لیلۃ القدر
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18278
انسانی زندگی کا مطالعہ ہمارے اوپر یہ باب روشن کرتا ہے کہ ہر انسان دو حواس میں زندگی گزار رہا ہے۔ ایک قسم کے حواس اسفل زندگی کی طرف متوجہ رہنے پر مجبور کرتے ہیں اور دوسری قسم کے حواس ہمیں آزاد دنیا (جنت) سے روشناس کرتے ہیں۔ عام دنوں کے برعکس روزہ ہمیں ایسے نقطے پر لے آتا ہے جہاں سفلی حواس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور ہم اجتماعی شعور میں داخل ہو جاتے ہیں۔ روزے میں اجتماعیت کا عمل دخل اتنا واضح ہے کہ کوئی آنکھ کا اندھا بھی مشاہدہ کر سکتا ہے۔ سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد مسجد میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے تو کروڑوں مسلمان اس ایک آواز پر منہ بند کر لیتے ہیں اور اپنے اوپر حلال چیزوں کو حرام کر لیتے ہیں، نہ کھانا کھاتے ہیں، نہ پانی پیتے ہیں۔ تیرہ چودہ گھنٹے کے بعد مساجد سے پھر اذان نشر ہوتی ہے اور لوگ اجتماعی طور پر اللہ کے دیئے ہوئے رزق سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روزے میں یہ حکمت ہے کہ روزے رکھنے سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور اس عبادت کے نتیجے میں انسان کے اندر روح کی بالیدگی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اعلیٰ حواس کا سفلی حواس پر غلبہ ہو جاتا ہے تو اس کے اندر دیکھنے کی، سمجھنے کی، محسوس کرنے، چھونے اور غیب کی دنیا میں داخل ہونے کی رفتار ساٹھ ہزار گنا بڑھ جاتی ہے۔ ساٹھ ہزار گنا پرواز کی رفتار کو تلاش کرنے کیلئے رسول اللہﷺ نے شب قدر کا پروگرام دیا ہے۔
’’ہم نے یہ اتارا شب قدر میں اور آپ کیا سمجھے کیا ہے شب قدر، شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے (ساٹھ ہزار دن رات کے حواس) سے شب قدر میں اپنے رب کے حکم سے روح اور فرشتے اترتے ہیں۔ ہر امر پر امان ہے وہ رات صبح کے نکلنے تک۔‘‘
قرآن پاک نے جس رات کا نام لیلۃ القدر رکھا ہے۔ وہ دراصل رمضان کی تکمیل کا ایک حصہ ہے۔ اس حصہ کی تکمیل سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ روزے کی جزا میں ہوں بندے پر صادق آ جاتی ہے۔
لیلۃ القدر کے حصول یعنی حواس کی رفتار ساٹھ ہزار گنا ہونے کے بعد بندے کو اللہ تعالیٰ سے جو قربت حاصل ہوتی ہے اور بندے کے اوپر اللہ کی نشانیاں روح اور فرشتوں سے ملاقات کا عمل سامنے آتا ہے تو اس عظیم نعمت کے حصول کے بعد مومن دوگانہ نماز عید ادا کرتا ہے۔ وہ غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کی خوشی میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس خوشی کو اجتماعی طور پر مصافحہ کر کے بغل گیر ہو کر مسلمانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ یہی عید کا مفہوم ہے اور یہی عید کی خوشی ہے۔
یہی وہ ملت اسلامیہ کی اجتماعی حیثیت ہے جس کی وجہ سے بازوؤں میں طاقت، دلوں میں اخوت اور قدرت نے ان کی تلوار میں ضرب کی اتنی صلاحیت پیدا کر دی تھی کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود حق و باطل کے پہلے معرکہ میدان بدر میں اپنے سے تین گنا طاقت رکھنے والے دشمن کو (جو اس زمانے کے اعتبار سے بہترین اسلحہ سے مسلح تھا) شکست فاش دے دی۔
اغیار یہ بات جان گئے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے ہر عمل میں فوجی اسپرٹ موجود ہے۔ اگر یہ فوجی اور عسکری وقار برقرار رہا تو ایک دفعہ مسلمان سارے عالم پر حکمران ہو جائے گا۔ دس ہزار انسانوں کا یک جان دو قالب قافلہ جس زمین کی طرف رخ کرے گا وہ زمین اس کی گلزار بن جائے گی۔ ہماری طاقت، ہماری قوت اور ہماری عسکری تنظیم کا وقار بلند کرنے کے لئے ہر سال عید ہمیں دعوت اتحاد و یگانگت دیتی ہے۔
آیئے اس مرتبہ عید کی صدا پر کان دھریں اور اپنے اندر سے تفرقہ کو ختم کر دیں۔ اللہ کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اللہ کی رسی کو اجتماعی طور پر متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں تا کہ بدر میں ہمارے اسلاف کی طرح ہماری فتح میں معاون بننے کیلئے ہمارے اوپر فرشتے نازل ہوں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 57 تا 58
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔