سنگریزوں نے کلمہ پڑھا
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12980
ایک دوپہر حضرت عثمانِ غنیؓ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ بھی وہاں موجود تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا، تجھے کیا چیز یہاں لائی؟ انہوں نے عرض کیا’’ اللہ اور رسول کی محبت‘‘ اس سے قبل حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ بھی سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کے استفسار پر یہی جواب دے چکے تھے۔ اسکے بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے سات یا نو کنکریاں ہاتھ میں لیں تو ان کنکریوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک میں تسبیح پڑھی جس کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کنکریاں علٰیحدہ علٰیحدہ حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ کے ہاتھوں میں دیں تو کنکریوں نے سب کے ہاتھوں میں تسبیح پڑھی۔
<p style=”text-align: center;”>**********************</p>
آوازیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ آواز آپس میں رابطے کا ذریعہ اور معلومات کے تبادلے کا ایک طریقہ ہے۔ آواز کی بدولت ہم بہت سی چیزوں کو جانتے ہیں اور بہت سی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ درختوں میں بیٹھی چڑیوں کی چہچہاہٹ، پنگوڑے میں کھیلتے بچوں کی کلکاریاں، گلی میں پھیری والے کی صدا، کارخانے میں متحرک مشینوں کی گڑگڑاہٹ اور لاتعداد دوسری آوازیں ہماری سماعت سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ لیکن بہت سی آوازیں ایسی بھی ہیں جو ہمیں سنائی نہیں دیتیں۔ یہ آوازیں ہماری سماعت سے ماوراء ہیں۔
پیچیدہ امراض کی تشخیص و علاج، صنعت و حرفت اور تحقیق و تلاش کے لئے الٹراساونڈ ویوز کا استعمال اب عام ہوگیا ہے۔ صدائے بازگشت کے اصول اور آواز کے ارتعاش کی بنیاد پر یہ لہریں کام کرتی ہیں۔ یہ لہریں مادّے کی مختلف حالتوں کے درمیان امتیاز کرسکتی ہیں۔
سائنس نے انکشاف کیا ہے کہ انسان کی سماعت کا دائرہ، بیس ہرٹز) (20hertzسے بیس ہزار ہرٹز فریکوینسی تک محدود ہے۔ جبکہ ورائے صوت موجوں کی فریکوینسی بیس ہزار ہرٹز(Hertz) سے دو کروڑ ہرٹز(Hertz) تک ہوسکتی ہے۔ اس لئے ہمارے کان ان آوازوں کو نہیں سن سکتے۔
موجوں کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک وہ جن میں ذرات سکڑتے اور پھیلتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور دوسرے وہ جو آگے بڑھتے ہوئے اوپر نیچے حرکت کرتی ہیں۔ موجوں کی اقسام کی تقسیم فریکوینسی اور طولِ موج کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
موج مخصوص فاصلہ کو اوپر نیچے حرکت کرتے ہوئے طے کرتی ہے۔ یہ اس کا طولِ موج کہلاتا ہے۔ طولِ موج میں ایک حرکت اوپر کی طرف ہوتی ہے اور ایک حرکت نیچے کی جانب ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ اوپر اور ایک مرتبہ نیچے، دونوں حرکتیں مل کر ایک چکر(Cycle) پورا کرتی ہیں اور ایک سیکنڈ میں کسی موج کے جتنے سائیکل گزر جاتے ہیں۔ وہ موج کی فریکوینسی کہلاتی ہے۔ طولِ موج زیادہ ہو تو فریکوینسی کم ہوتی ہے۔ جبکہ طولِ موج کم ہونے کی صورت میں فریکوینسی زیادہ ہوتی ہے۔
ریڈیائی لہریں کم فریکوینسی کی برق مقناطیسی لہریں ہوتی ہیں اور ٹی وی نشریات زیادہ فریکوینسی کی برق مقناطیسی لہریں ہوتی ہیں۔ برق مقناطیسی لہروں کو آواز کی موجوں کی طرح سفر کرنے کے لئے کسی واسطے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ پانی اور ہوا کے بغیر بھی آگے بڑھتی رہتی ہیں اور خلا میں آگے بڑھنے میں انہیں دقت پیش نہیں آتی۔
فریکوینسی اگر بہت بڑھ جائے تو موجیں شعاعیں بن جاتی ہیں۔ جو سیدھی چلتی ہیں۔ کم طولِ موج اور زیادہ فریکوینسی ہونے کی وجہ سے ان لہروں کی کسی چیز میں سے گزر جانے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔
قرآن کریم میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر چیز ہماری حمد و ثنا بیان کرتی ہے۔ یعنی کائنات میں موجودہ ہر شئے بولتی، سنتی اور ایک دوسرے کو پہچانتی ہے۔
ترجمہ:
’’ ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں اللہ کی عظمت بیان کررہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔‘‘ ( بنی اسرائیل )
کائناتی قانون کے مطابق ہر چیز بولتی ہے۔ سنتی ہے اور محسوس کرتی ہے۔ کنکریوں نے جب کلمہ پڑھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کنکریاں اس بات کا شعور و شہود رکھتی ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نبی برحق ہیں اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ حضورؐ عالمین میں موجود ہر شئے کے لئے رحمت ہیں۔ رحمت اللعالمین ہونے کی حیثیت سے کائنات کا ہر ذرّہ اس بات سے واقف ہے کہ ہماری بقا کا انحصار سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی رحمت کے اوپر ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 85 تا 88
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد دوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔