پیغمبرانہ طرز فکر
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18420
’’قسم ہے ز مانہ کی انسان خسارے اور نقصان میں ہے مگر وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جو رسالت اور قرآن کی تعلیمات کو اپنا کر اس پر عمل پیرا ہو گئے۔‘‘
(القرآن)
پیدائش کے بعد انسان کا تعلق تین نظاموں سے ہے، پہلا نظام وہ ہے جہاں اس نے خالق حقیقی کو دیکھ کر اس کی منشاء کو پورا کرنے کا عہد کیا، دوسرا نظام وہ ہے جس کو ہم عالم ناسوت دارالعمل یا امتحان گاہ کہتے ہیں اور تیسرا نظام وہ ہے جہاں انسان کو امتحان کی کامیابی یا ناکامی سے باخبر کیا جاتا ہے، انسان کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ یہ جان لے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے عہد کیا ہے کہ اللہ اس کا خالق اور رب ہے، علمائے باطن کہتے ہیں کہ انسان ستر ہزار پرت کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق انسان جب عالم ناسوت میں آتا ہے تو اس کے اوپر ایک ایسا پرت غالب آ جاتا ہے جس میں سرکشی، بغاوت، عدم تحفظ، عدم تعمیر، کفران نعمت، ناشکری، جلد بازی، شک، بے یقینی اور وسوسوں کا ہجوم ہوتا ہے، یہی وہ ارضی زندگی ہے جسے قرآن پاک نے اسفل السافلین کہا ہے، انبیاء کرام کی تعلیمات یہ ہیں کہ پوری کائنات میں دو طرزیں کام کر رہی ہیں، ایک طرز اللہ کے لئے پسندیدہ ہے اور دوسری اللہ کے لئے ناپسندیدہ ہے، وہ ناپسندیدہ طرز جو بندے کو اللہ سے دور کرتی ہے اس کا نام شیطنیت ہے اور وہ پسندیدہ طرز فکر جو بندے کو اللہ کے قریب کرتی ہے اس کا نام رحمت ہے۔
روحانیت کے راستے پر چلنے والے مبتدی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ انسان کا کردار اس کی طرز فکر سے تعمیر ہوتا ہے، طرز فکر اگر پرپیچ ہے تو آدمی کا کردار بھی پرپیچ بن جاتا ہے، طرز فکر البتہ قانون کے مطابق راست ہے تو بندے کی زندگی میں سادگی اور راست بازی کارفرما ہوتی ہے، طرز فکر اگر سطحی ہے تو بندہ سطحی طریقہ پر سوچتا ہے، طرز فکر میں گہرائی ہے تو بندہ شئے کی حقیقت جاننے کے لئے تفکر کرتا ہے۔
حقیقت پسندانہ طرز فکر ہر آدمی کے اندر موجود ہے لیکن ہر آدمی اسے استعمال نہیں کرتا، آدمی دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی غیر حقیقی باتوں کو اصل اور حقیقی سمجھتا ہے، سالک جب راہ سلوک میں قدم بڑھاتا ہے تو والدین اور معاشرے سے ملی ہوئی غیر حقیقی طرز فکر تبدیل ہو جاتی ہے، جس قسم کا ماحول ہوتا ہے اسی قسم کے نقوش کم و بیش ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں، جس حد تک یہ نقوش گہرے ہوتے ہیں اسی مناسبت سے انسانی زندگی میں طرز فکر کی تشکیل ہوتی ہے، ماحول اگر ایسے کرداروں سے بنا ہے جو ذہنی پیچیدگی، بے یقینی، بددیانتی، تخریب اور ناپسندیدہ اعمال کا مظاہرہ کرتے ہیں تو فرد کی زندگی پریشانی میں مبتلا ہو جاتی ہے، ماحول میں اگر راست بازی اور اعلیٰ اخلاق کی قدریں موجود ہیں تو ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والا شخص پاکیزہ نفس اور حقیقت آشنا ہوتا ہے، سب جانتے ہیں کہ مادری زبان سیکھنے کے لئے بچے کو قائدہ نہیں پڑھانا پڑتا، شک اور بے یقینی کا پیٹرن جس طرح بچے کے اندر ماحول سے خود بخود منتقل ہو جاتا ہے اسی طرح پاکیزہ ماحول اور روحانی استاد کی قربت سے سالک کے اندر یقین کا پیٹرن بن جاتا ہے۔
جتنے بھی پیغمبر تشریف لائے سب کی طرز فکر یہ تھی کہ ماورائی ہستی کے ساتھ ہمارا رشتہ قائم ہے۔ یہی روحانی طرز فکر ہے اور یہی رشتہ کائنات کی رگ جان ہے۔ روحانی طرز فکر مسلسل ایک عمل ہے جو سالک کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے، اس عمل میں بڑی رکاوٹ صدیوں پرانی وہ روایات ہیں جن کے مطمع نظر مادیت ہے، آدمی جس ماحول میں جمع ہوتا ہے وہ ماحول قبیلوں اور خاندانوں کی روایات بن جاتی ہیں، روایات کے امین والدین ہوتے ہیں۔ بھائی بہن ہوتے ہیں، کنبہ برادری کے لوگ اور تمام قرابت دار ہوتے ہیں، انسانی برادری میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں:
۱۔ ایک جو خاندانی روایات میں زندہ رہتے ہیں، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور اگر ہو بھی رہا ہے تو کیوں ہو رہا ہے، ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے باپ دادا اس طرح کرتے ہیں۔
۲۔ دوسرا گروہ سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟
مشرکین مکہ باوجود جانتے تھے کہ تین سو ساٹھ بت ہمارے جیسے آدمیوں نے پتھروں سے تراشے ہیں۔ یہ آدمیوں کی طرح بول نہیں سکتے، سن نہیں سکتے لیکن خاندانی روایات کا اتنا زیادہ غلبہ تھا کہ وہ ان بے جان پتھروں کے مجسم ٹکڑوں کو خدا کا درجہ دیتے تھے، نہ صرف خدا مانتے تھے بلکہ کوئی اس حقیقت کو بیان کرتا تھا کہ ہمارے خدا پتھروں کے بے جان مجسمے ہیں تو اس کے درپے آزار ہو جاتے تھے۔
شرم ناک حد تک سزائیں دینا ان کے نزدیک بہترین عمل تھا، صدیوں پرانی روایات اور جہالت کی گرد سے اٹا ہوا ماحول انسان کے اندر فہم کا چشمہ خشک کر دیتا ہے۔ ہمارے سامنے مارے اپنے بچوں کی مثال ہے، بچوں کو جہالت سے معمور ماحول سے الگ کر کے علمی ماحول میں داخل کرتے ہیں تو دراصل جہالت کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہیں، بچے کو اسکول (یعنی جاہلانہ ماحول سے آزاد ماحول) میں داخل کرتے ہیں۔
میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے میں دس سال لگ جاتے ہیں، ایک سال کا وقفہ شمار کیا جائے تو ساڑھے تین ہزار گھنٹے صرف کر کے ہمارا بچہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ سو تک گنتی یاد کر لیتاہے۔
میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے میں ۳۵ ہزار گھنٹوں کا وقت اور ہزاروں روپے صرف ہوتے ہیں، ان پینتیس ہزار گھنٹوں میں ماں کی کوشش ہوتی ہے کہ بچہ پڑھائی میں لگا رہے، باپ بھی اس طرف توجہ دیتا ہے کہ بچہ کی تعلیم میں کوتاہی نہ ہو، بھائی بھی کتابیں کاپیاں لے کر ساتھ بیٹھ جاتا ہے، بہن بھی پڑھنے کی تلقین کرتی ہے، گھر کے سب افراد توجہ دیتے ہیں تب سکینڈری سطح کی تعلیم حاصل ہوتی ہے، اعلیٰ تعلیم ابھی نہیں شروع ہوئی۔ میٹرک کے بعد راستہ کھلتا ہے کہ کس فیلڈ میں آگے بڑھنا ہے۔ ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے، اکاؤنٹینٹ بننا ہے، جہاز اڑانا ہے، مشین بنانی ہے وغیرہ وغیرہ۔ دس سال میں آدمی عالم نہیں بن جاتا۔ قابل ذکر علوم کے حصول کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے یہ تذکرہ دنیاوی تعلیم کا ہے۔
دوسری طرف روحانی علوم میں ایک ہفتے میں ایک گھنٹے کا وقت بمشکل نکلتا ہے، اسی تناسب سے ایک ماہ میں چار گھنٹے اور ایک سال میں اڑتالیس گھنٹے بنتے ہیں۔ آدمی کے دیگر معمولات بھی جاری رہتے ہیں، کاروبار بھی ہوتا ہے، ملازمت بھی جاری رہتی ہے، شادی بیاہ اور دیگر امور بھی سرانجام دیئے جاتے ہیں اور صدیوں پرانی روایات اور ماحول سے بھی آدمی ذہنی طور پر وابستہ رہتا ہے۔
ایک سال میں صرف ۴۸ گھنٹے صرف کر کے اگر یہ سوچا جائے کہ روحانی علوم حاصل نہیں ہوئے، میں کشف کی لذتوں سے آشنا نہیں ہوا، مافوق الفطرت باتیں سامنے نہیں آئیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحانیت کی اہمیت دنیاوی علوم کی ابتدائی کلاسوں سے بھی کم کر دی گئی ہے۔
دس سال تک ہر سال ساڑھے تین ہزار گھنٹے صرف کرنے کے بعد طالبعلم اس قابل ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے کسی شعبے کا انتخاب کرے تو اڑتالیس گھنٹے کا وقت دے کر وہ کس طرح کہتا ہے کہ روحانی علوم حاصل نہیں ہوئے۔ خالص دنیاوی ماحول میں رائج طرز فکر سے روحانی استاد کی طرز فکر منفرد ہوتی ہے، روحانی استاد میں توکل اور استغنا ہوتا ہے، دنیا طلبی نہیں ہوتی اس کی مرکزیت ’’توحید‘‘ ہے۔
روحانی علوم سیکھنے کے لئے طالبات اور طلباء کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اندر منفی شیطانی اور غیر اسلامی روایات سے بغاوت کرنے کا حوصلہ اور جذبہ ہو، صراط مستقیم پر چلنے اور مستقل مزاجی سے آگے بڑھنے کا عزم ہو، سیدنا حضورﷺ کے نقش قدم پر قائم رہنے اور اللہ کا عرفان حاصل کرنے کے لئے طاغوتی طاقتوں اور نفس کی سرکشی سے ٹکرانے اور انہیں زیر کرنے کی ہمت ہو۔
کتاب محمد الرسول اللہﷺ میں سیدنا حضورﷺ کی حیات طیبہ کے وہ پہلو جمع کئے گئے ہیں جن میں مثبت طرز فکر کو فروغ دینے میں شر کے نمائندوں کی طرف سے قدم قدم پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں کا تذکرہ ہے، توحید کے راستے میں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے حضورﷺ کی ساری زندگی مصائب اور جدوجہد میں گزر گئی اور بالآخر وہ اللہ کا پیغام پہنچانے میں کامیاب و کامران ہوئے، وہ اللہ سے راضی ہو گئے اور اللہ ان سے راضی ہو گیا۔
روحانیت سیکھنے اور روحانی مشن کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ حضورﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں اور اس بات پر غور کریں کہ سیدناﷺ نے الٰہی مشن کو پھیلانے کے لئے اور وحدانیت کا پرچار کرنے کے لئے اور کفار کا حلقہ توحید میں لانے کے لئے کیسی کیسی تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ ہم جب حضور پاکﷺ کی سیرت طیبہ کو حرز جاں بنا لیں گے اور روحانی علوم کو فروغ دینے اور ان علوم کو نوع انسانی میں پہنچانے میں ہر ہر قدم پر اللہ اور اس کے رسول محمدﷺ کا ہمیں تعاون ملے گا، بلاشبہ ہم دنیا میں کامران اور آخرت میں رسول اللہﷺ کے سامنے سرخرو ہونگے، جرأت مندانہ اقدام کرنے، دل شکن حالات سے گزرنے، لوگوں کی الزام تراشیوں کو نظر انداز کرنے کا ہمارے اندر حوصلہ پیدا ہو گا۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے وصال سے پہلے مجھے مخاطب کر کے فرمایا تھا:
’’خواجہ صاحب مشن کو پھیلانے والے لوگ دیوانے ہوتے ہیں۔‘‘
پھر مجھ سے فرمایا:
’’آپ میری بات سمجھ گئے۔‘‘
میں نے عرض کیا:
’’میں آپ کی منشاء اور آپ کی ہدایت کو سامنے رکھ کر روحانی مشن کی پیش رفت میں انشاء اللہ دیوانہ وار کام کروں گا۔‘‘
حضور قلندر بابا اولیاءؒ خوش ہوئے اور میرے سر پر ہاتھ رکھا، پھر پیشانی پر انگلیوں کے پوروں سے دائرے بناتے رہے اور پھونک مار کر فرمایا:
’’اللہ تمہارا حامی و ناصر ہے۔‘‘
مشن کی پیش رفت کے سلسلے میں جب تک انسان ہر قسم کے دنیاوی مفاد حرص و آس، حسد، طمع، کبر و نخوت، برائی، احساس برتری اور احساس کمتری سے نجات حاصل نہیں کر لیتا اس کے اندر مشن کے لئے دیوانگی نہیں پیدا ہوتی۔
سیرت طیبہ پر منفرد انداز میں لکھی جانے والی کتاب ’’محمد الرسول اللہ‘‘ حضور سیدناﷺ کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مکمل خاکہ ہے جس میں حضورﷺ نے تبلیغ دین کے سلسلے میں (۲۳) تئیس سال جدوجہد اور مسلسل کوشش فرمائی ہے۔ پیدائش کے بعد سے چالیس سال تک کی عمر بھی سالکین کے لئے مشعل راہ ہے۔
بلاشبہ وہ تمام حضرات و خواتین سعید اور خوش بخت ہیں جو محمد الرسول اللہ کے مشن کی پیش رفت کے لئے ہر قسم کا ایثار کرتے ہیں۔
اس سعادت اور خوش بختی کی حفاظت کے لئے اور اس سعادت اور خوش بختی کا شکر ادا کرنے کے لئے ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم سیدنا حضورﷺ کی زندگی کو مشعل راہ بنائیں اس عمل سے ہمارے اندر یقین اور مسلسل آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا ہو گا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 155 تا 159
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔