آنکھیں
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18214
یہ کون نہیں جانتا کہ آدم برادری کا ہر فرد روح اور جسم کا مجموعہ ہے۔ جسم اور جسمانی توانائی زندگی اور حرکت کا تعلق مادیت سے ہے، جسم کی غذا بھی مادی ہے۔ آدم زاد کے اندر تین حصے پانی ہر وقت جسم کی کارکردگی کو بحال رکھتا ہے، شریانوں، وریدوں میں خون دوڑ کر بہتا ہے، پھیپھڑوں کا پھیلنا اور سکڑنا بھی ہوا اور آکسیجن کے اوپر قائم ہے۔ جس زمین پر آدم رہتا ہے چلتا پھرتا ہے، مکر و فریب کی دنیا بساتا ہے، کبر و نخوت سے اس کی گردن اونٹ کا کوہان بنی رہتی ہے، جس دھرتی کی کوکھ سے وسائل مہیا ہوتے ہیں اور جو دھرتی آدم زاد کو اس کی تمام تر رعونت اور تعفن کے ساتھ اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے وہ بھی مادیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس کے برعکس روح جو لطیف ہے، پاکیزہ ہے، طاہرہ ہے اور منیزہ ہے۔ عالم اقدس سے ہم رشتہ ہے اس کی غذا نور اور روشنی ہے۔ تجلی براہ راست اسے فیڈ کرتی ہے۔ روح کی توانائی، روح کی زندگی، روح کی حرکت، روح کا حسن، اللہ کی محبت اور قربت ہے جس طرح جسم مادی غذا نہ ہونے سے کمزور و ناتواں اور ناکارہ ہو جاتا ہے اسی طرح اگر روح کو قرب الٰہی حاصل نہ ہو تو وہ بھی ضعیف و ناتواں ہو جاتی ہے۔ بے چین و بے قرار رہتی ہے۔
کبھی آپ نے سمندر میں سے اٹھتی ہوئی موجوں کو دیکھا ہے؟ یہ موجیں سمندر میں سے ٹھیک ساحل پر جبیں ریز ہوتی ہیں۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ موجوں اور لہروں کی بے قراری، بے تابی، تڑپ اور کروٹ طغیانی کا راز کیا ہے؟
موج جب اپنے اصل سمندر سے دور ہوتی ہے تو اس کے اوپر دوری کا احساس غالب آ جاتا ہے وہ بار بار ساحل سے سر ٹکراتی ہے۔ اسے فراق کی گھڑیاں قیامت لگتی ہیں۔ سمندر اپنا ایک تشخص رکھتا ہے۔ جوش، جلال اور عظمت سے جب وہ اپنی حیثیت کا مظاہرہ کرتا ہے تو آسمانوں کے کناروں کو چھوتی ہوئی لہریں اس کے باطن سے باہر آ جاتی ہیں اور ساحل پر اپنی پیشانی رکھ دیتی ہیں، عظمت و جرأت کا مظاہرہ اسے اس بات پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ فرش پر سجدے میں گر جائیں۔ لہریں جیسے ہی فرش پر جبیں نیاز رکھتی ہیں سمندر اسے اپنی آغوش میں ایسے سمیٹ لیتا ہے کہ لہر اور سمندر ایک ہو جاتے ہیں۔ سمندر میں مدوجزر، جوار بھاٹا، لہروں کا طلاطم سمندر کے تشخص میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل بن جاتا ہے۔
پانی جب ذرہ ذرہ ہو کر لطیف ہو جاتا ہے تو ہوا اسے اپنے کندھوں پر سے خلاء میں اچھال دیتی ہے۔ خلاء جب لطافت سے معمور ہو جاتا ہے اور اسے سکون کا ایک ابدی لمحہ میسر آ جاتا ہے تو یہ ساری لطافت، یہ ساری ترشح، یہ ساری نمی بادل کے روپ میں خود کو منتقل کر دیتی ہے۔ بادل کے بڑے بڑے مشکیزے قافلہ در قافلہ، کارواں در کارواں اڑتے ہوئے شمال سے جنوب اور جنوب سے شمال، مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق میں محو سفر ہو جاتے ہیں جہاں ان کا قیام ہوتا ہے وہاں حرکت منجمد ہو جاتی ہے اور جمود اپنے وجود کو تھرا ہوا دیکھتا ہے تو سورج سے معاونت چاہتا ہے۔ سورج جب بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں پر بکھری ہوئی چاندی کو گہری آنکھوں سے دیکھتا ہے تو سورج کی آنکھوں سے نکلنے والی شعاعیں اس وجود کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہیں۔ یہ ریزہ ریزہ جمود سیال بن کر اعلیٰ سے نشیب کی طرف چشموں، آبشاروں، ندی نالوں میں سے سیل بیکراں کی طرح رواں دواں ہو جاتا ہے اور اپنی اصل سمندر سے جا ملتا ہے۔ یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ اس لئے کہ سمندر میں سے نکلا ہوا پانی کا ایک ایک قطرۂ آب اصل سے اپنا رشتہ قائم رکھنا چاہتا ہے۔
کسی بھی درخت کا بیج پسند نہیں کرتا کہ وہ فنا ہو جائے اس طرح فنا ہو جائے کہ موت اس کے مستقبل کو کھا جائے۔ ہر بیج اپنے اندر تناور درخت کی حفاظت کرتا ہے۔ خود فنا کا لباس زیب تن کر کے درخت کے وجود کو قائم رکھتا ہے۔ یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس لئے کہ بیج اپنی اصل سے رشتہ مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔
حرکت ہمہ وقت حرکت ہے۔ یہ حرکت پہاڑوں کو بڑے بڑے ٹکڑوں میں، پہاڑوں کے بڑے بڑے تودوں کو چھوٹے چھوٹے پتھروں میں چھوٹے پتھروں کو کرش میں اور کرش کو بجری میں، بجری کو ریت میں کیوں تبدیل کرتی رہتی ہے؟ اس لئے کہ پہاڑوں، کہساروں اور ریت کے ذرات میں قدر مشترک ختم نہ ہو جائے۔
آدم زاد نے جب روح سے اپنا رشتہ توڑ لیا اور روحانی طریقات کو نظر انداز کر دیا۔ سیم و زر کی فراوانی اور عیش و عشرت کو سب کچھ جان لیا تو روح کی بے قراری میں اضافہ اس لئے ہو گیا کہ روح جانتی ہے کہ صرف مادیت کا عروج روح کی غذا کو زہریلا اور مسموم بنا دیتا ہے جیسے ہی روح سے آدم زاد کا رشتہ کمزور ہوتا ہے وہ قرب الٰہی اور خالق اکبر کی محبت سے دور ہوتا رہتا ہے۔ دنیا میں جنگ و جدال، خون ریزی، نفرت و حقارت اور بھیانک موت کی تاریکی اس لئے پھیل گئی ہے کہ آدم برادری کی روح بے قرار اور بے چین ہے اسے سکون اسلئے نہیں ہے کہ اشرف المخلوقات آدم درندہ بن گیا ہے، زر و جواہر کو اہمیت دیتا ہے لیکن جس نے زر و جواہر کے ذخائر آدم کو منتقل کر دیئے ہیں اور برابر منتقل ہو رہے ہیں اس سے صرف لفظی تعلق ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان ممالک میں جہاں دولت کی فراوانی ہے، آسائش و آرام کی اتنی سہولت ہے کہ لوگ سوچتے ہیں کہ اب ہم کس زاویہ سے آسائش حاصل کریں وہاں ہر شہر کے ہر ہسپتال میں آدھی سے زیادہ آبادی دماغی مرض کی ہے۔ ہسپتالوں میں نصف سے زیادہ بستر دماغی امراض کے مریضوں کے لئے مخصوص ہیں۔ خود کشی کی وارداتیں بھی ان ممالک میں زیادہ ہو رہی ہیں۔ یہاں کا کروڑ پتی تاجر سب کچھ خرید سکتا ہے لیکن اسے سکون میسر نہیں ہے۔ اس کے اندر کی بے چینی اسے کسی کل چین نہیں لینے دیتی۔ وہ دبیز قالینوں پر فانوس کے نیچے ٹہلتا ہے اور سوچتا ہے کہ میرے پاس سب کچھ ہے لیکن میں بے چین او رپریشان کیوں ہوں؟ دولت کے پجاری کو کون بتائے کہ وہ اس لئے بیکل اور پریشان ہے کہ اس کے اندر ایک ہستی ہے۔ جس نے اس کے وجود کو سہارا دیا ہوا ہے۔ جس نے اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔ وہ بھی بے چین ہے۔ وہ ہستی کون ہے؟ وہ ہستی روح ہے اور روح کی غذا اللہ کی محبت ہے۔ جب تک روح کو غذا میسر نہیں آئے گی آدم زاد سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بے چین رہے گا۔
آج کا مسلمان جو ایمان سے خالی دامن ہے۔ جس کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ وہ جھوٹ کو سچ اور سراب کو حقیقت سمجھ بیٹھا ہے۔ جس کے اندر منافقت، بغض، کینہ، تعصب، نفرت اور درندگی نے بسیرا کر لیا ہے۔ جو گریبان چاک، افسردہ چہرہ، تصنع، بناوٹ اور گدلی آنکھوں والی تصویر بن گیا ہے۔ کہتا ہے مجھے سکون نہیں، کوئی بتائے کہ میں اس بے چینی کا کیا تدارک کروں؟
اے میرے بھائی مسلمان! تو کیوں نہیں سوچتا کہ تو اس لئے بے چین ہے کہ منافقت اور مکر تیری زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔ جیسے جیسے تو مکر و فریب سے قریب ہو رہا ہے تیری روح اپنی غذا اللہ کی محبت اور قربت سے دور ہو رہی ہے۔
اے مسلمان بھائی! تو اپنی منافقت سے پردہ اٹھا۔ تجھے تیرا چہرہ بھیانک نظر آئے گا۔ اللہ کہتا ہے سود لینے اور سود دینے والے سودی معیشت میں زندگی گزارنے والے اللہ کے کھلے دشمن ہیں۔
اے میرے بھائی! تو یہ کیوں نہیں سوچتا کہ جس کو اللہ اپنا دشمن کہہ رہا ہے۔ اس کی نمازیں، اس کا حج کیسے قبول ہو گا؟ تو کیوں اللہ کا دوست نہیں بن جاتا؟ کیا تجھے اس وقت روزی نہیں ملی جب تو ماں کے پیٹ میں تھا۔ کیا تو اس وقت بھوک سے مر گیا تھا جب تو کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے تو سانس لیتا ہے کیا اس میں تیرا کوئی دخل ہے؟ زمین کو اللہ نے تیرے لئے دسترخوان بنا دیا۔ اگر اللہ نہ چاہے تو کیا زمین کو اپنی خدمت پر مجبور کر سکتا ہے؟ ہوا تیری خدمت گزاری سے انکار کر دے، تیرے پاس کون سی طاقت ہے کہ تو ہوا کو مجبور کر دے کہ وہ تیرے پھیپھڑوں کو بھر دے۔ کیا سورج کو تو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ تجھے روشنی فراہم کرتا رہے؟ ہمارا ماحول زہر آلود ہو گا تو ہم کیوں بیمار نہیں ہونگے؟ جب روح کی غذا اللہ کی محبت اور اس کی مخلوق سے محبت ہمارے اندر نہیں ہو گی تو ہم کیسے خوش رہ سکتے ہیں؟ خوش نہیں ہونگے تو سکون کہاں ملے گا؟ سکون نہیں ملے گا تو کیسے ممکن ہے کہ آدم زاد دوزخ کا ایندھن نہ بنے، دوزخ کے ایندھن کا مصرف جلنے اور کوئلہ بن جانے کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 25 تا 28
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔