زمین کی پکار
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18286
اللہ کی کتاب جو اللہ کے محبوبﷺ پر نازل ہوئی جس میں ’’لاریب‘‘ شک نہیں۔ جو کتاب روشن دلیلوں کے ساتھ ہدایت ہے متقی لوگوں کے لئے جس کتاب کا ہر ہر لفظ نور ہے۔ ایسا نور جو انسانوں اور خالق کے درمیان تعلق قائم کرتا ہے ایسا نور جو مخلوق کے لئے سماعت اور بصارت بن جاتا ہے۔ یہی نور ہے جو زمین کو بچھائے ہوئے ہے اور یہی نور ہے جس نے آسمانوں کو رفعت بخشی ہے۔ نور علیٰ نور ہدایت عطا کرتا ہے جسے اللہ چاہے نور کے جامہ میں ملبوس قرآن کریم کی آیت:
’’عقل والے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کرتے ہیں۔‘‘
میں نے تفکر کیا تو ایک شعور سے اس پار لاشعور میں جھماکہ ہوا غنود کے دروازے سے نکل کر لاشعوری حواس میں پہنچا تو لاشعوری طلسماتی دنیا میں زماں و مکاں کی قید سے آزاد انسانوں کو چلتے پھرتے دیکھا۔ مرغزاروں میں طیور دیکھے، مہوش ایسی صورتیں نظر آئیں جن کے سراپا بلور کے قندیل تھے۔ شیشے کے جاروں میں بند قطار اندر قطار سرو اور درختوں کو ترانے گاتے سنا۔ چٹکتی کلیوں اور مہکتے پھولوں کو غزل سرا دیکھا۔ ذہن میں ایک دریچہ کھلا لاشعوری دنیا سے پرے بھی ایک ایک عالم بالکل اسی طرح موجود ہے جیسے میری زمین اور میری زمین کے باسی۔ میں اوپر سے نیچے پلٹ آیا کہ جب سب کچھ زمین ہی ہے تو میں زمین کے اوپر کیوں تفکر نہ کروں۔ زمین کے اندر اس کا کھوج کیوں نہ لگاؤں۔ میں نے اپنی ماتا دھرتی سے پوچھا، اے ماں! تو کیا ہے زمین بولی میں کیا نہیں ہوں۔ میں چٹکتی کلی کا حسن ہوں، شاخوں اور پتوں کا نکھار ہوں، پھول کی مہک ہوں، بلبل کی آواز ہوں، چڑیوں کی چہکار ہوں، کوئل کی کوک ہوں، کبوتر کی غٹرغوں ہوں، پھلوں کی مٹھاس ہوں، کلیوں، پھولوں، پھلوں کا رنگ ہوں اور درختوں کی آن بان ہوں۔ زمین بولی میں اگر پھول کے بیج کو اپنے شکم میں نشوونما نہ دوں تو پھر میں خوشبو کہاں سے آئے گی۔ میں پھلوں کو اپنے رحم میں پروان نہ چڑھاؤں اور ان کے اندر مٹھاس منتقل نہ کروں تو پھل میٹھے کیسے ہونگے۔
میں تیری ماں، زمین تیرے لئے پانی کے چشمے نہ ابال دوں تو پہاڑوں سے آبشاریں نہیں گریں گی۔ یہ جو تو موٹر کار میں،ہوائی جہاز میں، دیوہیکل مشینوں میں تیل اور پیٹرول پھونکتا ہے یہ میری شریانوں سے نکلا ہوا میرا خون ہے۔ میں تیری ماں زمین اگر دل سخت کر لوں اور اپنا جسم اکڑالوں تو میرے اوپر کوئی گھر نہیں بن سکتا۔ میں تجھے زندگی دیتی ہوں تو جب میرے اوپر تکبر کی تصویر بن کر ٹھوکروں میں روندتا ہے میں جب بھی تیرے پیر نہیں پکڑتی اور جب تو میرے جسم میں اپنے نوکیلے ہتھیاروں سے گھاؤ ڈال کر میرے وجود میں بیج ڈالتا ہے تو میں تیری ماں اسے ضائع نہیں کرتی۔ یہ میری اولاد کو زندگی دیتے ہیں۔ مگر اے میری اولاد! کیا تو نے سوچا ہے کہ تو نے مجھے کیا دیا ہے تو نے میرے احسانات اور خدمت کا کیا بدلہ چکایا ہے۔ زمین پر بسنے والی میری اولاد میں سے سب سے افضل اور میری چہیتی اولاد میں نے تیرے باپ آدم کو جنم دیا، تیری ماں حوا کو خوبصورت وجود بخشا۔ اس لئے کہ ہر ماں کی طرح میری بھی آرزوئیں اور تمنائیں ہیں، میں بھی مامتا کی ماری چاہتی ہوں کہ میری اولاد خوش رہے، پرسکون رہے، آپس میں مہرو محبت خلوص و ایثار ہو، ایک بھائی دوسرے بھائی کو تباہ نہ کرے ، ایک بہن دوسری بہن کو برباد نہ کرے۔
آدم حوا کی نسل میری اولاد! میرے قریب آ! کہ میں تجھے ایک راز بتا دوں مجھے اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے دسترخوان بنا دیا ہے۔ جتنا میرا طول و عرض ہے اتنا ہی بڑا کشادہ اللہ کا دسترخوان ہے۔ اس دسترخوان پر اللہ نے وہ ساری نعمتیں رکھ دی ہیں جن کی تمہیں ضرورت ہے۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک نعمتیں ہی نعمتیں، کوئی روک ٹوک نہیں کوئی قیمت نہیں۔ زمین پر رہنے والا ہر فرد جس طرح چاہے اس سے مستفید ہوتا ہے، ہو سکتا ہے، ہوتا رہے گا۔
کیا تو نہیں دیکھتا اور کیا تو نہیں سمجھتا کہ میں تیری ملکیت بن گئی ہوں۔ میری ہر چیز تیری ہے جس طرح ہر ماں کی ہر چیز اولاد کی ہوتی ہے، سونا چاندی میرے ہی جسم کے ذرات میں پرت در پرت طبقات میرے اعصاب ہیں۔ پانی میرا خون ہے، گیسیں میری وریدوں میں دوڑنے والی حیات ہیں۔ رنگ میری خوبصورتی، غلافوں میں بند پھل میری حیاء، مخملی گھاس میرا لباس، پھول لباس پر نقش و نگار، چوپائے میرے وجود کا احساس، پرندے میرا لہجہ، سمندر میرا مدو جزر، پہاڑ میری طاقت، دریا میرا سکون، بارش میرے آنسو، شفق میرے لبوں کی لالی، سورج میری روشنی، چاند میرے ماتھے کا ٹیکہ اور ستارے میرے سرکا جھومر یہ سب کس کیلئے ہے؟
میرے بچو! یہ سب تمہارے لئے ہے۔
میں تمہاری ماں زمین۔
اپنی ماں! اپنے خالق اللہ کی منشاء سے، اللہ کی چاہت سے، اللہ کے پیار سے ہر آن ہر لمحہ تمہاری خدمت میں لگی رہتی ہوں۔ تم کیوں آپس میں لڑکر، فساد برپا کر کے، قتل و غارت گری سے اپنی ماں کو دکھی کرتے ہو۔ میں نے کبھی تم سے کچھ نہیں مانگا۔ ہمیشہ تمہیں زندگی دی ہے۔ پھر تم کیوں میری گود اجاڑ دینا چاہتے ہو؟
سنو بگوش ہوش سنو!
ایک محلے میں پچاس گھر ہوتے ہیں۔ ہر گھر میں گھر والے اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں، کوئی کسی کے گھر کو اپنا گھر بنانے کیلئے جھگڑا نہیں کرتا۔ ایک شہر میں ہزاروں گھر ہوتے ہیں ہر فرد قناعت کے ساتھ اپنے آنگن میں اپنے پھول جیسے معصوم بچوں کے ساتھ خوش رہتا ہے۔
کیا زمین پر بسنے والی قومیں اپنے اپنے ملکوں میں محلوں اور شہروں میں رہنے والے لوگوں کی طرح نہیں رہ سکتے؟ تم اقتدار کے نشے میں بدمست کیوں ہو گئے ہو؟ میں کروڑوں سال سے زندہ ہوں۔ میں نے نہیں دیکھا کہ اقتدار کی ہوس میں فتوحات کرنے والا کوئی غاصب۔۔۔۔۔۔انا کا پجاری۔۔۔۔۔۔ظالم اور جاہل اپنے ساتھ ایک تنکا بھی لے گیا ہے۔
میرے بچو!
تم میری کوکھ سے محبت کی تصویر بن کر جنم لیتے ہو اور محبت کو نفرتوں میں تبدیل کر کے خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے ہو۔
میں زمین تمہاری ماں ہوں۔
میرے اندر نفرت، حقارت، تعصب، نسل پرستی اور اقتدار کا شائبہ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔کیا تمہیں اپنی ماں کو مایوس کر کے، دکھی کر کے خوشی ہوتی ہے۔ کیا تم اتنے ہی احسان فراموش ہو کہ تمہاری ماں اپنے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر تمہیں زندگی دے رہی ہے اور تم آپس میں اپنی ماں کیلئے بہن بھائیوں میں خوشیاں بانٹ سکتے ہو۔
یاد رکھو! تمہیں اپنی پوری گندگی، سڑاند اور جاہ و جلال کے جھوٹے دعوؤں کے ساتھ دوبارہ میرے پاس آنا ہے۔ میں ماں ہونے کے ناطے تمہارا تعفن تو ڈھانپ لونگی مگر تمہیں اپنے بچھے ہوئے دسترخوان پر کبھی بھی ناخوش ہو کر جینا ہو گا، جہاں اقتدار رہے اور نہ ہی کوئی نخوت کی گنجائش۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 63 تا 66
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔