نبی، کوئی رسول، کوئی روحانی آدمی ایسا نہیں گزرا جس نے اللہ کی مخلوق کی خدمت نہ کی ہو، مخلوق کی خدمت اللہ کا ذاتی وصف ہے جو بندہ مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔ فی الحقیقت اس نے وہ کام شروع کر دیا ہے جو اللہ کرتا ہے، جتنا زیادہ مخلوق کی خدمت میں انہماک بڑھتا ہے اسی مناسبت سے بندہ اللہ کے قریب ہو جاتا ہے، اللہ سے اس کی دوستی ہو جاتی ہے۔
روحانی استاد اپنے شاگرد کو بتاتا ہے۔
مخلوق کی خدمت اللہ کی پسندیدہ عادت ہے۔
روحانی آدمی اللہ کی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔
جو بندہ مخلوق سے نفرت کرتا ہے اور تفرقہ ڈالتا ہے وہ اللہ کا دوست نہیں۔
اللہ کا دوست خود غرض نہیں ہوتا۔
اللہ کا دوست خوش رہتا ہے اور سب کو خوش دیکھنا چاہتا ہے۔
ماں باپ بچے کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہوتے رہتے ہیں اسی طرح اللہ بھی اپنی مخلوق کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہوتا ہے ایسی باتوں سے جس کے پیچھے خلوص نیت اور مطمع نظر صرف اللہ ہو۔
آدمی کے اندر خون کا حیرت انگیز نظام کام کر رہا ہے۔ جسم کے اندر وریدوں اور شریانوں میں دوڑنے والا خون ۲۴ گھنٹے میں ۷۵ ہزار میل سفر طے کرتا ہے، آدمی ایک گھنٹہ میں تین میل چلتا ہے۔ اگر وہ مسلسل بغیر کسی وقفہ کے ۲۶ ہزار ۳۸۰ گھنٹوں تک چلتا رہے تو تب ۷۵ ہزار میل کا سفر پورا ہو گا، کم و بیش ایک ہزار دن رات کی مسلسل مسافت انسان کی طاقت سے باہر ہے اور اللہ نے انسان کے ارادے اور اختیار کے بغیر جسمانی مشینری کو متحرک رکھنے کے لئے دل کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ اپنے پھیلنے اور سکڑنے کی صلاحیت کو بروئے کار لا کر سارے جسم کے ایک ایک عضو کو خون فراہم کرتا رہے۔ اللہ اپنی مخلوق کی خدمت گزاری میں مصروف ہے، ہر بندہ پر لازم ہے کہ وہ شکر گزار بن کر اللہ کی مخلوق کی خدمت کرے اور اللہ کا دوست بن جائے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 169 تا 173
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔