شک
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18348
آدمی زندگی کے تمام مراحل وقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں طے کرتا ہے مثلاً ایک سیکنڈ کا کوئی فریکشن ، آدمی کی زندگی خواہ سو برس کی کیوں نہ ہو لیکن وہ ان ہی لمحوں میں تقسیم ہوتی رہتی ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے ذہن میں وقت کے یہ ٹکڑے جوڑتا ہے اور ان ہی ٹکڑوں سے کام لیتا ہے انہی ٹکڑوں کے گرداب میں جن کو ہم سوچنا یا فکر کرنا کہتے ہیں، ہم یا تو ایک ٹکڑے سے آگے دوسرے ٹکڑے پر آ جاتے ہیں یا وقت کے اس ٹکڑے سے پلٹتے ہیں، اس کو اس طرح سمجھنا چاہئے کہ آدمی جب یہ سوچتا ہے کہ میں کھانا کھاؤں گا لیکن اس کے پیٹ میں گرانی ہے اس لئے وہ ارادہ ترک کر دیتا ہے کب تک وہ اس ترک پر قائم رہے گا؟ اس کے بارے میں اسے کچھ نہیں معلوم۔ بیشمار افکار ہی اس کی زندگی کے اجزائے ترکیبی ہیں جو اسے ناکام یا کامیاب بناتے ہیں، ابھی وہ ایک ارادہ کرتا ہے پھر اسے ترک کر دیتا ہے، چاہے منٹوں میں کرتا ہے، چند گھنٹوں میں ترک کرتا ہے یا مہینوں اور سالوں میں ترک کرتا ہے۔
بتانا مقصود یہ ہے کہ ترک آدمی کی زندگی کا جزو اعظم ہے کیونکہ وہ بالطبع آرام طلب واقع ہوا ہے، بہ سی باتیں ہیں جن کو آدمی دشواری، مشکل، بیماری، بیزاری، بے عملی، بے چینی وغیرہ وغیرہ کہتا ہے، ان کیفیات کے بالمقابل ایک ایسی کیفیت ہے جس کا نام وہ سکون رکھتا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کیفیتیں حقیقی ہیں۔ درحقیقت ان میں سے زیادہ تر کیفیات مفروضات پر مبنی ہیں۔ انسان کے دماغ کی ساخت ہی ایسی ہے کہ وہ ہر آسانی کی طرف دوڑتا ہے اور محنت سے جی چراتا ہے، ظاہر ہے یہ وہ سمتیں ہیں اور ان سمتوں میں آدمی ہمیشہ افکار کے ذریعہ سفر کرتا ہے، اس کی حرکت کا منبع ان سمتوں میں سے ایک سمت ہے، ہوتا یہ ہے کہ ابھی ہم نے ایک تدبیر کی پھر اس کی تنظیم کی یہاں تک کہ وہ مکمل ہو گئی اس کی سمت بھی صحیح تھی لیکن صرف دس قدم چلنے کے بعد ہمارے ذہن میں تبدیلی ہو گئی، چنانچہ ہم جس منزل کی طرف رواں دواں تھے وہ غیب میں چلی گئی، ہمارے پاس باقی کیا رہا؟ ٹٹولنا اور ٹٹول کر قدم اٹھانا، واضح رہے کہ یہ تذکرہ یقین اور شک کی درمیانی راہوں کا تھا، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ انسان کی بنیاد وہم اور یقین پر ہے، مذہب کی اصطلاح میں اس کو شک اور ایمان کہا گیا ہے، اللہ تعالیٰ دماغ میں شک کو جگہ دینے سے منع فرماتے ہیں اور ذہن میں یقین کو پختہ کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’لاریب‘‘ ہے یہ کتاب اور اس کو ہدایت دیتی ہے جس کا یقین غیب پر ہے، جس شک کو اللہ تعالیٰ نے ممنوع قرار دے دیا ہے، یہ وہی شک ہے جس سے آدم کو باز رہنے کا حکم دیا گیا تھا بالآخر شیطان نے بہکا کر یہ شک آدم کے دماغ میں ڈال دیا جس کے لئے آدم جنت سے نکالا گیا۔‘‘
اسی مقام سے آدم کے دماغ میں دو سمتوں کا تعین ہوا یعنی شک اور یقین، بیان کردہ حقیقت کی روشنی میں انسان کے دماغ کا محور یقین اور شک پر ہے۔ یہی وہ شک اور یقین ہے جو دماغی خلیوں میں ہمہ وقت عمل کرتا رہتا ہے، جس قدر شک کی زیادتی ہو گی اسی قدر خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ واقع ہو گی۔ یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ یہی وہ دماغی خلئے ہیں جن کے زیر اثر تمام اعصاب کام کرتے ہیں اور اعصاب کی تحریکات ہی انسانی زندگی ہے۔
کسی چیز پر انسان کا یقین کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا فریب کو جھٹلانا، مثال اس کی یہ ہے کہ انسان جو کچھ ہے وہ خود کو اس کے خلاف پیش کرتا ہے وہ ہمیشہ اپنی خامیاں چھپاتا ہے اور اس کی جگہ مفروضہ خوبیاں بیان کرتا ہے جو اس کے اندر موجود نہیں ہیں۔
مشکل سب سے بڑی یہ ہے کہ وہ جس معاشرے میں تربیت پا کر جوان ہوا ہے وہ معاشرہ اس کا عقیدہ بن جاتا ہے اس کا ذہن اس قابل نہیں رہتا کہ وہ اس عقیدہ کا تجزیہ کر سکے، وہ عقیدہ یقین کا درجہ حاصل کر لیتا ہے حالانکہ وہ محض فریب ہے، سب سے بڑی وجہ اس کی یہی ہے کہ :
آدمی خود کو جو ظاہر کرتا ہے ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ہے۔
اس قسم کی زندگی گزارنے میں اسے بہت مشکلات پیش آتی ہیں ایسی مشکلات جن کا حل آدمی کے پاس نہیں ہے، اس زندگی میں اسے قدم قدم پر خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا عمل تلف نہو جائے گا اور بے نتیجہ ثابت ہو گا، بعض اوقات آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی پوری زندگی تلف ہو رہی ہے، اگر تلف نہیں بھی ہو رہی تو سخت خطرہ میں ہے، یہ سب ان دماغی خلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے جن میں شک کی بنا پر تیزی سے ٹوٹ پھوٹ واقع ہو رہی ہے۔ دماغی خلیوں کی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ اور رد و بدل قدم قدم پر اس کے عملی راستوں میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے، عمل بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے اور اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے۔
آدمی کا دماغ دراصل اس کے اختیار میں ہے، وہ خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کو یقین کی طاقت سے کم اور زیادہ کر سکتا ہے، دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کی کمی سے اعصابی نقصان کے امکانات بہت ہی کم ہو جاتے ہیں۔
تاریخ میں ایسا کوئی دور نہیں آیا کہ جب آدمی چند فی ہزار سے زیادہ صحت مند رہا ہو، دراصل ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ روشنی کی قسمیں اور روشنیوں کا طرز عمل معلوم کرتا لیکن اس نے کبھی اس کی طرف توجہ نہیں دی، یہ چیز ہمیشہ پردے میں رہی، آدمی نے اس پردے میں جھانکنے کی کوشش اس لئے نہیں کی کہ یا تو اس کے سامنے روشنیوں کا پردہ ہی نہیں تھا یا اس نے روشنی کے پردے کی طرف توجہ ہی نہیں دی، اس نے وہ قاعدے معلوم کرنے کی طرف خیال ہی نہیں کیا جو روشنیوں کے خلط ملط سے تعلق رکھتے تھے۔ اگر آدمی یہ طرز عمل اختیار کرتا تو اس کے دماغ میں خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو سکتی تھی، اس حالت میں زیادہ سے زیادہ یقین کی طرف قدم اٹھاتا، فضول عقائد اور توہم میں مبتلا نہ ہوتا، شکوک اسے اتنا پریشان نہ کرتے جتنا اب کئے ہوئے ہیں اور اس کی تحریکات میں جو عملی رکاوٹیں واقع ہوتی ہیں وہ کم سے کم ہوتیں لیکن ایسا نہیں ہوا، اس نے روشنیوں کی قسمیں معلوم نہیں کیں اور نہ ہی روشنیوں کی طبیعت کا حال معلوم کرنے کی کوشش کی وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ روشنیاں بھی طبیعت اور ماہیت رکھتی ہیں اور روشنیوں میں رجحانات بھی موجود ہوتے ہیں اسے یہ بھی علم نہیں کہ روشنیاں ہی اس کی زندگی ہیں اور اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ وہ تو صرف مٹی کے پتلے سے واقف ہے اس پتلے سے جس کے اندر اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے جس کے لئے اللہ نے فرمایا کہ وہ سڑی ہوئی مٹی سے بنایا گیا ہے اور دوسری جگہ بھی ارشاد ہے کہ وہ مٹی بجنی ہے یعنی خلاء ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
’’انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی پس یہ بولتا، سنتا، سمجھتااور محسوس کرتا انسان بن گیا۔‘‘
روح کی تعریف یہ ہے کہ وہ امر رب ہے امر کی بہت مختصر تشریح ہے:
’’اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی بات کا تو کہتا ہے ’’ہوجا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
یعنی انسان روح ہے، روح امر رب ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ناواقفیت وہم اور شک کو بڑھاتی ہے نتیجہ میں ایمان اور یقین ٹوٹ جاتے ہیں۔ قرآن پاک نے قوم کو ایک فرد کی حیثیت دی ہے چنانچہ اس کے ساتھ بھی یہی عمل ہوتا ہے جو فرد کے ساتھ ہوتا ہے۔ قوم میں اگر یقین کی نسبت شک زیادہ ہو جائے تو یہ عمل دو رخ اختیار کر لیتا ہے، جب اس کا رخ عروج کی طرف ہوتا ہے تو آفات سماوی کے آنے کا احتمال ہوتا ہے اور جب نزول کی طرف ہوتا ہے تو آفات ارضی آتی ہے۔
جب آفات آسمان سے نازل ہوتی ہیں تو بکھر کر پوری قوم کے ذہن اور اعصاب کو متاثر کرتی ہیں، ان سے بچنے کی سوائے اس کے کوئی ترکیب نہیں کہ قوم کے یقین کی راہ ایک ہو، الگ الگ نہ ہو یہی انبیاء کا سبق ہے، جب قوم گروہوں میں منتشر ہوجاتی ہے اور گروہوں کا یقین مختلف ہوتا ہے تو شک زمین کی سطح پر پھیل جاتا ہے اس انتشار سے آفات ارضی حرکت میں آ جاتی ہیں اور پھیل جاتی ہیں چنانچہ سیلاب، زلزلے، وبائیں وغیرہ ظہور میں آتی ہیں، کبھی کبھی خانہ جنگی بھی ہوتی ہے جس سے قوم اور افراد کا اعصابی نظام تباہ ہو جاتا ہے جو طرح طرح کی بیماریاں پھیلنے کا موجب ہوتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 116 تا 119
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔