اولیاء اللہ کی طرز فکر
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18324
ایک روز حضرت رابعہ بصریؒ نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا۔ اے اللہ!اگر میں تیری عبادت دوزخ کے خوف سے کرتی ہوں تو مجھے اس میں جھونک دے اور اگر میں تیرے حضور جنت کی لالچ میں سجدہ کرتی ہوں تو مجھے اس جنت سے محروم کر دے اور اگر میں صرف تیری ذات کے لئے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے اپنے دیدار سے نواز دے۔
زاہد و عابد دوزخ سے نجات اور جنت کی ابدی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے عبادتیں کرتے ہیں، عبادت روحانی لوگ بھی کرتے ہیں اور ہمہ وقت اللہ کی طرف متوجہ رہتے ہیں لیکن ان کے پیش نظر خوف، طمع، لالچ یا جنت مقصد نہیں ہوتا وہ صرف اس لئے اللہ کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد اللہ کے علاوہ دوسرا نہیں ہوتا۔
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں:
’’روحانیت یہ ہے کہ اللہ بندے کو اس کی اپنی ذات سے فنا کر دے اور اپنی ذات کے ساتھ زندہ رکھے۔‘‘
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
’’اس منزل کا راستہ یہ ہے کہ پہلے مجاہدہ کرے، بری عادتوں سے خود کو آزاد کرے تمام تعلقات سے آزاد ہو کر پوری طرح اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے جب یہ سعادت حاصل ہو جاتی ہے تو اللہ اپنے بندے کے دل کا نگہبان بن جاتا ہے اور علم کے انوار سے بندے کے دل کو منور کر دیتا ہے۔‘‘
روحانی علوم اور روحانی واردات پر ایک طبقہ یہ اعتراض کرتا ہے کہ تصوف کا اسلام میں کوئی عمل دخل نہیں ہے اسے اسلام میں زبردستی داخل کر دیا گیا ہے۔ ایک اور طبقہ یہ کہتا ہے کہ تصوف یا روحانی مکتبہ فکر افیون ہے۔ ان علوم کو سیکھ کر آدمی مفلوج ہو جاتا ہے اور دنیاوی نعمتوں سے اس لئے فرار حاصل کرتا ہے کہ وہ دنیا میں موجود تلخ حقیقتوں سے دوچار ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جو ہزار سال سے زیادہ بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ سے وجہ اختلاف بنی ہوئی ہے، کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تصوف یا روحانی مکتبہ فکر بدھ مت سے ماخوذ ہے۔ روحانی لوگوں کا دنیا سے قطع تعلق درحقیقت گوتم بدھ کی تقلید ہے، بدھا صاحب نے تخت و تاج چھوڑ کر فکر و فاقہ کی زندگی اختیار کر لی تھی۔ اسی طرح مسلمان صوفیا نے بھی دنیاوی لذتوں، آسائشوں اور راحت و آرام کو ترک کر کے جنگلوں اور غاروں میں بسیرا کیا، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بے عملی کی سنہری زنجیروں میں وہ لوگ خود کو گرفتار کر لیتے ہیں جو بے ہمت ہوتے ہیں اور جن کی زندگی میں مصائب و آلام کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہوتی، بہرحال یہ ایک بحث ہے جو اییک سو پچاس ہجری سے جاری ہے، جو صاحب سب سے پہلے صوفی کے نام سے متعارف ہوئے وہ عبوالہاشم الکوفی تھے جن کی وفات ایک سو پچاس ہجری میں ہوئی تھی، کہنے والوں نے بہت کچھ کہا اور سننے والوں نے ان معترضین کے اٹھائے ہوئے سوالات کے جوابات بھی دیئے اور اس طرح روحانیت یا تصوف ایک خیالی مسئلہ بن کر رہ گیا، لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہر زمانے میں اہل روحانیت لوگ موجود رہے اور انہوں نے ان علوم کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ اپنے شاگردوں میں یہ علوم کبھی کبھی تحریر کے ذریعے، کبھی مکتوبات کے ذریعہ اور کبھی کتابوں کے ذریعہ منتقل کئے۔
کسی بھی مذہب کے عنوان سے جب تاریخ پر نظر جاتی ہے تو وہاں یہ بڑا عجیب ’’راز‘‘ سامنے آتا ہے کہ عقیدہ توحید اور عقیدہ رسالت کو عام کرنے میں انہی صوفیاء حضرات کا عمل دخل ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب چنگیز خانی طوفان نے دنیائے اسلام کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا، شہر ویران ہو گئے تھے، لوگوں کو قتل کر کے ان کے سروں کے مینار بنا دیئے گئے تھے، بغداد کی آٹھ لاکھ آبادی میں سے چار لاکھ قتل و غارتگری کی بھینٹ چڑھ گئے تھے، علم و حکمت اور ہر قسم کے علوم کی کتابوں کا ذخیرہ آگ کی بھٹیوں میں جھونک دیا گیا تھا، علماء فضلاء اور دانشور اسلام کے مستقبل سے مایوس ہو گئے تھے۔ اس وقت اس سرکش طوفان کا رخ انہی لوگوں (گروہ صوفیاء) نے موڑ دیا تھا۔ طوفانوں کا مقابلہ کر کے ان لوگوں نے اسلام دشمن لوگوں کو اس طرح تربیت کی کہ اسلام کے دشمن شمع اسلام کے لئے پروانہ بن گئے تھے۔ انہی صوفیاء کے گروہ کے ایک آدمی نے ظلم و جبر، بے حیائی، قتل و غارتگری، بدنیتی کی فضاء کو بدل دیا تھا۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے والے لوگ جانتے ہیں کہ ایک بزرگ جو سلسلہ عالیہ قادریہ کے درخشاں ستارے تھے، ہلاکو خان کے بیٹے تگودار خان کو دعوت اسلام دینے کیلئے تشریف لے گئے، تگودار خان شکار سے واپس آ رہا تھا۔ اپنے محل کے دروازے پر ایک درویش کو دیکھ کر اس نے ازراہ تمسخر پوچھا:
’’اے درویش تمہاری داڑھی کے بال اچھے ہیں یا میرے کتے کی دم؟‘‘
اس بیہودہ طنزیہ اور ذلت آمیز سوال پر درویش برہم نہیں ہوئے، شگفتہ چہرے کے ساتھ نہایت تحمل سے فرمایا:
’’اگر میں اپنی جان نثاری اور وفاداری سے اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کر لوں تو میری داڑھی کے بال اچھے ہیں ورنہ آپ کے کتے کی دم اچھی ہے جو آپ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور آپ کے لئے شکار کی خدمت انجام دیتا ہے۔‘‘
تگودار خان اس غیر متوقع اور انا کی گرفت سے آزاد جواب سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے درویش کو اپنا مہمان بنا لیا۔ درویش کے حلم و بردباری اور اخلاق سے اس نے درپردہ اسلام قبول کر لیا لیکن اپنی قوم کی مخالفت کے خوف سے تگودار خان نے درویش کو رخصت کر دیا۔ چنانچہ وہ وطن واپس آ گئے، کچھ عرصہ بعد آپ کا انتقال ہو گیا۔ وفات سے پہلے درویش نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ وہ تگودار خان کے پاس جائے اور اس کو اپنا وعدہ یاد دلائے۔ صاحب زادے تگودار خان کے پاس پہنچے اور اپنے آنے کی غایت بیان کی۔
تگودار خان نے کہا تمام سردار اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہیں لیکن فلاں سردار تیار نہیں ہے۔ اگر وہ بھی صراط مستقیم پر آ جائے تو یہ مشکل آسان ہو جائے گی۔
صاحب زادے نے جب اس سردار سے گفتگو کی تو اس نے کہا:
’’میری ساری عمر میدان جنگ میں گزری ہے۔ میں علمی دلائل کو نہیں سمجھتا۔ میرا مطالبہ ہے کہ آپ میرے پہلوان سے مقابلہ کریں اگر آپ نے اسے بچھاڑ دیا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔‘‘
صاحب زادے صاحب نہایت لاغر، دبلے اور جسمانی لحاظ سے کمزور تھے۔ تگودار خان نے اس مطالبہ کو مسترد کرنا چاہا لیکن صاحب زادے نے سردار کا چیلنج منظور کر لیا۔ مقابلے کے لئے جگہ اور تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ مقررہ دن مخلوق کا اژدھام یہ عجیب و غریب دنگل دیکھنے کے لئے جمع ہو گیا۔ ایک طرف نحیف و کمزور ہڈیوں کا ڈھانچہ لاغر جسم تھا اور دوسری طرف گرانڈیل نوجوان اور فیل تن پہلوان تھا۔ تگودار خان نے کوشش کی کہ یہ مقابلہ نہ ہو لیکن درویش مقابلہ کرنے کے لئے مصر رہا اور جب دونوں پہلوان اکھاڑے میں آئے تو صاحب زادے نے اپنے حریف کو زور سے طمانچہ مارا اور وہ پہلوان اس تھپڑ کر برداشت نہ کر سکا اس کا سر پھٹ گیا، خون کا ایک فوارہ ابلا اور پہلوان غش کھا کر زمین پر گر گیا۔ سردار حسب وعدہ میدان میں نکل آیا۔ اس نے صاحب زادے کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔
تگودار خان نے بھی اپنے ایمان کا اعلان کر کے اپنا نام احمد رکھا۔ ہلاکو خان کا چچا زاد بھائی بھی شیخ شمس الدین باخوریؒ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا۔
قسطنطنیہ کی فتح تاریخ اسلام کا ایک لافانی باب ہے۔ حضرت شمس الدین سلطان محمد کے مرشد کریم تھے۔ انہی کی ترغیب اور بشارت سے سلطان محمد نے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ تاریخ کے صفحات جتنے زیادہ پلٹیئے اہل تصوف اور روحانی لوگوں کا ایک قافلہ ہے جو دین اسلام کو نہ صرف پھیلانے میں نظر آتا ہے بلکہ اللہ نے ان فقراء کو کامیابی اور کامرانی سے نوازا ہے۔
حضرت معین الدین چشتیؒ ، خواجہ غریب نوازؒ بھی اسی کارواں کے ایک ممتاز فرد ہیں جن کے دم قدم سے ہندوستان میں اسلام پھیلا۔ حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نوازؒ نے روحانی قافلہ کے ایک ممتاز سردار ابو الحسن علی ہجویریؒ کے مزار پر انوار پر ۴۰ دن عبادت کی۔ حضرت علی ہجویریؒ نے حضرت سلطان الہندؒ پر لطف و عنایت، اسرار و رموز کی جو بارش کی اس کا علم تو حضرت غریب نواز ہی کو ہو سکتا ہے لیکن جب آپ آستانہ عالیہ سے رخصت ہوئے تو بے ساختہ فرمایا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں راہنما
حضرت علی ہجویریؒ ایک بلند پایہ عالم، بالغ نظر محقق تھے۔ آپ کا باطن نور عرفاں سے جگمگ کرتا ہے۔ آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں۔
۱۔ اشعار کا مجموعہ ۲۔کتاب فنا و بقاء ۳۔ اسرار الخلق و المؤنات ۴۔ کتاب البیان لاہل العیان
۵۔ بحر القلوب ۶۔ السر عاتیہ الحقوق اللہ ۷۔ منہاج الدین ۸۔ شرح کلام منصور الحلاج
حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنی زندگی میں وعظ و نصیحت، تحریروں اور کتابوں سے اسلام کی بھرپور خدمت سر انجام دی اور یہ خدمت نو سو پچاس سال سے جاری ہے۔ ۹۵۰ سال گزر گئے آپؒ کا تصرف لوگوں کے قلب پر نقش ہے۔ نقش ہوتا رہا اور نقش ہوتا رہے گا۔ نوع انسانی پر عموماً اور امت مسلمہ پر خصوصاً حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کا جو فیض عام ہے وہ اللہ کی ایسی سنت ہے جس میں نہ تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل ہوتا ہے۔ اس عرصے میں بے شمار لوگوں نے حضرت داتا گنج بخشؒ سے روحانی فیض حاصل کر کے اکتساب علم کیا۔ الحمدللہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کو بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ یہ سلسلہ بھی حضرت داتا گنج بخشؒ کے فیض سے مالا مال ہے۔
ہم کھلی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ دور مادیت کا دور ہے، مادی لذتوں اور جاہ و منصب کے حصول کے لئے انسان مادر پدر آزاد ہو کر اخلاقی قدروں کو پھلانگ چکا ہے۔ دل، دنیا کی طمع، حرص، بغض و حسد سے سیاہ ہو گیا ہے۔ انسان انسان کا دشمن بن گیا ہے۔ ترقی کی تعریف اب یہ ہے:
’’کہ کون آدمی کون سا ایسا ہتھیار بنا سکتا ہے جو کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ختم کر دے۔‘‘
ترقی کی چکا چوند نے آدمی کو عارضی آرام و آسائش تو مہیا کر دی ہے لیکن اس ترقی کے پیچھے نوع انسانی کو ایسی بیماریوں نے گھیر لیا ہے جس کا علاج بھی ہمارے پاس نہیں ہے اور اگر علاج ہے بھی تو وہ ایک مخصوص طبقہ (سرمایہ داروں) کے لئے ہے۔ اس لئے کہ کوئی غریب آدمی دل کی پیوند کاری پر چھ سات لاکھ روپے خرچ نہیں کر سکتااعلیٰ ہذالقیاس۔
آرام و آسائش کی مادی دوڑ نے نوع انسانی کو نہ صرف ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اس آسائش و آرام کی دنیا میں انسان محروم زندگی بسر کرے بلکہ یہ حقیقت اظہر من شمس ہے کہ اگر ہم اولیاء اللہ کی طرز فکر پر قائم رہ کر زندگی گزاریں تو دنیا کا ہر کام ہر آسائش ہمارے لئے نعمت بن جائے گی۔ زندگی کا مقصد وہ چیز ہے جو انسان کے ساتھ ہمہ وقت رہے۔ مادی دنیا نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیا اس لئے مادی دنیا کو بھرپور استعمال کرنا تو چاہئے لیکن اس کو زندگی کا مقصد قرار نہیں دینا چاہئے۔
حضرت داتا گنج بخش ہجویریؒ اپنی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’فقیر تہی دست کو نہیں کہتے جس کے پاس متاع اور زاد راہ نہ ہو۔ فقیر وہ ہے جس کا دل خواہشات سے مغلوب نہ ہو۔ فقیر کی صفت یہ ہے کہ کچھ نہ ہو تو شکوہ نہ کرے اور جب موجود ہو تو خوب خرچ کرے۔ جب کچھ نہ ہو تو صبر کرے اور جب کچھ ہو تو دوسروں کو خود سے زیادہ مستحق سمجھ کر ان پر خرچ کرے۔‘‘
سورج اور چاند کا ملاپ توحید کا اتحاد ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ توحید خداوند کے نور کے سامنے چاند اور سورج کی روشنی بے کار ہے اور دونوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا مگر دنیا میں چاند اور سورج سے روشن کوئی چیز نہیں ہے۔ آنکھ آفتاب اور مہتاب کے جلوہ کی متحمل نہیں ہے۔ جب آفتاب و مہتاب اوجِ کمال پر ہوں تو آنکھ آسمان پر دیکھتی ہے تو دل نور معرفت، توحید و محبت کے ذریعہ عرش پر دیکھتا ہے اور دوسرے عالم کے کوائف سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ تمام مشائخ اس پر متفق ہیں کہ جب بندہ مقامات کی قید سے رہائی حاصل کر لیتا ہے اور احوال کی کثافتوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور تغیر و تبدل کی بنیاد سے بے نیاز ہو جاتا ہے (بے نیاز ہو جانے کا مطلب ترک نہیں ہے) اور تمام پسندیدہ احوال کے ساتھ مصروف ہو جاتا ہے اور وہ جملہ اوصاف سے جدا ہو جاتا ہے یعنی اپنی کسی پسندیدہ صفت پر نظر رکھ کر اس کے ہاتھوں قید نہیں ہوتا اور اس پر مغرور نہیں ہوتا کہ حال ادراک کی گرفت سے باہر ہو جاتا ہے اور اس کا وقت وسوسوں کے تصرف سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 93 تا 98
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔