حرفِ چند
مکمل کتاب : باران رحمت
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12535
بِسم اللہ الرحمٰن الرّحیم
اﷲ تبارک و تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ انہوں نے انسانیت کی رہنمائی کے لئے انبیاء کرام ؑ کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے چل کر نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ پر مُنتج (ختم) ہوا۔ قرآن کریم نے ان انبیاء کا مشن یہ بتایا کہ یہ تمام رسول خوش خبری سنانے والے اور خبردار کرنے والے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر قوم اور گروہ یعنی امت کے لئے ایک ہادی یا رسول بنا کر بھیجا۔ ‘‘لِکُلِّ قَومٍ ھَاد’’ کے الفاظ اس بات کی مکمل تصدیق فراہم کرتے ہیں۔ ان انبیاء کا کام اپنے دَور کے بگڑے ہوئے فاسد عقائد کی اصلاح کرنا تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام انبیاء کی تعلیم کا مشن توحید کی تعلیم تھا۔ جب بھی توحیدی تعلیمات پر حرف آنے لگا اﷲ نے اپنے بندے بھیج کر اُن کی اصلاح فرمائی۔
حضور ﷺ کی آمد سے قبل دنیا تاریکی کے گڑھوں میں یعنی قَعرِ مُذِلّت میں گر چکی تھی۔ قرآن مجید کے الفاظ ہیں:
…. وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ….. (آلِ عمران – 103)
تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر اُس نے تم کو بچا لیا۔
حضور ﷺ کی بعثت کو انسانوں کے لئے احسان عظیم کہا گیا ہے۔
فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ …. (آلِ عمران – 164)
یہ اﷲ کا احسان ہے مؤمنین پر کہ اُن پر رسول اﷲ مبعوث ہوئے
اور یہ دعائے خلیل اﷲ اور مسیح علیہ السّلام کی نوید تھی کہ آپؐ مکہ کی وادی میں جلوہ افروز ہوئے۔ قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کے مابین آپ کی پیدائش اس بات کی نوید تھی کہ آپ امّتِ وسط کے امین ہیں …. ایسی امّت کی آبیاری کریں گے جو افراط و تفریط سے پاک ہو گی …. ایسی امت جو قومِ یہود کی افراط اور قومِ مسیح کی تفریط کے مابین اعتدال قائم کرے گی …. جو دنیا پر حکمرانی کرے گی اور لوگوں کو بے شمار مسائل اور اَغلال سے محفوظ رکھے گی۔
حضور ﷺ کی آمد سے قبل معاشرہ کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ پورے کا پورا معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار تھا۔ آپس میں لڑائی جھگڑا معمولی بات تھی۔ عورتیں خصوصی طور پر مشکلات کا شکار تھیں یہاں تک کہ لڑکی کی پیدائش کو بھی عار سمجھا جاتا اور بعض قبائل تو لڑکیوں کو زندہ درگور بھی کر دیتے۔ ایسی سوسائٹی کی اصلاح بہت ضروری تھی چنانچہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضور ﷺ کو مبعوث کیا۔
انہیں کہا گیا کہ وہ نیکی کا حکم دیں، بدی سے روکیں پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کریں۔ اُن سے وہ بوجھ اتاریں جو اُن پر چڑھا ہوا ہے۔ وہ مشکلات آسان کریں جن میں وہ جکڑے ہوئے ہیں۔ اگر لوگ آپ ﷺ کی باتوں کو مان لیں تو وہ فلاح پانے والے ہیں۔
حضور ﷺکی تعلیمات کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ تمام انسانیت کے لئے مبعوث ہوئے یعنی قیامت تک کے انسانوں کے لئے آپ کی تعلیمات روشنی کا مینار ہیں۔ دوسرے الفاظ میں آپ عالمگیر نبی ہیں۔ یعنی قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے پیغمبر ہیں اور آخری نبی ہیں۔ اس طرح آپ کاملیت اور اکملیت کے درجہ پر فائز ہیں اور تاریخ ساز پیغمبر ہیں۔ آپ نے دنیا کی تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ آپ کی شخصیت تاریخی شخصیت کہلاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ کی زندگی کا لمحہ بہ لمحہ ہمارے پاس محفوظ ہے۔ بلکہ آپ ﷺ نے یہ الفاظ ان لوگوں کو بھی کہے جن کو آپ ﷺ نے پیغامِ حق سنایا اور کہا کہ دیکھو میں نے آپ کے درمیان اپنی زندگی گزاری ہے۔ اگر آپ کو پتہ ہے کہ میں نے زندگی میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر انگلی اٹھائی جا سکے تو یہ بات بھی پھر مان لینی چاہئے کہ جو پیغام میں سن رہا ہوں وہ ازلی و ابدی خدا کا پیغام ہے اور یہ پیغام لوگوں کی بھلائی کا پیغام ہے۔
حضور ﷺ کی زندگی کو محفوظ اور آپ کے پیغام کو بھی محفوظ و مامون قرار دیا گیا ہے۔
آپ ﷺ کی سیرت پر بے شمار کتب تحریر کی گئیں۔ ان میں سے ہر کتاب اپنی جگہ ایک اعلیٰ و ارفع مقام رکھتی ہے۔ یہ کتابیں بعض تو ادبی رنگ میں لکھی گئیں، بعض میں رطب و یابَس اور خلافِ عقل باتوں کو بھی سمو دیا گیا۔ بہرحال یہ ایک مُسَلَّمہ امر ہے کہ حضور ﷺ کی شان میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں نے …. جن میں ہندو بھی شامل ہیں …. بہت کچھ لکھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے …. مغربی سیرت نگاروں میں سے ایسے بھی بہت سیرت نگار سامنے آئے جنہوں نے حضور ﷺ کی زندگی پر اعتراضات بھی اٹھائے۔ الحمد ﷲ بےشمار مسلمانوں نے آپ کی زندگی پر لگائے گئے الزامات کا مدلّل جواب دیا جس کے بعد وہ عقل کے اندھے بےبس نظر آئے۔ ’’فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ‘‘ کی تصویر بنے۔
فنِ حدیث کی طرح فنِ سیرت نگاری بھی روایت و درایت کے اصولوں کی پابند ہے۔ سیرت نگاروں نے تحقیقی اعتبار سے فنِ سیرت کا ایسا معیار قائم کیا ہے جو دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ مشہور مُستشرق اسپرنگر ’’اصابہ‘‘ کے دیباچہ میں لکھتا ہے:
’’نہ کوئی قوم دنیا میں ایسی گزری، نہ آج موجود ہے، جس نے مسلمانوں کی طرح أَسماءُ الرَّجَّال سا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو‘‘۔
حکیم عبدالرؤوف داناپوری نے کہا ہے کہ سیرت نگار کو سیرت سے پوری واقفیت ہونی چاہئے۔
مارگولیتھ لکھتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے سیرت نگاروں کا سلسلہ طویل ہے جس کو ختم کرنا ناممکن ہے لیکن ان میں جگہ پانا باعث شرف ہے۔
فنِ سیرت میں محمد بن اسحاق (م 150ھ) کا نام تعارف کا محتاج نہیں۔ علامه داؤد البلاذری کے بقول خلیفہ منصور عباسی کی فرمائش پر محمد بن اسحاق نے سیرت کی کتاب تحریر کی جس میں معلومات کی فراوانی تھی اور جس پر بعد میں آنے والے تمام سیرت نگاروں نے نہ صرف اعتماد کیا بلکہ اسے اوّلین ماخذِ سیرت قرار دیا۔
اندلس کے سیرت نگاروں میں ابنِ عبدالبِرّ کا نام آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ انہوں نے سیرت کے فن میں ایسی مہارت حاصل کی جو اپنے تمام پیش روؤں پر فوقیت حاصل کر چکے۔ وہ اندلس کے بہترین نمائندہ اور عروجِ سیرت نگاری کی روشن دلیل ہیں۔
افریقی سیرت نگاروں میں قاضی عیاض کا نام ’’کتاب الشفا‘‘ کی بدولت سیرت کی بلندیوں تک جا پہنچا۔
مصر میں محمد حسین ھیکل کی کتاب جدید زمانے کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرتی نظر آتی ہے۔ ھیکل کی لکھی ہوئی کتاب مشرق و مغرب میں یکساں مقبول ہے اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
جب ہم برصغیر میں داخل ہوتے ہیں تو ہماری سب سے پہلی نظر سرسید احمد خاں پر پڑتی ہے۔ سرسید کا شمار برصغیر کے اُن ناموں میں سے ایک نام ہے جنہوں نے مستشرقین کی گمراہ کُن سرگرمیوں کا بہت مُدلّل اور مؤثر جواب دیا۔
برصغیر میں سیرت نگاروں میں جو نام زیادہ سامنے آئے اُن میں قاضی محمد سلیمان منصورپوری، مولانا شبلی نعمانی، سید سلمان ندوی، سید مناظر احسن گیلانی، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی، صفی الرحمن مبارکپوری، مولانا ثناء اﷲ امرتسری، مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی ، نعیم صدیقی، مولانا ابو العلیٰ مودودی، پیر کرم شاہ الازھری، مفتی محمد شفیع، مولانا طاہر القادری، عبدالماجد دریا آبادی، مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، سید اسعد گیلانی، ڈاکٹر خالد علوی اور ڈاکٹر محمد اکرم رانا شامل ہیں۔
جو کتاب ہمارے ہاتھ میں ہے وہ خواجہ شمس الدین عظیمی کی ’’باران رحمت ﷺ‘‘ ہے۔ یہ ایک ضخیم اور عمدہ سیرت کی کتاب ہے۔ اس میں حضور ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جدید اور آسان طرزِ تحریر ہے۔ حضور ﷺ سے محبت کی آئینہ دار ہے۔ معاشرہ میں بڑھتی ہوئی بے چینی، بے حسی، تشدد، انتہا پسندی کے خلاف خواجہ صاحب کی تصنیف اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ آپ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رواداری ہی ایک ایسی تعلیم ہے جو انسانوں کو بلاتفریق رنگ و نسل، مذہب و ملت، ذات و قوم ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ یہ کتاب زمین پر بےانصافی، حق تلفی، خود غرضی، دولت پرستی کے خلاف سینہ سِپَر ہے۔ خواجہ صاحب کا قلم تکوینی امورکی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے۔ یہ کتاب سورج، بادل، بارش، پانی، سنگریزوں، آوازوں، پہاڑوں، نباتات، کھجور، لکڑی، ستاروں، پنگوڑوں اور چاند پر بھی گفتگو کرتی ہے۔
یہ کتاب حضور ﷺ کے فرائض نبوت پر مُدلّل بحث کرتی ہے اور ساتھ ساتھ ان امور کی نشاندہی کرتی ہے جن میں اِتّباع سنت کا پہلو نمایاں ہے۔
آپ نے اپنی اس کتاب میں تکوینی اور روحانی امور پر کھل کر بحث کی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان امور پر قلم اٹھانا آسان کام نہیں اور نہ ہی ہر کَس و ناکَس ایسا کر سکتا ہے۔ یہ سیرت نگاری کا ایک مخصوص گوشہ ہے جس پر باباجی کا زورِ قلم ہی چل سکتا ہے۔
میں اس تحریر پر اُن کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور قارئین کے لئے اسے ایک عظیم تحفہ قرار دیتا ہوں۔
’’باران رحمت‘‘ علوم کا خزینہ ہے۔ گُنجِ گِراں مایہ ہے۔ اکثر کتابوں کو پڑھتے ہوئے انسان بوریت محسوس کرتا ہے۔ دوچار صفحات پڑھ کر اُس کی تشنگی بجھ جاتی ہے اور وہ کسی اور کام میں انہماک ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جبکہ باباجی عظیمی کی سیرت کی یہ کتاب پڑھتے ہوئے انسان تشنگی محسوس کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے مزید پڑھے کیونکہ ہر لائن دوسری لائن اور ہر صفحہ دوسرے صفحہ سے مربوط ہے۔ معلومات سے پُر یہ کتاب قاری کی نہ تو نظر اِدھر اُدھر ہونے دیتی ہے اور نہ ہی خیال اور یہ ہی کسی کتاب کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ قاری کے دل میں اتر جائے اور وہ اسے مزید سے مزید پڑھنے میں لگا رہے۔
’’اﷲ کرے زورِ بیاں اور زیادہ‘‘
آخر میں باباجی کی زندگی کے لئے دعاگو ہوں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں لمبی عمر نصیب فرمائے، تاکہ ان کی تمام تر علمی رہنمائی ہمیں نصیب ہو اور وہ آفتابِ نبوت کا ایک چمکدار ستارہ بن کر ہمیشہ کے لئے جگمگاتے رہیں اور امر ہو جائیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم رانا
چیئرمین، شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 7 تا 10
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔