مذہبی ،سیاسی ،اخلاقی اور معاشی حالات

مکمل کتاب : باران رحمت

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12557

ایران

مذہبی حالات

عرب کی پہلی ہمسایہ سلطنت ایران تھی۔ ایران کا لفظ آریانہ سے مَشتَق ہے۔ جس کا مطلب ہے آریاؤں کی سرزمین۔اہل ایران کے عقائد کے بارے میں بریگیڈیئر جنرل پرسی سائیکس (Sir Percy Sykes) نے اپنی کتاب، ہسٹری آف پرشیا میں لکھا ہے:

’’ آریہ قوم مظاہر پرستی کا شکار تھی۔ روشنی، شفاف آسمان ،آگ، ہوائیں، حیات بخش بارشیں ان سب کی مقدس معبودوں کی طرح پرستش کی جاتی تھی۔ جبکہ ظلمت اور قحط سالی کو ملعون دیو تصور کیا جاتا تھا۔ اس مشرکانہ نظام میں آسمانوں کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ سورج کو آسمان کی آنکھ کہا جاتا تھا۔ روشنی کو آسمان کا فرزند، آسمانی دیوتا وارونا (Varuna) جسے یونانی یورانس (Ouranos) کہتے تھے، اس کو سب سے بڑے خدا کی حیثیت سے پوجا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مِتھرا (Mithere) جو روشنی کا دیوتا تھا اس کی بھی پوجا کی جاتی تھی۔ وارونا اور مِتھرا کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ تھا کہ انسانوں کے دلوں کے حال اور ان کے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور وارونا اور مِتھرا ہر چیز سے واقف ہیں۔ ‘‘

(ہسٹری آف پرشیا۔جِلد اوّل۔ ص100)

اس مظاہر پرستی کے دَور میں زَردُشت کا ظہور ہوا۔ زردُشت نے خدائے وحدہٗ لاشریک پر ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دی۔ لوگوں نے زَردُشت کی تعلیمات کو قبول کرلیا۔ زَردُشت ایک خدا، فرشتوں ، اﷲ کے منتخب بندوں ، الہام ، جنت اوردوزخ پر ایمان رکھتا تھا۔

اسلام سے قبل کے دیگر مذاہب کی تعلیمات تحریف سے پاک نہ رہ سکیں اسی طرح زمانے کے حالات نے زَردُشتی تعلیمات کو بھی خالص نہ رہنے دیا اور جو تعلیمات آج زردُشت سے موسوم کی جاتی ہیں یہ تحریف شدہ ہیں۔ زَردُشت کی وفات کے بعد لوگ واپس مظاہر پرستی کا شکار ہو گئے۔ دو خداؤں کو ماننے لگے۔

۱۔ یَزدان: خیر اور بھلائی کا خدا                  ۲۔ اِہرمَن: شر اور بدی کا خدا

اس بارے میں قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’دو خدا نہ بناؤ۔خدا تو ایک ہی ہے۔‘‘
(سورۃ النحل ۔ آیت 51)

سیاسی حالات

ساسانی بادشاہ اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ان کی رعایا انہیں خدا سمجھے۔ بادشاہ کو یہ اختیار تھا کہ جس کے بارے میں چاہتا مقدمہ چلائے بغیر اس کے لئے موت کی سزا کا حکم سنا دیتا بلکہ بادشاہ کی ماں اور اس کی بڑی ملکہ کو بھی یہ اختیارات حاصل تھے کہ وہ جس کو چاہیں موت کے گھاٹ اتار دیں۔ بادشاہ کی قوت کا دارومدار عسکری قوت پر ہوتا تھا۔ ایران کا ہر شہری جس کی عمر پندرہ سال اور پچاس سال کے درمیان ہوتی اس پر لازم تھا کہ وہ فوجی خدمات ادا کرے۔ آمرانہ ملوکیت کا یہ نتیجہ تھا کہ بادشاہوں کو اپنی حفاظت کیلئے خصوصی انتظامات کرنے پڑتے تھے جب وہ دربار عام میں شرکت کیلئے جاتے تو اس وقت بھی کوشش کی جاتی تھی کہ کوئی بادشاہ کے قریب نہ آ سکے۔

پروفیسر آرتھر لکھتے ہیں:
’’شاہی تخت ہال کے سِرے پر پردے کے پیچھے رکھا جاتا تھا۔ اراکینِ سلطنت اور حکومت کے اعلیٰ عہداروں کو پردے سے مقررہ فاصلے پر بٹھایا جاتا تھا۔ درباریوں کی جماعت اور دوسرے ممتاز لوگوں کے درمیان ایک جنگلا ہوتا تھا۔ اچانک پردہ اُٹھتا تھا اور شہنشاہ تخت پر بیٹھے، دیبا کے تکئے پر سہارا لگائے، زَربفت کا بیش بہا لباس پہنے جلوہ گر ہوتا تھا۔ تاج، جو سونے اور چاندی کا بنا ہوا اور زمرد، یاقوت اور موتیوں سے مُرصّع تھا، بادشاہ کے سر کے اوپر چھت کے ساتھ سونے کی زنجیر کے ذریعہ سے لٹکا رہتا تھا۔ زنجیر اس قدر باریک تھی کہ جب تک تخت کے بالکل قریب آکر نہ دیکھا جائے نظر نہیں آتی تھی۔ اگر کوئی شخص دور سے دیکھتا تو یہی سمجھتا تھا کہ تاج بادشاہ کے سر پر رکھا ہوا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ اس قدر بھاری تھا کہ کوئی انسانی سر اس کو نہیں اُٹھا سکتا ۔ اس کا وزن ساڑھے اکانوے کلو تھا۔‘‘

(ایران بَعہدِ ساسانیان، ص530)

جو شخص بادشاہ کے حضور حاضر ہوتا تھا اس کو قدیم دستور کے مطابق سجدہ کرنا پڑتا تھا۔ اس شاہانہ جاہ و جلال اور حفاظتی تدابیر کے باوجود بادشاہ اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کرتا تھا۔ اسے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں اس کے دشمن اس کو قتل نہ کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لئے متعدد خواب گاہیں بنائی ہوئی تھیں۔ کسی شخص کو اس بات کا علم نہ ہوتا کہ بادشاہ آج کہاں سو رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ اَردشیر اوّل، خسرو اوّل، خسرو دوم اور کئی دوسرے ساسانی بادشاہوں کے لئے چالیس مختلف جگہوں پر بستر بچھائے جاتے تھے اور اس پر بھی بعض وقت بادشاہ ان میں سے کسی بستر پر نہیں سوتا تھا بلکہ کسی معمولی سے کمرے میں بغیر بستر کے ہاتھ کا سرہانہ بنا کر لیٹتا تھا۔

اخلاقی حالات

معاشرہ مختلف طبقات میں بٹا ہوا تھا۔ ادنیٰ طبقے کے لوگ معاشرہ کے جس طبقہ میں پیدا ہوتے عمر بھر وہ اس طبقے کے ساتھ وابستہ رہنے پر مجبور تھے۔ ان کو اپنا آبائی پیشہ ترک کرنے کی آزادی نہیں تھی۔ سلاطین اور امراء درجہ بہ درجہ رعایا کے خدا اور دیوتا تھے۔ جن کو سجدے کئے جاتے تھے۔ ان کے دربار میں کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کے خلاف کوئی لب کشائی کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ ان کے جرائم پر ان کو سزا نہیں دی جاتی تھی۔ عام طور پر نچلے طبقہ کا کوئی فرد اعلیٰ طبقہ میں منتقل نہیں ہوسکتا تھا لیکن اگر کسی شخص میں کوئی غیر معمولی جوہر ہوتا تو اس کا طرح طرح سے امتحان لیا جاتا اگر وہ ان آزمائشوں میں پورا اترتا تو پھر اس کو اعلیٰ طبقہ میں داخل ہونے کی اجازت مل جاتی تھی۔

معاشی حالات

معاشی لحاظ سے سوسائٹی دو طبقوں میں بٹی ہوئی تھی ایک طبقہ امرا، رؤسا، جاگیرداروں اور فوجی جرنیلوں کا مراعات یافتہ طبقہ تھا۔ ان کے پاس ملک کی ساری دولت سمٹ کر آگئی تھی۔

دوسرا طبقہ عوام کا تھا جن میں کاشت کار، مزدور، دستکار اور دوسرے لوگ تھے۔ ان کے مقدر میں مفلسی اور محرومی لکھ دی گئی تھی۔ وہ صدیوں سے اس چکی میں پس رہے تھے۔

کسانوں کی حالت قابل رحم تھی۔ ان سے ہر طرح کی بیگار اور جبری خدمت لی جاتی تھی، جب فوج جنگ کے لئے کوچ کرتی تو ان بے چارے کسانوں کے بڑے بڑے گروہ ان کے پیچھے گھسٹتے چلے جاتے تاکہ فوجیوں کی خدمت بجا لائیں اور ان کے حکم کی تعمیل کیلئے حاضر رہیں۔ اس پر مزید ستم یہ کہ ان غریبوں کی کسی قسم کی اجرت سے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی۔ قانون غریب طبقہ کی زیادہ حمایت نہیں کرتا تھا۔ اُمراء اپنے زیرِ فرمان کسانوں، غلاموں اور رعایا کی زندگی اور موت کا اپنے آپ کو مالک اورمختار سمجھتے تھے۔ نِت نئے ٹیکس کاشت کاروں پر لگائے جاتے تھے جنہوں نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔ اس لیے بہت سے کاشتکاروں نے زراعت کا پیشہ ترک کردیا تھا۔

اگرچہ فوج میں بھرتی ہونے سے ٹیکسوں کا بوجھ کم ہوجاتا تھا لیکن انہیں بےمقصد اور خون ریز جنگوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لوگ ناجائز طریقے سے روپیہ کمانے کی بیماری کا بری طرح سے شکار ہو گئے تھے۔ اس طرح جرائم بے پناہ بڑھ گئے تھے۔

نت نئے ٹیکسوں سے سرکاری خزانہ میں جو دولت جمع ہوتی اس میں سے بہت کم حصہ عوام النّاس کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ کیا جاتا تھا۔ جو حکمران آئین سے آگاہ تھے وہ ملک میں سڑکیں بنانے، دریاؤں پر پل تعمیر کرنے، زیر کاشت زمینوں کو آبپاش کرنے کیلئے دریاؤں سے نہریں نکالنے اور بند تعمیر کرنے کی طرف توجہ دیتے تھے۔

لیکن بہت کم ایسے حکمران تھے جو ملکی آمدنی کو رفاہِ عامہ پر خرچ کرتے تھے۔ بادشاہ کا اپنا ذاتی خزانہ ہوتا تھا جس میں قیمتی اشیا جمع کی جاتیں تھیں۔ غنیمت کاسارا مال بادشاہ کی ذاتی ملکیت شمار ہوتا تھا۔ وسیع و عریض جاگیریں بادشاہ کی ذاتی ملکیت ہوتیں تھیں، جس سے اس کو بے پناہ آمدنی ہوتی تھی۔

اس بے پناہ آمدنی کے باعث بادشاہوں کی زندگیاں عیش و عشرت سے گزرتی تھیں۔ اُمراء اور رُؤسا کے لباس بے حد قیمتی ہوتے تھے اور اس سے ان کی شان و شوکت کا اندازہ لگایا جاتا تھا ۔ اُمراء کلاہ سر پر پہنتے تھے جس میں قیمتی جواہرات جڑے ہوتے تھے۔


یونان

مذہبی حالات

یونان کی حالت یہ تھی کہ
٭ بے شمار جان داروں اور بےجان چیزوں کو معبود کا درجہ حاصل تھا۔ جن میں پتھر، درخت، چوپائے اور پرندے شامل تھے۔ شجر پرستی کو خاص اہمیت حاصل تھی۔

٭ یہ لوگ وہم پرست تھے۔ ارواحِ خبیثہ سے محفوظ رہنے کے خیال سے ٹہنیاں سر پر لپیٹ لی جاتی تھیں۔ عبادت کی ادائیگی کے وقت ان درختوں کی پتیوں سے بنا ہوا ہار خاص طور پر گلے میں ڈال لیا جاتا تھا۔ جس سے پہننے والا نہ صرف محفوظ ہوجاتا بلکہ مقدس بھی بن جاتا تھا۔ قدیم یونانی جانوروں کی پرستش میں بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔ ہر دیوتا کے ساتھ ایک جانور مخصوص کیا جاتا تھا۔

٭مرنے کے بعد بادشاہ کی روح کی پرستش کی جاتی تھی۔ اس کے متعلق عقیدہ تھا کہ وہ اس علاقے یا قبیلے کا اب بھی ویسے ہی حکمران ہے جس طرح وہ اپنی زندگی میں تھا۔

٭ عبادت گاہوں میں عورتوں، غلاموں اور اجنبیوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ اس کے اندر صرف پَروہِت (پجاری) داخل ہوسکتے تھے۔

٭یونان کے ایک شہر میں بت خانہ تھاجس کو (Oracle Of Delphi) کہتے تھے۔ یہاں ایک بت کے خول میں پجاری بیٹھ کر لوگوں کے سوالوں کے جوابات اور مستقبل کی پیشین گوئیاں کرتا تھا اور لوگ اس کو غیب کی آواز سمجھتے تھے۔

سیاسی حالات

ہومر کے دور (Homeric Era) کے بعد اُمراء کے طبقہ نے تدریجاً بادشاہوں کے اختیارات حاصل کر لئے۔ بادشاہ یا تو ناپید ہوگئے یا برائے نام رہ گئے۔ اس لئے پرانی بادشاہی کی جگہ حکومتِ عَدیدہ (Oligarchy) عالی گارچی نے لے لی۔

ساتویں صدی قبل مسیح تک اُمراء کے خلاف قرضوں سے دبے ہوئے کسانوں اور نئے تجارتی طبقوں نے حملے شروع کردیئے حکومتِ عَدیدہ کے ذمہ دار ارکان عموماً عسکری اہلیت سے بے بہرہ تھے۔ وہ جنگوں میں شہروں کی حفاظت سے قاصر رہے۔ اسطرح ہر شہری ریاست میں عدیدی تختہ الٹ دیا گیا۔

اخلاقی حالات

تین طبقوں میں تقسیم معاشرہ
۱۔ بادشاہ …. سیاسی اختیارات کے ساتھ ساتھ اسے سب سے بڑا مذہبی پیشوا ماناجاتا تھا اور وہ اپنے اُمراء کی مدد اور مشوروں سے حکومت کا کاروبار چلاتا تھا۔ بادشاہ اور اس کی ملکہ عام لوگوں کی طرح خود بھی کام کرتے تھے۔ اوڈیسیئس (Odysseus) نامی بادشاہ کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ اپنے کھیتوں میں کام کرتا ہے اور اس نے اپنا پلنگ خود بنایا ہے اوراس کی ملکہ پینیلوپ (Penelope) سوت کاتتی اورکپڑا بنتی ہے۔

۲۔ دوسرا طبقہ اُمراء کا تھا…… ان کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ دیویوں اور دیوتاؤں سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کا نسب زیوس (Zeus) دیوتا سے ملتا ہے جو کوہِ اولمپس (Olympus) کے دیوتاؤں کے خاندان کا حاکمِ اعلیٰ ہے۔ اسی دعویٰ کی بناء پر انہوں نے معاشرہ میں دیگر طبقات اور قبائل پر فوقیت حاصل کر لی تھی۔

۳۔ تیسرا طبقہ عوام کا تھا …. جنہیں جنگوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کا معاشی نظام غارت گری اور بحری قزاقی کے علاوہ تجارت اور کاشت کاری تھا۔ وہ مویشی پالتے اورغلّہ اُگاتے تھے۔خاص کاشت زیتون اور انگور تھے۔ اسلحہ ساز جنگی رَتھ اور جنگ کیلئے اسلحہ تیار کرنے میں ماہر تھے۔

معاشی حالات

یونان میں زرعی زمینوں کی مقدار بہت کم تھی۔ اس لئے خوشحال کسانوں کیلئے یہ ممکن تھا کہ وہ اپنے محدود قطعاتِ اراضی میں کاشت کریں۔ لیکن غریب کسانوں کیلئے کھیتی باڑی کرنا ممکن نہیں تھا۔ وہ دولتمند ہمسایوں سے قرض لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ قرض خواہ گراں شرحِ سود پر انہیں قرضہ دیتے تھے۔ مقروضوں کیلئے قرضوں کی ادائیگی ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ محدود آمدنی میں سے اخراجات پورے کرنا نہایت دشوار عمل تھا۔ جب مقررہ وقت پر قرض ادا نہ کرسکتے تو جائیداد ان سے چھین لی جاتی تھی۔ شخصی آزادی سے بھی انہیں محروم ہونا پڑتا تھا۔ ایسے شخص کو مجبور کیا جاتاکہ قرض خواہ کے باغوں میں مزدوری کرتا رہے۔


روم

مذہبی حالات

قدیم رومیوں کا عقیدہ دیوتا پرستی تھا۔ ان گنت معبود تھے۔ رومی زراعت پیشہ تھے۔ انہوں نے کھیتوں کیلئے دیویاں مقرر کر رکھی تھیں۔ گھریلو معبودوں میں ویسٹا (Vesta) تھی جو آگ کی دیوی کی محافظ سمجھی جاتی تھی۔ اس کی پروہت عورتیں (مذہبی امور کی نگران) ہوا کرتی تھیں۔ جن کو ’’ویسٹا کی کنواریاں‘‘ کہا جاتا تھا۔ ان کا کام یہ تھا کہ ہر وقت آگ روشن رکھیں۔ روم میں ایک بڑا آتش کدہ تھا جہاں کبھی آگ نہیں بجھتی تھی۔ روم میں بھی یونان کی طرح بادشاہ پرستی، ارواح پرستی عام تھی۔ مذہبی رہنماؤں نے ہر خاص و عام کو یہ اجازت دے دی تھی کہ وہ جو چاہیں گناہ کریں اس کے بعد پادری صاحب سے معافی نامہ لے کر اس گناہ سے بری الذّمہ ہو جائیں۔ ایک مذہبی فرقے کے نزدیک دین داری کا سب سے اہم جُزو رہبانیت تھی۔ ہر قسم کے آرام و آسائش سے جسم کو محروم کر کے ہر قسم کی تکلیف و عذاب میں خود کو تمام عمر مبتلا رکھنا بہترین عبادت تھی۔ کسی نے تمام عمر غسل نہ کرنے کی قسم کھا لی تھی، کوئی خود کو بوجھل زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھا، کسی نے سایہ میں بیٹھنے کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، کسی نے خود کو اندھیری کوٹھڑی میں بند کرلیا تھا۔ ماں باپ، عزیز و اقارب اور اہل و عیال دینداری کی راہ کے کانٹے تھے، ان سے نفرت کمالِ تقویٰ سمجھا جاتا تھا ۔

اخلاقی حالات

سلطنت روم کی آبادی معاشرتی طور پر دو طبقات میں تقسیم تھی۔ ایک طبقہ اُمراء کا اور دوسرا طبقہ عوام کاتھا۔ اُمراء خوشحال تھے اور ان کے پاس بڑی بڑی جائیدادیں تھیں۔
آبادی کی بہت بڑی اکثریت کا تعلق عوام سے تھا۔ وہ لوگ صرف جزوی حیثیت سے شہری تھے۔ حکومت نے جمہوریت اور شہنشاہیت کے زمانہ میں درسگاہوں کی کبھی سرپرستی نہیں کی۔ چنانچہ اس وقت کی درس گاہوں میں تعلیمی اخراجات بہت زیادہ تھے۔ وہی بچے درس گاہوں میں تحصیلِ علم کیلئے داخل ہوسکتے تھے جن میں تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت تھی۔

خوشحال رومی عیش و راحت کی زندگی بسر کیا کرتے تھے وہ دیہات میں اپنے لیے بنگلے تعمیر کرتے۔ ان کے کھانے پینے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ چنانچہ وہ ایک مرتبہ کھانا کھا کر عمداً قے کر کہ پیٹ خالی کر دیتے تا کہ دوسری مرتبہ لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ کسانوں کیلئے آرام کے سامان نہ ہونے کے برابر تھے۔ بیروزگاری عام تھی اورحکومت نے کبھی اس سنگین مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دی تھی ۔ چنانچہ نصف سے زیادہ آبادی خیرات پر گزر اوقات کرتی تھی۔

معاشی حالات

روم کا اقتصادی نظام مخلوط قسم کا تھا۔ اس میں نجی کاروبار کی اجازت بھی تھی اور اس میں بعض صنعتوں کو حکومت نے اپنی ملکیت میں لے لیا تھا۔ جاگیریں وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی تھیں اور کاشتکار مجبوراً بڑے زمینداروں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے قحط سالی یا طغیانی کی وجہ سے ان کی زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی تھی، لیکن ٹیکسوں کا بوجھ جوں کا توں ان پر باقی رہتا تھا۔ پے در پے جنگوں کی وجہ سے عام کاشتکار روز افزوں ٹیکسوں کے بوجھ کو برداشت کرنے سے قاصر تھے۔ صنعتی کارخانوں میں مزدوری کرنے والے لوگ آزاد تھے۔ حکومت اپنے کارخانوں میں زیادہ تر ایسی چیزیں بناتی جن کی فوج کو، افسر شاہی کو اور اہل دربار کو ضرورت ہوتی۔
ملک روم کی معدنی دولت حکومت کی ملکیت تھی۔ لیکن پرائیویٹ ادارے کانوں کو حکومت سے کرایہ پر لیتے تھے۔ ریشمی پارچہ جات اور اَرغوانی رنگوں کی ساخت صرف حکومت کے تصرّف میں تھی۔ ان کے کارخانے شاہی محلات کے اندر ہوتے۔ سب سے زیادہ قیمتی ریشمی کپڑا شاہی خاندان کے افراد کیلئے مختص تھا۔


مصر

مذہبی حالات

مصر میں دیوتاؤں اور دیویوں کی فوج موجود تھی اور ان دیوتاؤں اور دیویوں کے پجاری بھی مختلف تھے۔ اس میں جانوروں کے سر رکھنے والے دیوتاؤں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ مطالعہ مصریات سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم مصر کا جاہل طبقہ ان دیوتاؤں کا معتقد تھا لیکن تعلیم یافتہ طبقہ ان دیوتاؤں کی پرستش نہیں کرتا تھا۔ مصری ابتدا سے حیات بعد الموت کے قائل تھے ان کایہ عقیدہ تھاکہ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کیا جاتاہے اوراس کو اس کے اعمال کے مطابق جز ا اورسزا دی جاتی ہے۔ اس عقیدے کے پیش نظر ان کے یہاں مردوں کی تدفین وتکفین کے بارے میں بڑی عجیب وغریب رسمیں تھیں ۔وہ ان کی قبروں میں اورچیزوں کے علاوہ کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھ دیاکرتے تھے اورجب ان کاکوئی بادشاہ مرتاتو اس کیلئے پہاڑکاٹ کر وسیع وعریض مدفن تیارکیاجاتاجوکئی کمروں پر مشتمل ہوتاتھا۔اس میں داخلے کیلئے پہاڑی کاٹ کر وسیع وعریض راستہ بنایا جاتاجوچھ سات فٹ چوڑااورچھ سات فٹ اونچا دور تک پہاڑی میں چلاجاتا تھا۔ اس سے آگے کمرہ کے برابر ایک گڑھاکھود دیاجاتاپھر اس سے آگے ایک دوسرا کمرہ ہوتا ۔ جس میں شاہی تابوت رکھاجاتا۔جس میں بادشاہ کی حنوط شدہ ممی(لاش) رکھی ہوتی ، اس کے دائیں بائیں دوکمرے ہوتے جن میں بادشاہ کی ضرورت کاسامان شاہانہ انداز سے رکھ دیاجاتا ۔سونے کے زیورات ، سونے کا تخت ،سنہری کرسی اوردیگر قیمتی اشیا کے علاوہ کئی برتنوں میں کھانے پینے کی چیزیں رکھ دی جاتیں، پانی سے بھرے ہوئے کئی مٹکے بھی رکھ دئے جاتے تھے۔ ماہرین آثارقدیمہ نے جو مقبرے دریافت کیے ہیں اور انکی کھدائی کی ہے وہاں سے یہ ساری چیزیں دستیاب ہوئی ہیں ۔جن میں سے کئی چیزیں مصر کے عجائب گھر میں موجود ہیں ۔

ان کا عقیدہ یہ تھاکہ دفن کرنے کے بعدبادشاہ دوبارہ زندہ ہوجائے گااور اس کو اس دنیاکی زندگی کی طرح خدام اور خادماؤں کی بھی ضرورت پڑے گی ،اس لیے خادموں اورخادماؤں کی ایک جماعت اس کمرے میں کھڑی کردی جاتی اوردروازہ بند کردیاجاتااس کے سامنے مٹی اورریت کااس طرح ڈھیرلگا دیا جاتا کہ کسی کوپتہ نہ چلے کہ یہاں کوئی بادشاہ اپنے زیورات، اجناس اور خدام کے ساتھ مدفون ہے۔ بادشاہ کی میت پر تو جو گزرتی ہوگی وہ گزرتی ہوگی، لیکن ان زندہ خدام اورخادماؤں پر جو گزرتی ہوگی اس کا تصور کرکے ہی لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔

سیاسی حالات

مصری معاشرہ میں سب سے اعلیٰ طبقہ مذہبی پیشواؤں اور امرا کا تھا جو تعداد میں بہت کم تھا۔ لیکن اختیارات اور اثر و نفوذ میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ ان کے خدام لاکھوں تھے۔ زمین فرعون کی ملکیت تھی۔ عمرانی نظام کا یہ اصول مسلم تھا کہ ہرشخص اوپر سے آئے ہوئے ہر حکم کی پابندی کرے۔ صرف سیاسی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ وہ اسے ایک مذہبی فریضہ بھی سمجھے۔ جو کام کسی کے سپرد کیا جائے اور جہاں کسی کو متعین کردیا جائے اسے چاہیئے کہ وفاداری سے اپنے فرض کو بجا لائے۔

اخلاقی حالات

قدیم مصر میں بادشاہ کو دیوتا تصور کیا جاتا تھا اور اس طرح اس کیلئے آداب پرستش بجا لائے جاتے تھے۔ بادشاہ ہی بڑے خداؤں کے سامنے اپنی رعایا کی نمائندگی کرتا ان کی طرف سے قربانیاں پیش کرتا تھا اور مذہبی تقریبات میں صدارت کے فرائض انجام دیتا تھا۔ بادشاہ کے تعلقات مذہبی پیشواؤں کے ساتھ عام طورپور دوستانہ ہوتے تھے لیکن جب کبھی کوئی کمزور بادشاہ تخت نشین ہوتا تو مذہبی پیشوا اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکے شاہی اختیارات سنبھال لیتے تھے۔

ایرانیوں کی طرح قدیم مصر میں بھی بادشاہ کے متعلق یہی عقیدہ تھا کہ یہ خدائی خاندان کا ایک فردہے اور خود خدا نے ہی اس کویہ حکومت اور سلطنت بخشی ہے۔

بادشاہ کو حسب ِ ضرورت مشورہ دینے کے لئے علما و فضلا اور سن رسیدہ تجربہ کار لوگوں کی ایک مجلس مشاورت موجود ہوتی تھی لیکن بادشاہ ان کے مشورے اور فیصلہ کا پابند نہیں تھا۔

معاشی حالات

مصر معاشی لحاظ سے بہت خوشحال تھا۔ مصر میں دریائے نیل کا پانی زراعت کیلئے ازحد مفید ہے۔ ریگستان کا جو حصہ اس دریا کے پانی سے سیراب ہوتا ہے وہ قلیل مدت میں سرسبز و شاداب کھیتوں لالہ زاروں اور مرغزاروں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ رومیوں نے اسے تیس سال قبل مسیح میں فتح کیا اور ۶۴۰ء تک اس پر حکمران رہے۔ مصر کی آزادی کا اختتام اس کیلئے موت کا پیغام تھا۔ رومیوں نے مصریوں کو غلام بنالیاتھا۔ غلامی کے بعد اس کی معاشی حالت میں انحطاط اور زوال رونما ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ ملک کی تمام دولت پررومی قابض ہوگئے۔ روم کو سامان خورد و نوش پہنچانے کیلئے یہاں کے غلے پر ٹیکس لگایا گیا اور خزانے میں سونے چاندی پراضافی ٹیکس لگایا گیا۔ تین چار صدیوں میں مصر کی مالی حالت اتنی دگرگوں ہوگئی کہ ٹکسال میں سکے بننا بند ہوگئے اور لوگ جنس کے بدلے جنس فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔


ہندوستان

مذہبی حالات

مؤرخین کاکہنا ہے کہ قدیم ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ تاریک دور تقریباً 500ء سے شروع ہوتا ہے، اس دور کی نمایاں خصوصیات حسب ذیل تھیں:

٭     شرک جو ابتدا ہی سے ہندوستان کے خمیر میں داخل تھا، اب وہ حد اعتدال سے باہرہوگیا چنانچہ وید میں جو 33 دیوتاؤں کی تعداد تھی وہ                    بڑھتے بڑھتے کروڑوں دیوتاؤں تک پہنچ گئی۔

٭     ویدک عہد میں مندروں کے اندر بت پرستی عام رائج تھی۔

٭     مندروں کے محافظین بد اخلاقی کے سرچشمے تھے جو لاکھوں کروڑوں ناواقف پرستش کرنے والوں کو مذہب کے نام پر لوٹ لیتے تھے۔

٭     خدا کی تلاش جنگلوں اور پہاڑوں میں کی جاتی تھی، جسم کو سخت سے سخت ایذا اور تکلیف دینا انکی بہترین عبادت تھی۔

٭     فاسدخیالات، بھوت پریت اور سینکڑوں قسم کے اوہام ان کا مذہب تھا ۔

سیاسی حالات

جب آریوں نے ہندوستان پرقبضہ کیا تو جو قبیلہ جہاں آباد ہوتا گیا قبائلی نظام کے مطابق وہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوگئیں، اس لیے آریوں کے ابتدائی عہد میں ہمیں ہندوستان کاملک ان گنت چھوٹی چھوٹی ریاستو ں میں بٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ہر قبیلہ کا سردار ان کارا جا ہوتا تھا۔ اس کو مشورہ دینے کیلئے قبیلے کے بزرگوں کی ایک کونسل تشکیل دی جاتی تھی اور راجا فرائض جہاں بانی انجام دینے میں ان سے مدد لیا کرتا تھا۔ اس کے باوجود راجا مختار مطلق تھا۔ اس کا حق یہ تھا کہ وہ جس طرح چاہے رعایا سے ٹیکس وصول کرے۔ لیکن اس کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اپنی قوم یا قبیلہ کے سامنے کوئی تفصیلی رپورٹ پیش کرے کہ اس نے ان کے ادا کردہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم کہاں کہاں خرچ کی ہے،کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا بھی حق نہیں تھا۔

ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں باہمی چھیڑچھاڑ ہوتی رہتی تھی جو بسا اوقات قومی جنگ میں تبدیل ہوجاتی تھی۔ خون کے دریا بہتے۔ گاؤ ں اور قصبوں کو نذر آتش کردیا جاتا تھا۔ذات پات کے نظام نے ہندؤوں میں ایک قو میت کے تصور کوبھی پنپنے نہیں دیاتھا۔

جن خداؤ ں کی وہ پوجا کرتے تھے ان میں بھی یگانگت نہیں تھی۔ ہر گاؤں کا علیحدہ دیوتا ہوتا اور گاؤں والوں کی ہر ضرورت پوری کرنے کیلئے علیحدہ علیحدہ بت تھے۔ان بے شمار اختلافات نے ہندوستان کوایک ملک یا ایک مملکت اور اس کے باشندو ں کو ایک قوم بننے نہیں دیا۔

اخلاقی حالات

اہلیان ہند کو چار طبقات میں تقسیم کردیا گیا تھا۔

۱۔ برہمن        ۲۔ کشتری       ۳۔ویش         ۴۔شودر

تمام طبقات کی درجہ بندی کردی گئی اور تفصیل سے ہر طبقہ کے فرائض بیان کردیئے گئے تھے اور اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے سزائیں بھی مقرر کردی گئیں ۔ آئین کے مطابق شودروں کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ ایسا اجتماع جس میں چھوـٹے طبقے کا کوئی فرد موجود ہو وہاں برہمن کو جانے کی اجازت نہیں تھی کہ وہ مقدس کتابوں کی تلاوت کرے ۔ نہ شودروں کو اس بات کی اجاز ت تھی کہ وہ ان کنووں سے پانی بھر سکیں جن سے اونچی ذات کے ہندوپانی بھرتے تھے۔ وہ عام شہروں میں نہیں رہ سکتے تھے بلکہ شہروں سے الگ ان کی مخصوص آبادیاں ہوتی تھیں۔ شودروں کے نام سے ایک پوری قوم ایسی غلامی میں مبتلا تھی کہ دین و ایمان تعلیم و تربیت اور تہذیب و اخلاق ہر چیز سے محروم رہنا ان کا مقدر بنا دیا گیا تھا۔ وید کی آواز بھی ان کے کانوں میں پڑ جائے تو ان میں سیسہ پگھلا کر ڈال دینے کا حکم تھا۔ راجاؤں کی بیویوں کی کوئی تعداد قانوناً مقرر نہ تھی۔ قانون کی بنیاد مساوات انسانی پرنہیں بلکہ ذاتوں پر تھی۔ عورتیں فروخت کی جاتی تھیں۔

معاشی حالات

آریاؤں نے ہندوستان میں آباد ہونے کے بعد زراعت کو اپنا پیشہ بنالیا تھا ۔ پنجاب کے زرخیز میدان گنگا اور جمنا کے درمیان کا زرخیز علاقہ ان کے تسلط میں تھا جہاں وہ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ضرورت کے مطابق اجناس خوردنی کی کاشت کرتے تھے اوراناج سے اپنی ضروریات پوری کرتے تھے۔اس وقت عالی شان محلات اور بڑے بڑے شہروں کو آباد کرنے کا رواج عام نہیں تھا۔لوگ کچے مکان یا سر کنڈے کی جھونپڑیاں بناکر گاؤں میں زندگی بسر کرتے تھے۔


چین

مذہبی حالات

چین میں شانگ خاندان کے لوگ مختلف مظاہر فطرت کی پوجاکرتے تھے۔ زمین، دریا، ہوائیں، مشرق و مغرب وغیرہ ان کے معبود تھے۔ شانگ اگرچہ مہذب اورمتمدن تھے لیکن انکے یہاں اپنے دیوتاؤں کی قربان گاہوں پر انسانی قربانی کا رواج تھا اور عموماً جنگی قیدیوں کو بھینٹ چڑھایا جاتاتھا۔ بعض اوقات فوجی مہمیں صرف اس مقصدکیلئے بیرونِ ملک بھیجی جاتیں کہ وہ غیر چینیوں کو قید کر کے لے آئیں تا کہ ا ن کو قربانی کے طور پر انکے معبودوں کیلئے ذبح کیا جائے۔

وہ صرف ایسے دیوتاؤں کی پوجا کیا کرتے تھے جن کا تعلق ان کے خیال کے مطابق بروقت بارش برسانے، عمدہ فصلیں اگانے اور جنگوں میں دشمن کو شکست دینے سے ہو۔ چین کے عوام بھی میت کے ساتھ قیمتی اشیاء کو دفن کیا کرتے تھے۔مالی لحاظ سے کمزور لوگ بھی اپنی استطاعت کے مطابق اس رواج کے پابندتھے۔

سیاسی حالات

چین میں تاج و تخت شاہی خاندان میں موروثی ہوتا تھا۔ لیکن بادشاہ کے بعد اس کا بیٹا تخت نشین نہیں ہوتاتھا بلکہ اس کے بھائی کو تاج شاہی پہنایا جاتا تھا۔ بادشاہ کی اہم ذمہ داریوں میں فو ج کی قیادت تھی۔ وہی ملک کی افواج کا کمانڈر انچیف ہوتاتھا۔ مذہبی رسومات اور دیگر تقریبات بھی بادشاہ ہی سرانجام دیتا تھا۔ پروہتوں کی ایک تعلیم یافتہ جماعت اس سلسلے میں اس کی مدد کرتی تھی۔ پروہت علم نجوم کے ماہر ہوتے تھے۔ مذہبی رسومات ادا کرنے کیلئے بادشاہ کی اعانت اور رہنمائی کرتے تھے۔

اخلاقی حالات

یہ ملک جتنا وسیع ہے اتنی ہی اس کی ثقافت اور تہذیب قدیم ہے۔اہل چین کی سائنسی ایجادات شروع سے ہی بڑی حیرت انگیز ہیں اور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جب دنیا کے اکثر ممالک جہالت اور ناخواندگی کے اندھیروں میں لپٹے ہوئے تھے اس وقت بھی چین میں علم کی شمع روشن تھیں۔چینوں نے کوئلہ کو بطور ایندھن استعمال کرنا شروع کیا۔دوسری صدی عیسوی میں انہوں نے درختوں کی چھال اور سن کے ریشوں سے کاغذبنانے کی صنعت ایجاد کی ۔چوتھی صدی عیسوی میں انہوں نے لوہے کو پگھلانے کے فن میں مہارت حاصل کرلی ۔

چینی معاشرہ کے لوگ صرف ایک شادی کرتے لیکن بادشاہ اور امرا کے حرم میں متعدد بیویاں ہوتیں تھیں ان پر کوئی پابندی نہ تھی۔ اعلیٰ خاندان میں عورتوں کو عزت اور وقار حاصل تھا۔ غلامی کا رواج تھا اور معاشرہ متعدد طبقات میں بٹا ہوا تھا۔

معاشی حالت

اگرچہ سائنسی انکشافات اور صنعتی ایجادات میں ان کے علما و فضلا نے عظیم الشان کارنامے انجام دیئے لیکن ان کی معیشت کا دار و مدار زراعت پر تھا۔ ان کی زراعت کے طریقے بہت پرانے تھے ان کے کھیتی باڑی کے آلات بھی قدیم طرز کے تھے۔ وہا ں گندم، باجرہ، چاول کی کاشت ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ لوگ مویشی پالتے تھے۔ ان کا دودھ اور گوشت خوراک کے کام آتا۔ تیر اور کمان ان کے بہترین ہتھیارتھے۔ حالت جنگ میں ان ہتھیاروں سے وہ دشمن کا مقابلہ کرتے تھے اور حالت امن میں انہی ہتھیاروں سے شکار کرتے تھے۔


عرب

مذہبی حالات

عرب میں اسلام سے قبل مختلف مذاہب تھے ۔

٭…… کچھ لوگ اﷲ تعالیٰ کو مانتے تھے لیکن اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے تھے۔

’’ اور جو تم ان سے پوچھو کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو بول اٹھیں گے کہ خدا نے ، تم کہو کہ خدا کا شکر ہے۔ ‘‘

(سورۃ لقمان۔ آیت 25)

٭…… کچھ لوگ اﷲ تعالیٰ کے قائل تھے لیکن قیامت، جزا اور سزا کے منکر تھے۔ قرآن کریم نے قیامت کے ثبوت کے بارے میں فرمایا ہے:

’’کہہ دو کہ وہی دوبارہ زندہ کرے گا جس نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا۔‘‘

(سورۃیٰسین۔آیت 79)

٭…… کچھ لوگ جزا اور سزا کومانتے تھے لیکن نبوت کے منکر تھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

’’کہتے ہیں یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا ہے پیتا ہے اور بازار میں چلتا پھرتا ہے۔ ‘‘

(سورۃ الفرقان ۔ آیت 7)

عرب میں زیادہ تر تعداد بت پرستوں کی تھی۔ اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے لوگ بھی عرب میں آباد تھے۔

۱۔ بت پرست            ۲۔ عیسائیت              ۳ ۔یہودیت

۴ ۔ صابئین             ۵۔ آتش پرست                  ۶۔ حنفیت۔

۱۔ اہلِ عرب کی اکثریت بت پرست تھی۔ جن خداؤں کو یہ لوگ مانتے تھے ان کے بُت بنالئے تھے اور جابجا عظیم الشان بت کدے قائم ہوگئے تھے۔ یہ رواج اس قدر عام ہوگیا تھا کہ جہاں خوب صورت پتھر مل گیا، اُٹھا لیا اور اس کی پرستش شروع کردی۔ جہاں کوئی پتھر نہ ملا،مٹی کا ایک تودہ بنالیا۔ ایک بکری لاکر اس کا دودھ اس پر ڈالا، پھر اس کے گرد طواف کیا اور یوں وہ ایک معبود بن جاتا تھا۔ عقل میں فتور نے عام و خاص کو بُت پرستی میں مبتلا کردیا تھا۔

ان کے بتوں پر کتے پیشاب کردیتے تھے۔ ان پر مکھیاں بھنبھناتی تھیں۔ شرک کا غلبہ اتنا زیادہ تھا کہ مشرکین یہ نہیں سوچتے تھے کہ جس کی عبادت کرتے ہیں اس میں اتنی طاقت نہیں کہ اپنے اوپر سے مکھی اُڑادے۔ خانہ کعبہ اور اس کے اطراف میں تین سو ساٹھ (360) بت تھے۔

۲۔ قبل از اسلام عرب کے بہت سے علاقوں میں عیسائی مذہب رائج تھا۔ بنوقضاء کا تعلق عیسائیت سے تھا۔ اس کے علاوہ قبیلہ غسان اور ربیعہ بھی عیسائیت کے ماننے والے تھے۔ قبیلہ طے کا رئیس حاتم طائی بھی عیسائی تھا۔ نجران کے لوگ بھی عیسائی تھے۔

۳۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں بخت نصر نے جب یہودیوں کو نیست نابود کرنا چاہا تو یہودی عرب چلے آئے۔ بنو حرث بن کعب۔ بنو کنانہ۔ حمیر۔ کندہ یہودی قبیلے تھے۔ خیبر کے لوگ بھی یہودیت میں داخل ہوگئے تھے۔ یثرب میں بنو نضیر۔ بنو قینقاع اور بنو قریظہ۔ یہودی قبائل تھے۔

۴۔ سید سلیمان ندویؒ نے ارض القرآن جلد دوم میں بیان کیا ہے کہ صائبین کا اصل مولد بابل تھا۔ ستاروں اور بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ ان کا قبلہ قطب شمالی تھا۔ صائبین میں روزوں کے دن مقرر تھے۔ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ جو مصری فرعون کے ساتھ ڈوبنے سے بچ گئے وہ قطب شمالی کی جنت میں آرام کررہے ہیں۔ صائبین حضرت یحییٰ ؑ کو سچا نبی مانتے تھے۔

۵۔ آتش پرست ایران سے ہجرت کرکے عرب کی مشرقی سرحدوں اور یمن میں آباد ہوگئے تھے۔ آگ کی پوجا کرتے تھے۔ آگ کو خدا کا نور اور نیکی کی علامت سمجھتے تھے۔

۶۔ قبل از اسلام کچھ لوگ سلیم الفطرت بھی تھے جو یہ جانتے تھے کہ عرب میں جہالت اور بدی نے دین کی حقیقت کو چھپا رکھا ہے۔ یہ لوگ دینِ حنیف پر قائم تھے۔ حنیف کا لفظ حضرت ابراہیم ؑکے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لوگ فطرتاً بدی اور برائی سے ہمیشہ دور رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ لوگ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کی تلاش میں رہتے تھے اور توحید کے ماننے والے تھے۔ ان کی تعداد بہت کم تھی۔ توہم پرستی اور بت پرستی سے اکتا کر حق کی تلاش میں رہتے اور اپنے آپ کو عبادت میں مصروف رکھتے تھے ۔

سیاسی حالات

قبل از اسلام عرب کی سیاسی حالت بہت خراب تھی۔ عرب میں کوئی باضابطہ حکومت نہیں تھی۔ یہاں کے لوگ مختلف قبائل میں تقسیم تھے۔ کوئی بھی ان پر حکومت کرنے کو تیار نہیں تھا ۔ کیونکہ یہاں پر زیادہ تر حصہ ریگستان اور صحرا پر مشتمل تھا۔ کوئی روزگار نہیں تھا۔ کوئی پیداوار نہیں تھی۔ باقاعدہ آبادیاں نہیں تھیں۔ کوئی باقاعدہ حکومت قائم نہیں تھی۔ اس لئے کسی فاتح نے اس کو فتح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر کسی نے حملہ کیا بھی تو ان کو شکست دیتے ہوئے آگے نکل گیا یہاں پر اپنی حکومت قائم نہیں کی۔ اسی لئے عرب کے لوگ فطرتاً آزاد تھے اور کسی کے زیر اثر رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔

اخلاقی حالات

عرب میں قبل از اسلام ہر وقت جنگ و جدل کا بازار گرم رہتاتھا۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑنا اور ایک دوسرے کو قتل کردینا سر کاٹ لینا، ان کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے اور ہر خاندان دوسرے خاندان سے برسرِ پیکار تھا۔ ہر بچہ اپنے باپ اور عزیزوں کے قاتل سے انتقام لینے کے جذبہ میں پرورش پاتا تھا۔

جوان ہوکر اس مقدس فرض کو انجام دیتا تھا اور اس طرح ایک لڑائی کا سلسلہ برسوں تک قائم رہتا تھا۔ ان ہی لڑائیوں کو مؤرخین اور اہل ادب ایام العرب کہتے ہیں جن کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے۔ان لڑائیوں میں بے رحمی اور سفاکی کی حالت یہ تھی کہ جب ایک گروہ دوسرے گروہ پر قبضہ کر لیتاتو اسکے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرلیتا اورسب کو قتل کردیتا۔عربوں میں جوئے کا بھی عام رواج ہوگیا تھا، اس کی کئی صورتیں تھیں۔ عرب کے مال و دولت کا تمام تر سرمایہ اونٹوں اور بکریوں کی تجارت تک محدود تھا۔ بعض اوقات کسی شرط پر بازی ہار جانے پر لوگ مال و دولت کے بعد گھر کی خواتین اور بچوں پر بازی لگا دیتے تھے۔ یہ قمار بازی اکثر مار پیٹ اور لڑائی پر ختم ہوتی تھی۔ سود خوری کا عام رواج تھا۔ تمام دولتمند سود کا لین دین کرتے تھے۔ عربوں میں لوٹ مار کا عام رواج تھا۔ بعض قبائل نے راہزنی کو اپنا ذریعۂ معاش اور عام مشغلہ بنا لیا تھا۔ تاجروں اور سوداگروں کے قافلے بغیر کسی بھاری انعام کے کسی میدان سے بسلامت گزر نہیں سکتے تھے۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کی عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت کردیتا تھا اورمویشیوں کو ہانک کر لے جاتا تھا۔مراعات یا فتہ طبقے میں کوئی صاحب اگر اس الزام میں پکڑے جاتے تو وہ چھوڑ دیے جاتے تھے۔

عورتوں کووراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا، ایک مرد جتنی عورتوں سے شادی کرنا چاہتا تو اس پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ جس عورت کو جس وقت چاہتا بغیر وجہ کے چھوڑ دیتا تھا۔دوحقیقی بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرلیتے تھے،عورت جب بیوہ ہوجاتی تو گھر سے باہر ایک نہایت تنگ کوٹھڑی رہنے کو اور خراب سے خراب کپڑے پہننے کودیئے جاتے تھے ۔خوشبواستعمال نہیں کرسکتی تھی۔ جس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی اس کو سخت رنج ہوتا اور شرم کے مارے لوگوں سے چھپتا پھرتاتھا۔

’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تواس کا منہ کالا پڑجاتا ہے اور غصہ کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ اس خوشخبری کے رنج سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ ذلت کے ساتھ اس کو قبول کرے یا زندہ زمین میں دفن کردے۔‘‘

(سورۃ النحل۔ آیت 58تا59)

رفتہ رفتہ دختر کشی کی رسم جاری ہوگئی ،لڑکی پیدا ہوتی تواس کو میدان میں لے جاکر گڑھا کھودتے اورزندہ دفن کردیتے تھے ۔

معاشی حالات

عرب کے شہر میں رہنے والے لوگوں کو حضرمی کہاجاتا تھا اور دیہات میں رہنے والے لوگوں کو بدوی کہاجاتا تھا۔شہری لوگوں کے معاش کا ذریعہ تجارت تھا اور دیہات میں رہنے والے لوگوں کا معاش زراعت اور حیوانات کی پرورش کرنا تھا۔

عرب کے تین طرف بحری سواحل واقع ہیں۔ اس قدرتی جغرافیائی تقسیم کی بدولت عرب کے ہر حصے کو دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کیساتھ تجارتی سہولتیں حاصل ہیں۔ اس وجہ سے اہل عرب نے تجارت کی دنیا میں بڑی شہرت حاصل کی۔ عرب تاجر عام طور پر خوشبودار اشیاء، گرم مصالحہ جات، لوہا، سونا اور دیگر قیمتی جواہرات، چمڑا، کھالیں، زین پوش، گھوڑے، بھیڑ، بکریاں وغیرہ برآمد کیا کرتے تھے۔

ان کی درآمدات میں کپڑا، غلّہ، سامان آرائش، ہتھیار وغیرہ شامل تھے۔

عرب میں وہ مقامات جو سر سبز و شاداب تھے۔ مثلاً یثرب، نجد ، یمامہ خیبر، جذان، طائف ، نجران، ربھا۔ یہاں کاشت ہوتی تھی۔ دوسرے پھلوں کے علاوہ کھجور یہاں کا مشہور پھل تھا۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 19 تا 31

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)