اسوۂ حسنہ
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18320
یہ دنیا سترہ بار تباہ ہو کر دوبارہ آباد ہوئی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ سمندر کے نیچے کی زمین اوپر آ جاتی ہے اور شہروں میں بسی ہوئی آباد زمین سمندر کے نیچے چلی جاتی ہے۔ سترہ یا اٹھارہ بار یہ زمین زیر سمندر جا چکی ہے یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا، ابھی جاری ہے۔
پہلی مرتبہ جب زمین تہہ آب گئی تو انسانی آبادی تھی نہ چوپائے تھے، نہ پرندے تھے۔ کچھ بھی نہیں رہا تھا۔ قدرت نے چاہا کہ بے آباد زمین آباد ہو تو آدم و حوا زمین پر اترے۔ یوں بھی کہا جاتا ہے کہ زمین میں سے مخلوق اگ آئیں جیسے برسات میں گھاس پھونس اگ آتی ہے اور خوبصورت سرخ مخملی بیر بہوٹی زمین پر رینگنے لگتی ہے۔ آدم کی اولاد جیسے جیسے بڑھی بستیاں وجود میں آئیں اور پورے پورے شہر زمین کے ماتھے کا جھومر بن گئے۔
آدم کا شعور بہت کم تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ گوشت کا شوربہ اور روٹی کیا ہے؟ اسے آسائش و آرام کے لئے روٹی اور فوم کے گدوں اور گداز قالین کا بھی کوئی علم نہیں تھا۔ قانون قدرت کے تحت آدم کی نسل دو چار، چار سے آٹھ اور اسی طرح جب ہزاروں سے تجاوز کر کے لاکھوں تک پہنچی تو شعور بھی لاکھوں گنا ہو گیا۔ شعور کی طاقت میں اضافہ ہوا تو آدم کے بچوں نے جڑیں، ناپختہ پھل اور کچا گوشت کھانے میں کراہیت محسوس کی، ہاضمے کے اوپر زیادہ بار پڑا اور پیٹ درد کی شکایت عام ہو گئی تو شعور نے آدم کی رہنمائی کی۔ گوشت پکا کر کھانا چاہئے، گندم پیس کر آٹے کی روٹی بنانی چاہئے۔ شعور برابر آدم کی رہنمائی کرتا رہا۔ قانون ہے کہ جب شعور ایک ہو یا ہزار ہوں کسی نقطے پر مرکوز ہو جائیں تو قدرت نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ اس کا مظاہرہ ہو گا۔ اجتماعی شعور نے قدرت کے سسٹم میں ہلچل مچا دی لاکھوں آدمیوں میں سے ایک نے غیر اختیاری طور پر دو پتھر اٹھائے ان کو آپس میں ٹکرایا، ٹکرانے سے حرارت پیدا ہوئی تو پتھروں میں سے چنگاری نکلی۔ چنگاری کی چمک نے شعور کو اس طرف متوجہ کیا کہ چنگاری سوکھی گھاس کو جلا ڈالے گی اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ بھڑک اٹھی۔
زمین پر انسان کا یہ پہلا دن تھا جب انسان حیوانات سے ممتاز ہوا اور اس نے اس ایجاد سے اپنے لئے کھانے پکانے شروع کئے۔ حیوانات سے ممتاز ہونے کے بعد انسان کے ذہن میں نئے نئے خیالات نے جنم لیا اور ہر خیال اس کے لئے ایک ایجاد بن گیا۔ آدمؑ اور حوا کے آنے سے پہلے بھی زمین موجود تھی۔ زمین کے اصل وارث دو مخلوق ہیں۔ ۱۔جنات۔۔۔۔۔۔۲۔انسان
جنات نے جب زمین پر خون خرابہ کیا اور زمین کی کوکھ اجاڑنے کی ہر تدبیر پر عمل کیا تو قدرت نے زمین کو فسادزدہ قرار دے دیا اور جنات سے زمین کی سرداری چھین لی۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ آدم زاد نے وہی کیا جو جنات برسوں سے کرتے چلے آ رہے تھے اور جس کی وجہ سے ان سے سرداری چھین لی گئی تھی۔ بھائی نے بھائی کو قتل کر دیا اور سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔
حضرت آدمؑ نے زندہ رہنے کے لئے جو قوانین بنائے قوم نے انہیں مسترد کر دیا۔ آدمؑ کو گزرے جب ۱۶۴۲ سال گزر گئے اس وقت نوحؑ پیدا ہوئے۔ ساری نوع انسانی اس وقت بت پرستی میں لگ گئی تھی۔ حضرت نوحؑ ۹۵۰ برس تک توحید کی تبلیغ کرتے رہے، قرآن میں ان کی تعریف ’’عبدالشکور‘‘ کہہ کر کی گئی ہے۔ پانی کے ہر گھونٹ اور ہر لقمے پر الحمدللہ کہتے تھے۔ نو سو پچاس برسوں تک تبلیغ کرنے پر اسی(۸۰)
مرد اور عورتیں ایمان لائے باقی قوم نے ان کی نصیحت پر عمل نہیں کیا۔ اس پاداش میں قوم پر عذاب نازل ہوا۔ زمین کو فساد سے پاک کرنے کے لئے آسمان سے اتنا پانی برسا کہ زمین اور سمندر ایک ہو گیا۔ گاؤں، گوٹھ، قصبے، شہر ڈوب گئے سمندر نے زمین کو نگل لیا۔ پوری قوم غرق آب ہو گئی بیٹا بھی ہلاک ہو گیا۔ اسی مرد اور عورتیں جو ایمان لائے تھے عذاب الٰہی سے بچ گئے۔ زمین چھ مہینے تک پانی میں ڈوبی رہی، طوفان ختم ہونے پر کشتی جو دی پہاڑی پر ٹھہری۔ ایمان لانے والے سلامتی کے ساتھ کشتی سے اترے لیکن ان کی نسل نہ چل سکی۔ نوحؑ کے تین بیٹے ’’حام‘‘ ’’سام‘‘ اور ’’یافث‘‘ جو کشتی میں سوار تھے۔
ان سے آدم کی نسل کا دوبارہ آغاز ہوا۔ حام چھوٹے بیٹے تھے، سام منجھلے اور یافت بڑے بیٹے تھے، آج کی دنیا میں جہاں بھی جس رنگ کی بھی جو نسل آباد ہے وہ ان ہی تین بھائیوں کی اولاد ہے۔ نوحؑ نے چودہ سو سال کی عمر میں وفات پائی۔
قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ کا ذکر ۷۱ بار آیا۔ ابراہیمؑ سریانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مہربان باپ کے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آدمؑ کے تین ہزار تین سو سال کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کا باپ بت تراش تھا، باپ نے بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔ ابراہیمؑ کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا اور وہ ہر آزمائش میں پورے اترے اور ثابت قدم رہے۔ آدمؑ کے بعد انہوں نے کعبہ شریف بنایا جس پتھر پر کھڑے ہو کر کعبہ کی بنیاد کو اٹھایا وہ پتھر ابھی تک موجود ہے جس کو مقام ابراہیم کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کی عمر ۱۷۵ سال کی تھی جب حضرت ابراہیمؑ کی عمر ۸۶ برس کی ہوئی تو حضرت اسمٰعیلؑ پیدا ہوئے۔ اسمٰعیلؑ ایک سو برس کے تھے کہ فرشتوں نے بشارت دی اور حضرت اسحٰقؑ پیدا ہوئے ان کا نام قرآن کریم میں سترہ جگہ ہے، ان کی ایک سو اسی برس عمر ہوئی۔
حضرت عیسیٰ ؑ کا نام قرآن میں ۳۶ جگہ آیا ہے ان کی والدہ حضرت مریمؑ کا نام قرآن میں ۳۴ جگہ آیا ہے۔ انجیل آسمانی کتاب ان پر نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے زمین کے چپے چپے پر ہادی اور پیغمبر بھیجے جن کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے جبکہ قرآن کریم میں ۲۵ پیغمبروں کا ذکر آیا ہے۔
نوٹ: (پیغمبران کی عمروں کا تعین روایات کے تحت کیا گیا ہے)
باعث تخلیق کائنات، تاجدار عالم، سید مرسلین خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کا نام انجیل میں ’’فارقلیط‘‘ بیان ہوا ہے جس کا ترجمہ احمد ہے۔ ہر آسمانی کتاب میں ان کی آمد کی اطلاع دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک نجات دہندہ آئے گا۔ آپﷺ کل بنی آدم و جنات کے لئے قیامت تک رحمت العالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپﷺ کو جو شریعت دی گئی وہ قیامت تک مکمل قانون ہے۔
حضورﷺ زیادہ تر خاموش رہتے تھے، بیماروں کی عیادت کرتے، جنازے کے ساتھ جاتے، اپنے گھر کا کام کاج خود کرتے، مکہ مکرمہ میں چالیس سال کے بعد جب آپﷺ نے نبوت کا اعلان فرمایا تو اہل مکہ کو دعوت توحید سخت ناگوار گزری۔ حضورﷺ نے جس قدر تکلیفیں اٹھائیں اور جس قدر انہیں صدمے پہنچے وہ بیان سے باہر ہیں۔ جب تکالیف و مصائب کی انتہا ہو گئی تو آپﷺ نے اللہ کے حکم سے ہجرت فرمائی اور اپنے عزیز و اقارب، گھر بار، مال و متاع کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کی۔ جس وقت آپﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ مکہ سے مدینے ہجرت فرمائی اس وقت آپﷺ کی عمر ۵۳ برس تھی۔ اللہ نے اپنے محبوب کو بڑے بڑے معجزے عطا فرمائے، شق القمر کا معجزہ، معجزہ شق القمر تمام معجزوں سے بڑا معجزہ ہے۔ اللہ نے اپنے آپ کو رب العالمین فرمایا ہے اور رسول اللہﷺ کو رحمت اللعالمین بنا کر کائنات سے متعارف کرایا ہے۔
نوع کے افضل بندے حضرت محمدﷺ کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا اور خود سے اتنا قریب کر لیا کہ دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم اللہ نے اپنے بندے سے راز و نیاز میں کہا اور فرمایا:
’’ہم نے اپنے محبوب بندے سے راز و نیاز کی باتیں کیں اور ہمارے بندے نے جو دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔‘‘
سیدناﷺ نے نہایت مشقت، مصائب اور پریشانی برداشت کر کے اپنی امت کو پروگرام عطا کیا وہ خالص توحید ہے۔ حضور پاکﷺ کا ارشاد ہے:
* جو تم اپنے لئے چاہو وہ اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرو۔
* علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
* جہاں تم چار ہو وہاں پانچواں اللہ ہے۔
* اللہ تمہاری رگ جاں سے زیادہ قریب ہے۔
* اللہ ہر شئے پر محیط ہے۔
* کافر کو برا نہ کہو۔
* دوسرے مذاہب کے علماء کا احترام کرو، انہیں برا نہ کہو ورنہ وہ بھی تمہارے علماء کو برا کہیں گے۔
رسول اللہﷺ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف اور درگزر فرما دیتے تھے۔ اللہ کی کتاب قرآن کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
’’آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
سن ۱۱ ہجری ماہ صفر کے آخری دنوں میں آپﷺ بیمار ہو گئے بخار کی شدت سے جسم میں ناتوانی اتنی زیادہ ہو گئی کہ باہر نکلنے کی طاقت نہ رہی اور قریباً چار روز بیمار رہ کر پیغمبر آخر زماں اللہ کے محبوب حضرت محمدﷺ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری بروز پیر بوقت چاشت رحمت العالمین کے تمام اوصاف حمیدہ کے ساتھ اپنے دوست اللہ رب العالمین کے حضور تشریف لے گئے۔
(انا للہ و انا الیہ راجعون)
حضوری کے وقت آپ کی عمر ۶۳ برس اور پانچ دن تھی۔ اس وقت امت مسلمہ کا جو حال ہے وہ یہ ہے کہ سابقہ امتوں کے جن اعمال و کردار کی وجہ سے عذاب الٰہی نازل ہوا وہ سب کے سب امت مسلمہ میں مشترکہ طور پر موجود ہیں۔ جس طرح دوسری امتوں نے اپنے پیغمبروں سے اور اپنے پیغمبروں کی تعلیمات سے روگردانی کی اور برائیوں پر اصرار کیا تھا مسلمان قوم بھی ایسے ہی کردار میں مبتلا ہے۔ جھوٹ عام ہو گیا ہے، کم تولنا، ملاوٹ، بلیک مارکیٹنگ، نفرت، حسد، قتل و غارت گری زندگی میں اس طرح سرایت کر گئی ہے کہ اب اس سے راست کاری کی بھی کوئی صورت نظر نہیں ہوتی۔ ایک کلمہ گو دوسرے مسلمان کو نہ صرف کافر کہتا ہے بلکہ اس کے قتل سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ہر شخص مایہ جال میں گرفتار ہونے کو خوش قسمتی سمجھنے لگا ہے۔ موت کے بعد کی زندگی بے وقعت ہو گئی ہے۔ احساس گناہ ختم ہو گیا ہے اللہ نے سود کو اپنے ساتھ دشمنی قرار دیا ہے گویا کہ قرآن کہتا ہے کہ:
’’جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے لئے خرچ نہیں کرتے ان لوگوں کے لئے عذاب علیم کی بشارت ہے۔‘‘
مگر حال یہ ہے کہ ہمارے علماء، دانشور اور مشائخ اس سلسلے میں کوئی مثبت جدوجہد نہیں کرتے۔ اللہ کا قانون اٹل ہے، تمام حجت کی تکمیل ہونے کے بعد لازماً قانون قدرت حرکت میں آتا ہے۔ بے شک ہمارے نبی رحمت اللعالمین ہیں مگر اللہ کا قانون بھی جاری و ساری ہے۔ اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو قوم خود اپنی اصلاح کے لئے جدوجہد نہیں کرتی۔ اگر ہم رحمت اللعالمین کی رحمت کے سہارے آپس میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ ان برائیوں کو جن برائیوں سے دوسری امت عذاب الٰہی سے ہلاک ہو چکی ہیں، چھوڑ دیں تفرقہ سے باز آ جائیں تو عذاب الٰہی سے بچ سکتے ہیں۔
خاتم النبیین دو جگ کے تاجدار حضور پاکﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنے اوپر محیط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حضور پاکﷺ نے جس طرح زندگی گزاری ہے ہم بھی اس کا عملی مظاہرہ کریں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 88 تا 92
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔