اللہ ھُو
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11708
مورخہ 12مارچ2001 ء بروز پیر
ایک بزرگ دریا کے کنارے گئے اور ایک پتھر پر بیٹھ گئے۔ انہیں اللہ ھُو کی آواز آئی۔ بزرگ نے چاروں طرف دیکھا کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ کوئی نظر نہیں آیا۔ انہوں نے سوچا کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ ان کا ذہن اس پتھر کی طرف گیا جس پر وہ بیٹھے تھے۔ جب پتھر کی طرف متوجہ ہوئے تو پتھر میں سے ’’اللہ ھُو‘‘ کی آواز آئی۔ بزرگ نے محسوس کیا کہ کئی آوازیں ’’اللہ ھُو‘‘ کا ورد کر رہی ہیں۔
جب ذہن یکسو ہوا تو انہیں ہر طرف سے اللہ ھُو کی آواز سنائی دینے لگی۔ درخت، چھوٹے پودے، چھوٹی بڑی جھاڑیاں اور دریا میں سے پانی کی آواز آئی اور پورا جنگل اللہ ھُو کی آواز سے گونج اٹھا۔
جب نظر دریا کے پانی پر ٹھہر گئی تو انہوں نے دیکھا کہ پانی میں چھوٹی بڑی مچھلیاں تیر رہی ہیں اور اللہ ھُو پڑھ رہی ہیں لیکن ایک مچھلی جو اللہ ھُو نہیں پڑھ رہی تھی وہ شکار ہو گئی تھی اور اس کے گلے میں کانٹا پھنسا ہوا تھا۔ بزرگ نے اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ سنایا اور پوچھا۔ ’’سرکار! یہ کیا ماجرا تھا؟‘‘
مرشد کریم نے فرمایا۔۔۔
ہر شئے کے دو رخ ہیں جیسے عورت مرد، گرم ٹھنڈا، کڑوا میٹھا، نرم و سخت وغیرہ اللہ تعالیٰ نے دن کام کاج، محنت مزدوری اور دنیاوی مسائل حل کرنے کے لئے بنایا ہے۔ آدھی رات آرام کیلئے اور آدھی رات اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے ہے۔ مخلوق آدھی رات سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہو جاتی ہے۔
سورج ڈوبنے کے بعد اور سورج غروب ہونے سے پہلے پرندے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اگر غور سے سنا جائے اور لاشعور بیدار ہو جائے تو چڑیا کی چوں چوں میں اللہ ھُو کی آواز سنائی دیتی ہے۔
مرشد کریم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے کائنات بنانے کے بعد روحوں سے پوچھا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ جیسے ہی مخلوق کے کانوں میں یہ آواز پہنچی مخلوق کو قوت سماعت مل گئی۔ جب کان متوجہ ہوئے تو آنکھوں کو تحریک ہوئی کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے تو بینائی مل گئی۔ آنکھیں دیکھنے لگیں۔ کانوں نے سنا تو سننے کی حس عطا ہوئی۔ بولنے کی حس حرکت میں آئی تو مخلوق نے عرض کیا۔۔۔
’’قالو بلیٰ‘‘ بے شک آپ ہمارے رب ہیں۔
اور انسان میں قوت گویائی متحرک ہو گئی۔ غرض یہ کہ پھول، درخت، جمادات، حیوانات، انسان سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیت سے زندہ ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیت سے بولتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیت سے سنتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیت سے دیکھتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیت سے محسوس کرتے ہیں۔
بڑے پتھر سے بہت ساری آوازیں اس لئے آرہی تھیں کہ بڑا پتھر بہت سارے چھوٹوں پتھروں سے مرکب ہے۔ جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کو موت بھی ضرور آتی ہے۔ درخت میں سے زندگی نکل جاتی ہے تو وہ سوکھ جاتا ہے۔ کیا آپ نے غور فرمایا کہ درخت کیوں سوکھ جاتے ہیں؟ بڑی بڑی عمارتیں کیوں گر جاتی ہیں؟
اس لئے گر جاتی ہیں کہ روح نے جن ذرات کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہوا ہے، روح ان سے رشتہ منقطع کر لیتی ہے۔ یہ جو Pillarآپ دیکھ رہے ہیں (عظیمی صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے Pillarکی طرف متوجہ کیا) اس Pillarمیں لوہا ہے، کنکریٹ ہے، کرش ہے اور سیمنٹ ہے۔ یہ سب چیزیں جاندار ہیں۔ ہم ان کے اندر جان کو اس لئے نہیں دیکھ سکتے کہ ہم جان کو نہیں پہچانتے۔
حضرت نانا تاج الدین ناگپوریؒ نے فرمایا۔۔۔
’’جب جان سے جان ملتی ہے تو شئے میں زندگی دوڑنے لگتی ہے اور جب جان سے جان نہیں ملتی تو زندگی ٹھہر جاتی ہے۔‘‘
ہماری محرومی اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اپنے اوپر غلاف چڑھایا ہوا ہے، کانوں پر غلاف ہے، آنکھوں پر پردے ہیں، عقل محدود ہو گئی ہے۔ کان بہرے ہیں، اسی وجہ سے ہم ان آوازوں کو نہیں سنتے۔ اگر ہمارے کان جو خالق کائنات کی پہلی آواز سن چکے ہیں کھل جائیں تو ہم اللہ تعالیٰ کی آواز سن سکتے ہیں۔ اگر ہماری آنکھوں پر سے پردہ اٹھ جائے تو ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیں گے اس لئے کہ ہم ازل میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ چکے ہیں۔
لیکچر11
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 259 تا 261
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔