حضرت مریمؑ
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18220
قرآن کا نزول چھٹی صدی عیسوی میں ہوا۔ قرآن پاک میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا بڑا حصہ تورات اور انجیل میں بیان ہو چکا ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں مجھ سے پہلے میرے بھائی پیغمبرانؑ نے جو کچھ فرمایا ہے وہی میں بھی تمہیں بتا رہا ہوں۔‘‘
اسلام نے آسمانی کتابوں کو برحق جانا ہے۔ ایمان کی تعریف ہی یہ ہے کہ محمد رسولﷺ پر ایمان لایا جائے، آسمانی کتابوں پر یقین کیا جائے، پیغمبروں پر ایمان لایا جائے، یوم آخرت پر ایمان ہو، خیر و شر کی تقدیرات پر یقین ہو، اسلام تمام انبیائے کرام حضرت نوحؑ ، حضرت ابراہیمؑ ، حضرت موسیٰؑ ، حضرت عیسیٰؑ کو برحق مانتا ہے۔ جس طرح قرآن پاک میں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کو کرامت کہا گیا ہے اسی طرح انجیل میں بھی حضرت عیسیٰؑ کی ولادت قدرت کا ایک کراماتی عمل ہے جس طرح انجیل میں بھی حضرت مریمؑ کو ایک خاص مقام حاصل ہے اس طرح قرآن میں بھی حضرت مریمؑ کا اپنا منفرد مقام ہے یہاں تک کہ قرآن کی ایک سورۃ کا نام بھی مریم ہے۔
پانچ سال پہلے انگلینڈ کے ایک شہر نیلسن میں ایک پادری صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ انہوں نے اپنا پہلا تعارف یہ کرایا کہ:
’’میں ایمان رکھتا ہوں کہ عیسیٰؑ ہمارے لئے کفارہ بن گئے ہیں اور صلیب پر چڑھ کر (Jeses) نے ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔‘‘
میں نے ان سے پوچھا:
’’پادری صاحب! جب مسیح نے آپ کے لئے اپنی جان صلیب کی نظر کر دی ہے تو آپ کے اوپر بھی ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا:
’’ہاں! میں بائیس سال سے مسیحؑ کی تعلیمات کی تبلیغ کر رہا ہوں۔‘‘
میں نے کہا:
’’جناب تبلیغ تو وہ بھی کر رہے ہیں جو پادری نہیں ہیں، پادری ہونے کی حیثیت سے آپ کے اوپر یہ فرض ہے کہ آپ مسیح کو دیکھ کر ان سے عیسائیت کے علوم حاصل کریں۔‘‘
پادری صاحب ایک دم آپے سے باہر ہو گئے کہنے لگے:
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں اپنے انر میں Jesesکو محسوس کرتا ہوں۔‘‘
میں نے کہا:
’’جناب! محسوس تو یہ ساری باتیں کی جاتی ہیں لیکن محض محسوساتی باتوں کو حقیقت نہیں کہا جاتا، پادری صاحب! آپ بائیس سال سے مسیحؑ کے نام پر ایک خوبصورت آرام دہ عمارت(گرجا) میں رہتے ہیں۔ چرچ آپ کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس کے باوجود آپ صرف محسوساتی زندگی کے خول میں بند ہیں۔ ہم مسلمان بھی حضرت عیسیٰؑ بن مریم کو مانتے ہیں نہ صرف مانتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں بلکہ دیکھتے بھی ہیں اور حضرت عیسیٰؑ کی ذات سے ان کا علم بھی سیکھتے ہیں۔‘‘
پادری صاحب غصے سے آگ بگولہ ہو گئے اور بڑے ہی دل آزار لہجے میں بولے:
’’یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
میں نے عرض کیا:
’’ایسا ہوتا ہے اور اگر آپ چاہیں تو آپ بھی مسیحؑ کی روح سے ملاقات کر سکتے ہیں۔‘‘
کچھ دیر وہ خاموش بیٹھے رہے اور یہ کہہ کر چلے گئے:
“This man is master in spiritualism”
ایک اور عیسائی بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ اسلام اور عیسائیت پر گفتگو ہوئی تو میں نے ان سے عرض کیا:
’’جناب! ہم عیسائیوں کی نسبت حضرت عیسیٰؑ اور حضرت مریمؑ کو زیادہ فضیلت دیتے ہیں۔ ہمارے قرآن پاک میں ایک باب کا نام ہی مریم ہے۔‘‘
وہ اصرار کرتے رہے کہ:
’’ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
میں جس مسلمان گھر میں مقیم تھا ان سے کہا قرآن کا انگریزی ترجمہ لے آئیں لیکن وہاں تاج کمپنی کے علاوہ دوسرا قرآن نہیں تھا۔ اس طرح میری بات کا وزن قائم نہیں ہو سکا۔
برمنگھم میں دو پادری خواتین (Nuns)آئیں اور تبلیغ شروع کر دی۔ میں نے ان سے پوچھا:
’’اس وقت مسیح کہاں ہیں؟ ان کا جسم جو صلیب سے اتارا گیا تھا کہاں ہے؟‘‘
بولیں:
’’مسیح کہاں نہیں ہیں؟‘‘
میں نے پوچھا:
’’نظر کیوں نہیں آتے؟‘‘
کہنے لگیں:
’’روح بھی کہیں نظر آتی ہے؟‘‘
میں نے پوچھا:
’’تم کیا ہو؟‘‘
وہ خاموش ہو گئیں، بات آگے بڑھی تو ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ مرنے کے بعد روح، روح کو دیکھتی ہے۔ میں نے کہا:
’’اگر تم اپنی روح سے واقفیت حاصل نہیں کرو گی تو مسیح کو نہیں دیکھ سکو گی۔‘‘
بدمزہ سا منہ بنا کر بولیں:
’’ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم آپ کی باتیں سنیں۔‘‘
میں نے کہا:
’’سسٹر! میں بھی کوئی بیکار آدمی نہیں ہوں۔ مجھے کیا ضرورت ہے کہ تمہاری غیر حقیقی باتوں میں اپنا وقت برباد کروں۔ آپ میری باتیں سنیں گی میں آپ کی باتیں سنوں گا۔‘‘
انہیں جیسے کرنٹ لگ گیا اور تیزی کے ساتھ دونوں گھر سے باہر نکل گئیں۔
نیویارک میں ایک لڑکی آئی۔ بولی:
’’آپ Saintہیں۔ میں یقین رکھتی ہوں کہ Jesesخدا کا بیٹا ہے۔‘‘
میں نے کہا:
’’ٹھیک ہے ، میں کہہ سکتا ہوں کہ حضرت مریم خدا کی بیوی ہیں۔‘‘
وہ غصے سے لال پیلی ہو گئی اور مجھے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ میں نے نہایت نرم لہجے میں اور محبت سے کہا:
’’تم میری بیٹی کے برابر ہو۔ بات کو غصہ سے نہیں نرمی اور پیار سے سمجھنے کی کوشش کرو جب اللہ کا کوئی بیٹا ہو سکتا ہے تو اللہ کی بیوی بھی ہو سکتی ہے۔‘‘
وہ بہت دل برداشتہ ہو کر چلی گئی اور ایک ہفتے کے بعد دوبارہ واپس آئی اور کہا:
’’میں نے کئی پادریوں سے یہی سوال کیا کہ جب خدا کا کوئی بیٹا ہو سکتا ہے تو خدا کی بیوی کیوں نہیں ہو سکتی؟ وہ لوگ مجھے مطمئن نہیں کر سکے ۔
اب میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں لیکن چند شرائط ہیں۔ میری ماں بوڑھی ہے، میں اسے نہیں بتاؤں گی کہ میں مسلمان ہوں۔ اس لئے کہ وہ اس خبر سے مر جائے گی۔ میں برقع نہیں اوڑھوں گی، مسلمان پادری کہتے ہیں کہ برقع اوڑھنا ضروری ہے جبکہ یہاں مسلمان خواتین کھلے سر پھرتی ہیں۔‘‘
مغربی دنیا کا ایک اور واقعہ سن لیجئے۔ ایک کثیر الاشاعت اخبار کی نمائندہ آئی۔ مجھ سے انٹرویو کیا۔ پہلے رنگوں کے اوپر بات ہوئی کہ رنگ ہی ساری کائنات کا اصل ہیں اور رنگوں کے امتزاج سے کائنات میں نوعوں کا وجود قائم ہے۔ قصہ مختصر، وہ بظاہر بہت متاثر ہو گئی اورکہا رنگوں کی یہ عجیب و غریب تھیوری ہم آئندہ بدھ کو اخبار میں شائع کریں گے۔ بات ایڈیٹر سے ڈائریکٹر تک پہنچی۔ پھر بورڈ بیٹھا اور انٹرویو شائع نہیں ہوا۔ انہوں نے باقاعدہ معذرت کی کہ بورڈ کی رائے یہ ہے کہ انٹرویو شائع نہ کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ یہ انٹرویو اس لئے شائع نہیں ہوا کہ وہ اپنے عوام کو یہ نہیں بتانا چاہتے تھے کہ کوئی مسلمان رنگوں کی عجیب و غریب تھیوری جانتا ہے۔ میں نے دیکھا اور جانا ہے کہ مغربی دنیا کی عوام کو صحیح حقائق معلوم نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پالیسی کے تحت عوام سے حقائق کو چھپایا جاتا ہے اور عوام کو اسلام کی حقانیت سے بے بہرہ رکھا جاتا ہے۔ ان عوامل میں ہم مسلمانوں کا قصور ہے۔ مسلمان اس معیار سے بہت زیادہ پست ہیں جس معیار پر زندگی گزارنے کی اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ مغرب نے جان بوجھ کر اسلام کو (Mohammadanism) کا نام دیا ہے اور اس کی بے پناہ تشہیر کی گئی ہے تا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ قرآن محمدﷺ کا کلام ہے اور اسلام محمدﷺ کا بنایا ہوا دین ہے۔ یہ ایک سازش ہے جو اسلام کیخلاف پوری شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔ مسلمان قوم کی زبوں حالی و ابتری کا حال یہ ہے کہ اب ہم علم میں بھی یورپ اور مغربی دنیا کے محتاج بن گئے ہیں۔
قرآن کریم کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات پوری واضح ہو جاتی ہے کہ خواب اور بیداری زندگی کے دو نصف حصے ہیں۔ مگر ہمارے دانائے فرنگ اور دانشوروں پر مغرب کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ فرائڈ کو نفسیات اور خواب کا بابائے آدم تصور کیا جاتا ہے جبکہ وہ نفسیاتی اور جنسی مریض کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ سائنس دانوں نے جب دیکھا کہ عیسائی علماء، سائنسی ترقی میں حارج ہوتے ہیں تو انہوں نے مذہب کو سائنس سے الگ کر دیا۔ سائنس اور مذہب کے تقابلی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بائبل کے مبصرین اور سائنس کے اسکالروں کے مابین شدید اختلاف ہے اس کے برعکس قرآن ایک ایسی الہامی کتاب ہے جس میں زندگی کے تین رخ متعین کئے گئے ہیں:
۱۔ اصول معاشیات تمدن اور زندگی گزارنے کے طور طریقے
۲۔ تاریخ جو ماضی میں بسنے والی قوموں کے عروج و زوال کے حقائق کو منکشف کرتی ہے۔
۳۔ معاد یعنی اس دنیا کے پیچھے اور اس دنیا کے آگے ایک اور دنیا ہے۔ چھپی ہوئی دنیا ہی سے خیالات و اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ ان اطلاعات میں مستقبل کے راز بھی ہیں اور ہر قسم کی سائنسی ترقی کے فارمولے بھی ہیں۔ یہ فارمولے ہر آن، ہر لمحہ نشر ہو رہے ہیں۔
صدائے عام ہے یاران نقطہ داں کے لئے
جو قوم اور قوم کا جو فرد ان نشر ہونے والے فارمولوں پر تفکر کرتا ہے، وہ فارمولوں کو تلاش کر لیتا ہے اور نئی نئی سائنسی ایجادات عملاً سامنے آ جاتی ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 29 تا 33
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔