ہرنی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12989
سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام ایک وادی سے گزر رہے تھے کہ ’’ یا رسول اللہ‘‘ کہہ کر کسی نے پکارا۔ سیدنا علیہ والصلوۃ والسلام نے دیکھا کہ ایک ہرنی بندھی ہوئی ہے۔ اس کے قریب بدو سویا ہوا ہے۔ ہرنی بولی، یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس بدو نے مجھے پکڑلیا ہے۔ سامنے پہاڑ میں میرے دو بچے بھوکے ہیں۔ آپ تھوڑی دیر کےلئے مجھے آزاد کردیں میں بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجاوں گی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی رسی کھول دی۔ ہرنی وعدے کے مطابق بچوں کو دودھ پلا کر واپس آگئی۔ آپؐ اسے رسّی سے باندھ رہے تھے کہ بدو بیدار ہوگیا۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہرنی میں خوشی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کرتا ہوں۔ آپؐ نے بدو سے کہا اسے آزاد کردے۔
ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ آزاد ہونے کے بعد ہرنی قلانچیں بھرتی ہوئی پہاڑ کے دامن میں اپنے بچوں کے پاس چلی گئی۔
**********************
کائنات میں ہر فرد، قدرت کا بنا ہوا ایک کمپیوٹر ہے۔ اور اس کمپیوٹر میں کہکشانی نظاموں سے متعلق تمام اطلاعات فیڈ ہیں اور کمپیوٹر ڈسک کی طرح یہ اطلاعات ہر کمپیوٹر میں ذخیرہ ہیں۔ کہکشانی نظاموں میں جاری و ساری یہ اطلاعات، لہروں کی دوش پر ہمہ وقت سفر کرتی رہتی ہیں۔ ہر موجود شئے کا دوسری موجود شئے سے لہروں کے ذریعہ اطلاعات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ سائنس دان روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں۔ لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہے کہ زمانی مکانی فاصلوں کو منقطع کردے۔ زمانی اور مکانی فاصلے لہروں کی گرفت میں رہتے ہیں۔ اگر کسی فرد کے ذہن میں جنات، فرشتوں اور آسمانوں اور زمین سے متعلق اطلاعات کا تبادلہ نہ ہو تو، انسان فرشتوں، جنات، درخت، پہاڑ، سورج اور چاند کا تذکرہ نہیں کرسکتا۔ کہکشانی نظام اور کائنات میں جتنی بھی نوعیں اور نوعوں کے افراد کے خیالات کی لہریں ہمیں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح ہماری زندگی سے متعلق تمام خیالات لہروں کے ذریعے ہر مخلوق کو منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات اس قانون سے واقف نہ ہوں۔ خیالات کی منتقلی ہی دراصل کسی مخلوق کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہے۔ ہم کسی آدمی یا کسی مخلوق کے فرد سے اس لئے متاثر ہوتے ہیں کہ مخلوق کے فرد کی لہریں، ہمارے اندر دور کرنے والی لہروں میں جذب ہورہی ہیں۔ انسان کا لاشعور کائنات کے دور دراز گوشوں سے مسلسل رابطہ رکھتا ہے۔ اس ربطہ کے ذریعے انسان اپنا پیغام کائنات کے ہر ذرّہ تک پہونچا سکتا ہے اور دوسروں کے خیالات سے آگاہ ہوسکتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ انسان اس قانون سے واقف ہوجائے کہ کائنات کی تمام مخلوق کا خیالات کی لہروں کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ اور تعلق ہے۔ خیال اس اطلاع کا نام ہے جو ہر آن اور ہر لمحہ زندگی سے قریب کرتی ہے یا دنیاوی زندگی سے دور کردیتی ہے۔
سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کائناتی زندگی اور کائناتی سسٹم کے امین اور اس پورے سسٹم پر حاکم ہیں۔ اونٹ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی درد بھری کہانی سنائی تو رحمۃ اللعالمین نے اونٹ کے مالک سے فرمایا۔ اونٹ تیری شکایت کرتا ہے کہ تو اسے پیٹ بھر کر غذا نہیں دیتا۔
تبادلۂ خیال کے اس قانون کے تحت ہرنی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بپتا سنائی۔ اس قصّہ میں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ چوپائے جھوٹ نہیں بولتے اور ایفائے عہد کرتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 113 تا 115
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔