مخلوقات
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18344
زمین پر تین مخلوق آباد ہیں۔ دو مکلف اور ایک غیر مکلف۔ مراقبہ میں دیکھا کہ تینوں مخلوق ایک کھلی جگہ پر ہیں جس کا نہ تو کوئی سرا ہے اور نہ ہی کوئی حد ہے۔ تینوں کے خدوخال ایک جیسے ہیں، تینوں نے لباس زیب تن کیا ہوا ہے۔ ناک نقشہ ایک جیسا ہے لیکن نقوش میں نمایاں فرق ہے۔
ایک مخلوق کی ایک آنکھ مخروطی ہے، ناک چپٹی اور کھڑی ہے، چہرا کتابی یا گول ہے۔
دوسری مخلوق کی آنکھیں بادام کی طرح ہیں۔ پتلی میں گہرے رنگ کے ڈورے ہیں، ستواں ناک کی نوک غائب ہے، چہرہ بیضوی اور سر کشکول کی طرح ہے۔
تیسری مخلوق کی آنکھ سانپ کی چھتری کی طرح گول ہے، ناک گلدستہ، چہرہ نصف النہار سورج کی طرح، سر میں پیشانی سانپ کے سر کے مشابہ ہے۔
ایک مخلوق قد میں بارہ سے سولہ فٹ دراز یا اس سے بھی زیادہ۔
دوسری مخلوق عفوان شباب جوانوں کی طرح متوازن قد۔
تیسری مخلوق پانچ سے چھ فٹ کوتاہ یا دراز، جسم روشنیوں کا مرقع۔
ایک مخلوق کے جسم میں ڈبل برقی رو دوڑتی ہے۔
دوسری مخلوق کے جسم میں اکہری برقی رو دوڑتی ہے۔
تیسری مخلوق میں ایسی روشنی ہے جسے روشنی نہیں کہا جا سکتا۔
ایک مخلوق کے حواس محدود۔
دوسری مخلوق کے حواس محدودیت میں لامحدود۔
تیسری مخلوق کے حواس لامحدود۔
ایک مخلوق کے دماغ میں دس ارب خلئے چارج ہیں۔
دوسری مخلوق کے دماغ میں نوے ارب خلئے کام کرتے ہیں۔
تیسری مخلوق کے دماغ میں دس کھرب خلئے متحرک ہیں۔
ایک مخلوق ایک گھنٹے میں تین میل کی مسافت طے کرتی ہے۔
دوسری مخلوق ایک گھنٹے میں ستائیس میل چلتی ہے۔
تیسری مخلوق کی پرواز ایک سو اسی ہزار میل ہے۔
پہلی مخلوق مادیت کے خول میں بند ہے۔
دوسری مخلوق روشنی کے خول میں بند ہے۔
تیسری مخلوق روشنی کی رفتار (ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ) میں قید ہے۔
ایک مخلوق کی بساط زمین، دوسری مخلوق کی بساط خلاء، تیسری مخلوق کی بساط زمین کے اوپر خلاء کی بساط ہے۔
ایک مخلوق کو کھانے اور پینے کی اشتہا کو پورا کرنے کے لئے اربعہ عناصر کی ضرورت ہے۔
دوسری مخلوق کی اشتہا پوری ہونے میں فاسفورس کا عمل دخل ہے۔
تیسری مخلوق میں اشتہا کا تقاضا بے رنگ روشنیوں سے پورا ہوتا ہے۔
خلاء ایک تانا بانا ہے اس تانے بانے میں مخلوق نقش ہے۔ کپڑے پر پھول، قالین پر شیر کی طرح۔
خلاء کا دوسرا رخ محض تانا ہے اس پر بھی نقوش ہیں۔
خلاء کا تیسرا رخ ایسی لہروں سے مرکب ہے جس میں تانا بانا نظر نہیں آتا۔
تینوں مخلوقات میں لمس کا احساس ہے، خوش ہونے اور ناخوش ہونے کے جذبات ہیں لیکن یہ احساس کہیں بھاری اور کہیں لطیف ہے، جہاں بھاری اور بہت بھاری ہے وہاں کشش ثقل ہے۔ جہاں ہلکا ہے، وہاں کشش ثقل تو ہے لیکن خلاء کا سفر کرنے میں مزاحم نہیں ہوتی، جہاں لطافت ہے وہاں کشش ثقل Gravityختم ہو جاتی ہے۔
تینوں مخلوقات میں مشترک قدریں ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آتی ہیں۔ ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں اور ایک دوسرے سے عدم تعاون بھی ہوتا ہے۔
غرض یہ کہ تینوں مخلوقات کے افراد ایک جگہ جمع تھے۔ اسپیس میں بند ایک بندے نے خود کو ان تینوں کے سامنے پیش کیا، ایک فرد ٹھوس اور دوسرا ٹرانسپیرنٹ نظر آیا۔ تیسرا فرد اس بندے کی طرف متوجہ ہوا تو بغلوں کے نیچے جڑے ہوئے خوبصورت اور کئی رنگوں سے مزین پر کھل گئے۔ ان پروں سے رنگین روشنیاں سرچ لائٹ کی طرح نکلیں کہ فضا رنگین ہو گئی۔ قوس قزح کے رنگ ان رنگوں کے سامنے ہیچ اور دم بخود ہیں۔
اسپیس میں بند شعور کا ایک فرد تینوں افراد سے اس طرح مخاطب ہوا۔
یہ جو تخلیق کے اتنے سارے روپ ہیں، اتنے سارے رنگ اور اتنے سارے نقوش ہیں، کیوں ہیں؟ الگ الگ رفتار کے تعین میں کیا حکمت ہے؟ ان میں سے ایک نے پوچھا، دلہن کو کیوں سجایا جاتا ہے؟ اس بندے نے کہا کشش پیدا کرنے کے لئے، نامکمل روح کی تکمیل کے لئے، دنیا میں رنگینی اجاگر کرنے کے لئے۔
پوچھا۔ دلہن بوڑھی کیوں ہو جاتی ہے؟
اسپیس میں بند شعور مخلوق کے فرد نے کہا:
ماضی سے رشتہ استوار رہنے کے لئے۔ دلہن بوڑھی نہیں ہو گی تو ماضی کی طرح نئی دلہن نہیں بنے گی، ماضی کا رشتہ ہی اس ساری کائنات کی اصل ہے۔
تخلیق کے روپ بہروپ دراصل دو شیزاؤں اور دلہنوں کے روپ ہیں۔ کسی جگہ زمین پر پھول دلہن ہے، کہیں زمین پر خوبصورت درخت دلہن کا روپ ہیں۔ آسمانوں پر یہ دلہن ستاروں بھرا جھومر پیشانی پر رکھے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے۔
کائناتی سسٹم میں مخلوق جب تک دلہن کے روپ میں رہتی ہے، خوش رہتی ہے۔ ہر فرد اپنے اندر پھول کھلتے دیکھتا ہے، فوارے سے ابلتے نظر آتے ہیں، آبشاریں اندر گرتی ہیں، آبشاروں کے مدہم اور سریلے گیت اسے لطیف حس سے مانوس کر دیتے ہیں۔
تینوں مخلوقات میں ہر مخلوق کے اندر لطیف حس موجود ہے، فرق درجہ بندی کا ہے۔
ایک مخلوق کے اوپر کثافت کا پردہ زیادہ ہے۔
دوسری مخلوق پر کثافت کا پردہ یا خول کم ہے۔
تیسری مخلوق پر کثافت کا پردہ نہیں ہے۔
دونوں مخلوقات تیسری مخلوق کی طرح کثافت کے پردے اور تاریکی کے خول سے خود کو آزاد کر دیں تو وہ اپنے اندر گرتی آبشاروں کو دیکھ لیتی ہے۔ اور یہ آبشاریں خود کو نورکے بہتے دریا کے سپرد کر دیتی ہیں۔
نور کا بہتا دریا کیا ہے؟
وہ خول ہے جو ساری کائنات کی بساط ہے۔
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس نور کی مثال ایسی ہے جیسے اوطاق میں چراغ، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے۔ قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے۔ نہ شرقی ہے نہ غربی ہے قریب ہے کہ روشن ہو جائے اگرچہ آگ نے اسے نہ چھوا ہو، نور اعلیٰ نور ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور کو دکھا دیتا ہے۔ اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 112 تا 115
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔