تصوف
مکمل کتاب : صدائے جرس
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18190
تصوف کیا ہے؟
تصوف کی تعریف یہ ہے کہ ماورائی دنیا کی تلاش میں صوفی جو کوشش اور ریاضت کرتا ہے اس کے نتائج صوفی کے سامنے آ جائیں، دنیا میں ہر صوفی نے تصوف کی مختلف تعریف بیان کی ہے، کوئی کہتا ہے کہ تصوف یہ ہے کہ ذات خداوندی سے رابطہ اور تعلق پیدا کیا جائے اس کے لئے روحانی اور نفسیاتی گہرائیوں سے گزرنا ضروری ہے۔
کسی نے کہا کہ ذات خداوندی پر یقین نفس کی گہرائیوں سے ابھرتا ہے اس کے لئے ریاضت اور ذہنی کاوش کی ضرورت نہیں ہے، صوفی کچھ بھی کرے اگر اس کے اندر اپنے انر (Inner) میں جھانکنے کا جذبہ اور خود کو تلاش کرنے کا ذوق ہے تو یہ تلاش اور ذوق اسے بہرحال خدا تک پہنچا دے گا۔
تصوف میں یہ نظریہ بھی زیر بحث آتا رہا ہے کہ وحدانیت اور کثرت کسی بھی طرح ایک جگہ قائم نہیں ہو سکتی، فانی اور محدود انسان، لافانی اور لامحدود ہستی کا مشاہدہ کس طرح کر سکتا ہے؟ چونکہ انسان فانی ے اس لئے لامحدود اور غیر متغیر ہستی کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ صوفی کے تجربات اور مشاہدات یقین کے کتنے ہی اعلیٰ درجہ پر ہوں لیکن جب انہیں بیان کیا جاتا ہے تو عقل اور استدلال ان تجربات اور مشاہدات کو واضح کرنے کی بجائے مبہم بنا دیتی ہے۔
صوفی جب اپنی واردات اور کیفیات کے مطابق حقیقت مطالعہ کو بیان کرنے کے لئے الفاظ کا سہارا لیتا ہے تو بیان میں کوئی نہ کوئی ایسا پہلو شامل ہو جاتا ہے کہ صداقت میں کذب کی آمیزش نظر آتی ہے اور اس طرح شکوک و شبہات اور اختلاف کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
صوفیوں کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ حقیقت مطلقہ(ذات خداوندی) کو سمجھنے کے لئے صوفی کو بہرحال لا شعور سے اتر کر شعوری سطح پر آنا پڑتا ہے اور وہ شعوری محدود وسعت میں رہ کر ہی کچھ بیان کر سکتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے اب نشدون میں ماوراء ہستی کو ’’نیتی نیتی‘‘ اور شیخ اکبر ابن عربی اور عبدالکریم اور الجبلی نے الاعماء کے نام سے منسوب کیا ہے، سریانی زبان میں دیوہ، کا لیوہ سے ماوراء ہستی کو پہچاننے کی کوشش کی، حضرت نوحؑ کے زمانے تک ماوراء ہستی کو پہچاننے کے لئے جو نام لیا جاتا تھا وہ لفظ ’’اللہ‘‘ اور ’’لا اللہ‘‘ کے ہم معنی تھا۔ حضرت نوحؑ کے بعد تمخاہ اور تمخیا ماورائی ہستی کو پہچاننے کے لئے اپنا لیا گیا، پھر حضرت ابراہیمؑ کی پیدائش سے صدیوں پہلے ’’اللہ‘‘ اور الا اللہ‘‘ کو کلمہ حق قرار دے دیا گیا، اس تاریخی حقیقت کے پیش نظر بہرکیف ماورائی دنیا کا ہر مسافر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ لامحدود اور لامتغیر ماوراء الماورائی ہستی کو سمجھنے اور اس ہستی کا تعارف کرانے کے لئے محدود شعوری حواس میں آنا ضروری ہے جبکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ محدود کو لامحدودیت کا جامہ پہنا دیا جائے۔
صوفیوں کا ایک طبقہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ تصوف اور مذہب ہم رشتہ ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ بنیادی تصورات میں صوفی ایک دوسرے سے متفق ہیں لیکن اس کے باوجود یونانی تصوف، ہندو تصوف، چینی تصوف، یہودی تصوف، عیسائی تصوف اور اسلامی تصوف ایک دوسرے سے متضاد نظر آتے ہیں، یونانی تصوف کی ابتدا مغربی ایشیاء میں آرقیس سے ہوئی۔
فلسفیانہ افکار نے اقلیت پسند ذہنوں کو مروجہ مذاہب سے بدگمان کر دیا تھا، لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ مذہبی دانشور مذہبی رسومات اور مذہبی علامات کو ادا کرنے پر زور دیتے ہیں لیکن خود محض ریا کاری اور دکھاوے کی زندگی بسر کر رہے ہیں، اس صورتحال میں حساس مخلص اور حکیمانہ ذہن رکھنے والے لوگوں میں ایک روحانی تڑپ پیدا ہوئی لوگ نیکی کو اختیار کرنے، شر کے اثرات سے محفوظ رہنے اور منافقانہ طرز عمل سے نجات پانے کے لئے راستے کی تلاش میں سرگرداں ہو گئے یہی وہ ماحول تھا جس میں آرقیسی نظام فکر و عمل کی بنیاد پڑی، آرقیس وقت کے مطابق ایسے اخلاقی اقدار کے پیمانے سامنے لایا جن کی بنیاد ریا کاری اور دکھاوے سے آزاد تھی، اس نظام کی بنیاد تفکر، زاہدانہ زندگی، باہمی اخوت و محبت اور مراقبے پر مشتمل تھی اس نے کثیف ماحول، ریا کاری اور دکھاوے سے بچنے کے لئے علیحدہ عبادت گاہیں بنوائیں تا کہ لوگ ریا کاری کی زندگی سے دور ہو کر نیکی کے نور کو تلاش کریں۔
یہودیوں کے ہاں ظاہری رسوم کی پابندی عام سمجھی جاتی تھی خیال کیا جاتا ہے کہ تصوف جو اپنی روح کے حساب سے ریاکاری اور دکھاوے کا دشمن ہے یہودیوں میں نہیں ہے۔ تاریخی حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ عہد عتیق میں صوفیانہ خیالات بالکل ناپید ہیں اور اگر کہیں صوفیانہ تجربات ملتے ہیں تو وہ یونانی حکمت اور خاص طور پر افلاطون کے نظریات کا چربہ ہیں۔
بابل میں زمین کی زرخیزی کے متعلق رسوم اورتصورات کے ارد گرد علم الاصنام اور بعد میں علوم باطنی اور اسرار کا ذخیرہ تیار ہوا پھر یہ رسومات موت کے بعد کی زندگی کے تصور کے ساتھ وابستہ ہو گئیں۔ اس تصور کے ساتھ انسانی زندگی سے متعلق تمثیلات کا تار پود بھی شامل ہو گیا، کہا گیا دیوی ’’تموذ‘‘ کی موت کے بعد ’’اشتر‘‘ جہنم کے سات دروازوں سے ہوتا ہوا پاتال میں پہنچاتا کہ دیوی تموذ کو دوبارہ واپس لے آئے چونکہ اس کی موت سے تمام نباتی اور حیوانی زندگی ختم ہو چکی تھی پاتال کی ملکہ نے اسے قید کر کے اس کے جسم کو کسی بیماری میں مبتلا کر دیا۔
چینی تصوف کا آغاز اور نشوونما ’’لاؤزی‘‘ سے منسوب ہے لیکن تاریخ چین بتاتی ہے کہ ’’لاؤزی‘‘ سے پہلے بھی چین میں ایسے لوگ موجود تھے جو سیاسی اور معاشرتی حالات سے مایوس ہو کر عملی زندگی سے کنارہ کش ہو گئے تھے انہوں نے شہروں کی زندگی سے مایوس ہو کر ذاتی نجات کے لئے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب پیغمبر ان کی تعلیمات پر ان کے جانے کے بعد مصلحت کی بنیاد پر پردہ پڑ گیا تو عوام میں سے ایک گروہ نے تفکر کو اپنا کر حقیقت مطلقہ سے اپنا رشتہ جوڑنے کے لئے ایک راستہ نکالا جس میں ریاکاری اور رسومات سے آزادی شامل تھی، ایسے ضابطے بنائے جن پر قائم رہ کر حقیقت مطلقہ تک رسائی ممکن ہے۔
اسلامی تصوف کی تاریخ رسول اکرمﷺ کے غار حرا میں مراقبہ سے شروع ہوئی، رسول اکرمﷺ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ ماحول بھی دیوی، دیوتاؤں کی پرستش کا ماحول تھا، احدیت سے لوگ دور ہو گئے تھے، ۳۶۰ اکائیوں کو خدا مان لیا تھا اس ماحول سے بیزاری کے نتیجے میں رسول اکرمﷺ مکہ سے کافی دور بلند پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں تفکر فرمایا کرتے تھے، یہی وہ تفکر اور وحدانیت کی تلاش تھی جس کے نتیجے میں حضرت جبرائیلؑ غار حرا میں تشریف لائے اور صراط مستقیم کی بنیاد ڈالی۔
ہزاروں سال پہلے کی تاریخ سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ کے جد امجد حضرت ابراہیمؑ نے بھی بت پرستانہ ماحول سے بیزار ہو کر تفکر (مراقبہ) کے ذریعہ وحدانیت کو تلاش کیا تھا۔ رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد جیسے جیسے صدیاں گزریں مسلمان وحدانی طرزوں سے دور ہوتے گئے اور امت مسلمہ میں نئے نئے تفرقے پیدا ہو گئے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے جب قوم کی زبوں حالی اور مسلمانوں کو تفرقوں میں تقسیم ہوتے دیکھا تو انہوں نے تصوف کی ابتداء کی اور کہا:
’’اسلام میں اعمال محض جسمانی نہیں ہے، ہاں صحیح عمل وہ ہے جس کے ساتھ روح بھی شامل ہو۔‘‘
ایک طرز فکر بندے کو خالق سے قریب کرتی ہے اور دوسری طرز فکر بندے کو خالق سے دور کرتی ہے، قدرت سے انعام یافتہ شخص مصائب کی زندگی سے دور ہو کر جنت کی آسائش حاصل کر لیتا ہے، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا کہ:
’’جب زمین اور آسمان کا وجود اس روشنی پر قائم ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا نور فیڈ کرتا ہے، اگر نوع انسانی کا ذہن مادے سے ہٹ کر اس روشنی میں مرکوز ہو جائے تو انسان یہ سمجھنے پر قادر ہو جائے گا کہ اس کے اندر عظیم الشان ماورائی صلاحیتیں موجود ہیں، جن کو استعمال کر کے وہ زمین پر پھیلی ہوئی اشیاء میں تصرف کر سکتا ہے۔‘‘
انسان مادی وسائل کا محتاج نہیں ہے بلکہ وسائل اس کے سامنے سربسجود ہیں، قرآن جس راہ کا تعین کرتا ہے اور مسلمان جس راہ پر چل رہا ہے یہ دونوں ایسی لکیریں ہیں جو آپس میں کبھی نہیں ملتیں، مسلمان کی زندگی دنیا کے حصول تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، عبادتیں بھی محض دکھاوے اور دنیاوی برکتیں سمیٹنے کے لئے مخصوص ہو گئی ہیں، آسمانی علم و آ گہی کے منفرد خورشید اور کائناتی تسخیری فارمولوں کے ماہر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں:
’’اے منافقوں! کلام نبوت سنو، آخرت کو دنیا کے عوض فروخت کرنیوالو! حق کو مخلوق کے عوض بیچنے والو! باقی کو فانی کے بدلے کاروبار کرنے والو! تمہارا بیوپار سراسر خسارے کا سودا ہے، تمہارا سرمایہ تمہیں بربادی کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے افسوس تم پر، تم اللہ کے غضب کا ہدف بن رہے ہو۔‘‘
ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے جسمانی وظائف کے ساتھ روح کے عرفان کے اعمال و اشغال کو تصوف کہا ہے، اسلام میں شریعت اور طریقت کا تصور بھی یہی ہے کہ انسان عبادات میں جسمانی پاکیزگی اور اعمال کے ساتھ ذہنی تفکر کے ذریعے اپنی ذات سے واقفیت حاصل کرے تا کہ اس کے مشاہدے میں یہ بات آ جائے کہ انسانی ذات (روح) دراصل کسی انسان کے اندر ماورائی دنیاؤں میں داخل ہونے کا نام ہے، چونکہ روح اللہ کا ایک حصہ ہے۔ یعنی کُل کاجز ہے۔ جب جز کا مشاہدہ ہوتا ہے تو (حقیقت مطلقہ) سامنے آ جاتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 6 تا 10
صدائے جرس کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔