بارش
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18396
اس رنگ رنگ دنیا کو رونق بخشنے کے لئے قدرت نے حیات و ممات کا ایک مکمل نظام بنایا ہے۔ زمین پر جو بھی چیز موجود ہے وہ حیوانات ہوں، جمادات ہوں، نباتات ہوں، حیوانات میں پرندے ہوں، چرندے ہوں، درندے ہوں یا انسان ہوں اور زمین کے اوپر یا زمین کے اندر حشرات الارض ہوں۔
زمین پر تین حصے پانی کی حکمرانی ہے۔ پانی کی مخلوق میں گھونگے ہوں، سیپ ہوں، موتی ہوں، مرجان ہوں، دریائی گھوڑا ہو اور بے شمار پانی سے جنم لینے والی مخلوقات ہوں، نباتات میں درخت ہوں، پودے ہوں، پھل ہوں، کھانے پینے کے لئے گھاس ہو، ترکاریاں اور سبزیاں ہوں، جمادات میں معدنیات ہوں، معدنیات میں ہیرے جواہرات ہوں، زینت و زیبائش کے لئے طرح طرح کے خوبصورت اور قیمتی پتھر ہوں، تانبہ ہو، پیتل ہو، ایلومینیم ہو، گیس ہو، پیٹرول ہو، چاندی ہو یا سونا ہو سب کی تخلیق کا قانون ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر چیز پیدا ہوتی ہے، جوان ہوتی ہے اور کہن سالی میں منتقل ہو کر اس دنیا سے غائب ہو جاتی ہے، پیدائش کا نظام ہو اس نظام میں جوانی بڑھاپا یا موت ہو، سب ایک معین قانون کے تحت حرکت کرتے ہیں اور یہ حرکت اس دنیا سے نکل کر دوسری دنیا میں بھی جاری رہتی ہے۔ قدرت کا نظام جس طرح پیدا کرنے کا پابند ہے اسی طرح ہر چیز کی حفاظت بھی اس نظام کی ذمہ داری ہے۔
زمین کے اوپر اللہ تعالیٰ نے ایک چھت بنائی ہے اور اس چھت کو ستاروں سے چاند سے، سورج سے ایسا مزین کیا ہے کہ انسان دیکھ کر خوش بھی ہوتا ہے اور حیران بھی ہوتا ہے۔
حسن کا معیار یہ ہے کہ کوئی خوبصورت ہوتا ہے اور کوئی کم خوبصورت ہوتا ہے، کوئی بدصورت ہوتا ہے، یہ خوبصورتی، کم خوبصورتی اور بدصورتی زمین پر موجود ہر نوع کے افراد میں موجود ہے۔ جس طرح انسانوں میں لوگ خوبصورت ہوتے ہیں، کم خوبصورت ہوتے ہیں، مضبوط ہوتے ہیں، کمزور ہوتے ہیں، اسی طرح نباتات میں بھی مضبوط درخت، نازک درخت، بدصورت درخت ہر وقت آنکھوں کے سامنے ہیں، زمین کے اوپر اگر نباتات کی دنیا نہ بسی ہوئی ہوتی تو زمین اجاڑ لگتی، زمین کے اندر کشش باقی نہ رہتی، نباتات کی دنیا نہ ہوتی تو انسان کو کھانے کے لئے اجناس میسر نہ آتیں، درخت نہ ہوتے تو کوئلہ نہ بنتا، کوئلہ نہ ہوتا تو خورد و نوش میں انسان اور شیر برابر ہو جاتے، کوئلہ یا لکڑی یا گیس کھانا پکانے میں کام آتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آگ سے انسان کی ایجادات کا براہ راست تعلق ہے، یہ آگ ہی ہے جو لوہے کو پگھلا کر انسانی زندگی کے لئے آرام و آسائش میسر کرتی ہے، یہی کوئلہ جو انسان کو زندگی فراہم کرتا ہے۔ اگر کسی کمرے میں جلا کر کھڑکیاں اور دروازہ بند کر دیا جائے تو آدمی کا دم گھٹ جائے گا، کوئلہ کو خوبصورتی کا نام نہیں دیا جا سکتا لیکن اس بدصورت شئے کے اندر قدرت نے جو صلاحیت محفوظ کر دی ہے اس سے مردہ اقوام زندہ ہو گئی ہیں اور زندہ اقوام جنہوں نے کوئلہ کی صلاحیت کا سراغ نہیں لگایا اور کوئلہ کی صلاحیت سے اجتماعی فوائد حاصل نہیں کئے وہ مردہ ہو گئیں۔
انسان مر جاتا ہے، قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے، جب قبر میں انسان کا گوشت پوست اور ہڈیاں مٹی میں تبدیل ہو جاتی ہیں تو یہی مٹی بن جاتی ہے اور یہی مٹی پھول بن جاتی ہے اور یہی مٹی پھلوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ایک قصہ سنایا تھا:
نانا تاج پوریؒ کی خدمت میں کھانے کے لئے ایک امرود پیش کیا گیا، قاش جب ہونٹوں سے لگی تو انہوں نے فرمایا:
’’یہ کسی مردے کا گوشت ہے۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے امرود کی قاش پھینک دی، حاضرین مجلس میں سے کچھ لوگوں کو تجسس ہوا کہ امرود کی قاش سے مردہ گوشت کا کیا تعلق ہے۔ دو معزز حضرات مجلس میں سے اٹھے اور فروٹ کی اس دوکان پر پہنچے جہاں سے امرود خریدے گئے تھے، دوکاندار نے سبزی منڈی میں آڑھتی کا پتہ بتایا، آڑھتی نے اس زمیندار کا پتہ بتایا جہاں سے امرود اس کے پاس آئے تھے، زمیندار نے بتایا کہ جس باغ کے یہ امرود ہیں یہاں ایک قبرستان تھا، قبرستان میں ہل چلا کر امرود کا باغ لگایا گیا ہے۔
قطار در قطار درختوں پر اور چھتری کی طرح سایہ دار درختوں اور پودوں پر سائنس نے ریسرچ کی ہے اور یہ ریسرچ اب اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ زرعی یونیورسٹیاں قائم ہو گئیں، پودے کی دو اقسام ہیں، ایک وہ جو بیج میں سے دو پتے بن کر نمودار ہوتے ہیں، دوسری قسم یہ ہے کہ اس میں سے ایک پتہ نکلتا ہے، جب پودا جڑ پکڑ لیتا ہے تو یہ پتے سوکھ جاتے ہیں، نباتات میں بھی خلئے ہوتے ہیں، ہر خلیہ کی بیرونی دیوار آکسیجن، ہائیڈروجن اور کاربن سے تیار ہوتی ہے، اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ جڑ کے آخری کنارے اور پوری جڑ پر ایک غلاف چڑھا ہوا ہوتا ہے، جڑ کی نوک میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ سخت پہاڑوں کو بھی چیر کر نکل جاتی ہے۔
ہر شئے کی بنیاد پانی ہے، پانی کے اوپر ہر تخلیق کا پورا نظام چل رہا ہے، پانی نہ ہو تو زمین بے آب و گیاہ بنجر بن جائے گی۔ پودوں، درختوں اور نباتات کی، دوسری چیزوں کی نشوونما کے لئے نمی، ہوا اور گرمی کا ہونا ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ فاسفورس، پوٹاشیم اور نائٹروجن نہ ہو تب بھی نشوونما نہیں ہو گی اور یہ سب چیزیں قدرت نے پانی میں جمع کر دی ہیں۔ جب پانی زمین میں دوڑتا ہے تو جڑیں پانی چوس کر اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں، درختوں کے ساتھ اگر پتے نہ ہوں تو انہیں درخت نہیں کہا جاتا۔ درختوں کی زیبائش ہی پتوں کے ساتھ ہے لیکن یہ پتے صرف زیبائش کا ہی کام نہیں کرتے، ان کے اوپر درخت کی زندگی کا انحصار بھی ہے، ہر پتے میں رگیں ہوتی ہیں، مسامات ہوتے ہیں، یہ مسامات کاربن کو پتوں کی رگوں میں دوڑاتے ہیں اور یہی مسامات آکسیجن کو باہر نکالتے ہیں۔
پتوں کی بھی ایک پوری دنیا ہے، پتے درخت کو زندہ بھی رکھتے ہیں اور یہی پتے اگر بیمار ہو جائیں تو درخت بھی بیمار ہو کر ختم ہو جاتا ہے۔ یہی پتے جب ز مین پر گرتے ہیں تو زمین کے اوپر نباتات کے لئے کھاد کا کام دیتے ہیں۔
انسان کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے کہ وہ اتنی بڑی زمین پر کھاد ڈال سکے اور بارش برستی ہے، بجلی کڑکتی ہے، بجلی کی کڑک سے اور بارش کی بوندوں سے کھیتوں کو بیش بہا نائٹروجن مہیا ہوتی ہے۔ دنیا میں ہر چیز ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہے، ہر چیز دوسری چیز کے لئے ایثار کر رہی ہے، ہر چیز دوسری چیز کی خدمت میں مصروف ہے، پھولوں میں رنگ و بو بھنورے اور مکھیوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔
انجیر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انجیر کے درخت میں پھول نہیں لگتا، انجیر کے اندر ایک زوجین چھوٹا سا غنچہ ہوتا ہے، ایک خاص قسم کی بھڑ نر اور مادہ غنچوں میں انڈے دے جاتی ہے، جب بچے نکلتے ہیں تو انجیر مادہ انجیر میں چلے جاتے ہیں، بعض بیلیں براہ راست زمین سے غذا حاصل نہیں کرتی بلکہ دوسرے درختوں کے رس پر پلتی ہیں اور یہ درخت رفتہ رفتہ خشک ہو جاتے ہیں، درختوں کی جڑیں کیونکہ پانی جذب کر لیتی ہیں اس لئے زمین پر دلدل نہیں بنتی، فضاء جب درختوں کے سانس سے بھر جاتی ہے تو بادل وزنی ہو کر برسنے لگتے ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا:
’’ریگستان میں اگر بے شمار بانس کھڑے کر دیئے جائیں اور ان بانسوں کو مختلف رنگوں سے رنگ دیا جائے تو قانون یہ ہے کہ ریگستان میں بارش برسے گی اور جب تک یہ بانس لگے رہیں گے تب تک بارش برستی رہے گی تا آنکہ ریگستان نخلستان اور جنگل میں تبدیل ہو جائے۔‘‘
سمندر کی اندر کی دنیا پر غور کیا جائے تو وہاں بھی یہی نظام عمل کارفرما ہے ہر چیز دوسری چیز کے کام آ رہی ہے، ہر چیز دوسری چیز کی خوراک بن رہی ہے۔ غیر حقیقی طرز گفتگو یہ ہے کہ انسان گندم کھا رہا ہے جب کہ مشاہدات یہ ہیں کہ گندم کھانے والا انسان مر جاتا ہے اور گندم باقی رہتی ہے۔ حقیقی طرز تکلم یہ ہے کہ گندم انسان کو کھا رہی ہے۔
حیوانات کی زندگی کا دارومدار آکسیجن پر ہے اور نباتات کی زندگی کا انحصار کاربن پر، اگر آکسیجن کم ہو جائے تو حیوانات ہلاک ہو جائیں گے اور کاربن کا ذخیرہ نہ رہے تو نباتات فنا ہو جائیں گے۔ کائناتی سسٹم نے کاربن کو نباتات کی آکسیجن کو حیوانات کی غذا بنا دیا ہے۔ سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ حیوانات ایک سال میں ساٹھ کروڑ ٹن کاربن سانس کے ذریعے خارج کرتے ہیں جس میں بیس کروڑ ٹن خالص کوئلہ ہوتا ہے، اسی طرح حیوانات ایک سال میں آٹھ کھرب مکعب میٹر آکسیجن استعمال کرتے ہیں۔
الحمدللہ رب اللعالمین، ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو ایسا منتظم اعلیٰ ہے جس نے عالمین کے لئے ایک مکمل نظام ربوبیت قائم کیا ہے، زمین کے اوپر موجود مخلوقات کی یہ بہت مختصر روئداد اس لئے لکھی گئی ہے کہ ہمارے اندر تفکر پیدا ہو، ہم یہ دیکھ سکیں اور سمجھ سکیں اور اس بات پر یقین کریں کہ نظام کائنات میں یہ قدر مشترک ہے کہ ہر چیز دوسری چیز سے ایک مخفی رشتے سے بندھی ہوئی ہے اور یہ مخفی رشتہ ایسا مضبوط رشتہ ہے کہ مخلوق میں سے کوئی ایک فرد بھی اس رشتے سے انکار نہیں کر سکتا اور نہ اس رشتے کو توڑ سکتا ہے۔ جب تک کوئی شئے دوسری شئے کے کام آ رہی ہے اس کا وجود ہے ورنہ پھر وہ شئے مٹ جاتی ہے۔ یہ پورا نظام ہے جو پانی کی دنیا میں، فضاء میں، خلاء میں، آسمانوں میں اور انسانوں میں جاری و ساری ہے۔
قدرت یہ بھی چاہتی ہے کہ زمین کا کوئی خطہ کوئی حصہ قدرت کے فیض سے محروم نہ رہے۔ قدرت نے اس لئے درختوں کو دور دراز زمین تک پہنچانے کے لئے وسائل بنائے ہیں، ہوا نے بیجوں کو اپنے دوش پر بٹھا کر دور دراز مقامات تک پہنچایا، نالوں، ندیوں اور دریاؤں نے بیجوں اور جڑوں کو زمین کے ہر خطے تک پہنچا دیا۔ جب کوئی قوم اس سسٹم سے تجاویز کرتی ہے اور ایثار سے خود کو محروم کر دیتی ہے تو قدرت اس کو مٹا دیتی ہے۔
’’اگر تم نے کائناتی سسٹم سے منہ پھیر لیا تو یہ زمین کسی اور کو قبضہ میں دے دی جائے گی۔‘‘
(القرآن)
جو قوم غیروں کے دسترخوان کے لقموں پر پلتی ہے، محنت اور ایثار سے کام نہیں لیتی صرف دعاؤں اور وظیفوں میں مصروف رہتی ہے اور عملی اقدام نہیں کرتی وہ خشک درخت کی طرح ہو جاتی ہے جس کا کوئی سایہ نہیں ہوتا، جس پر کوئی پھل نہیں لگتا، وہ صرف جلانے کے کام آتا ہے، اس خوبصورت زمین پر صرف وہی قومیں باقی رہتی ہیں جو مظاہر فطرت کے جاری و ساری قانون سے واقف ہوں اور حیرت انگیز تخلیق اور نظام آفرینش کا مطالعہ کرتی ہوں، ظالم اور جاہل نہ ہوں، سب سے بڑا ظلم اور جہالت یہ ہے کہ انسان کو یہ معلوم نہ ہو کہ آسمانی دنیا کا مشاہدہ کئے بغیر کوئی قوم کائناتی سسٹم سے واقف نہیں ہوتی اور اپنی ذات کا عرفان نہ ہو تو انسان اور حیوان ایک گروہ کے دو افراد ہیں۔
انسان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ زمین کے خزانوں کو استعمال کئے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی، زمین کے خزانوں کے استعمال کا عمل اور طریقہ قرآن میں تفکر اور زندگی میں ایثار کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اس کی مثال ہمارے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا یقین و ایثار ہے۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باطل عقائد کی تکذیب کی، کائنات میں تفکر اور اللہ وحدہ لا شریک کی پرستش کو اپنے لئے، اپنی اولاد کے لئے اور اپنی امت کے لئے منتخب کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’میں تجھے بنانے والا ہوں انسان کے لئے امام۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے پوچھا تو فرمایا:
’’تیری اولاد میں سے ظالم لوگ محروم ہو جائیں گے۔‘‘
(القرآن، سورۃ بقرہ)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 137 تا 142
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔