ہمارے بچے
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11680
مورخہ 9مارچ 2001 ء بروز جمعتہ المبارک
حضورﷺ کا ارشاد ہے۔۔۔
’’لوگوں سے ان کی صلاحیت کے مطابق بات کرو۔‘‘
بات کرنے والے صاحب یا صاحبہ کو یہ غور کرنا چاہئے کہ مخاطب کی صلاحیت کتنی ہے اور شعوری استطاعت کتنی ہے۔
حکمت
اگر دو سال کے بچے کے ساتھ کھلونے سے کھیلا جائے، بچہ کو کمر پر بٹھا کر سیر کرائی جائے، بچہ کے ذہن کے مطابق اس کے ساتھ چھیڑ خانی کی جائے تو بچہ خوش ہوتا ہے۔ لیکن اگر بچہ کے شعور سے زیادہ بات کی جائے تو بچہ آپ میں دلچسپی نہیں لے گا وہ آپ کے پاس سے چلا جائے گا۔
یہی حال بڑے لوگوں کا ہے۔ ان کی سمجھ کے مطابق ان سے گفتگو کی جائے تو وہ غور سے سنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بچوں سے بچوں کے ذہن کے مطابق اور بڑوں سے بڑوں کی صلاحیت کے مطابق بات کی جائے۔ اگر بچوں سے بڑوں کی طرح بات کی جائے تو وہ بات نہیں سمجھیں گے اور دلچسپی نہیں لیں گے۔
میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ آدمی کو مخاطب کی صلاحیت کے مطابق بات کرنی چاہئے۔ گفتگو میں طنز کیا جائے تو مخاطب سے دوری ہو جاتی ہے۔ ادب اور بے تکلفی دونوں ضروری ہیں۔ یہ ادب نہیں ہے کہ باپ اور بیٹے، بیٹے اور باپ میں، بڑے اور چھوٹوں، چھوٹے اور بڑوں میں آپس میں بات چیت نہ ہو۔ اور یہ بے ادبی ہے کہ اپنے مخاطب سے ایسی باتیں کی جائیں جو اس کے شعور سے زیادہ ہوں۔
یاد رکھئے! گھر کے ماحول سے معاشرے کی قدریں قائم ہوتی ہیں۔ تجربہ ہے کہ جن گھرانوں میں ماں باپ کا لہجہ سخت ہوتا ہے یا لوگ چیخ کر بولتے ہیں، گھر کے بچے بھی چیخ کر بات کرتے ہیں اور جب گھر میں لوگ چیخ کر بولتے ہیں تو غصہ سے بولنا، گفتگو میں طنز شامل ہو جاتا ہے۔ گھر کا ہر آدمی طنز کرتا ہے، چیخ کر بولتا ہے اور پھر گھر کے افراد اس وقت تک بات نہیں سمجھتے جب تک چیخ کر نہ بولا جائے۔
گفتگو میں ہمیشہ احتیاط کرنی چاہئے۔ احتیاط یہ ہے کہ گفتگو میں آواز بلند نہ ہو ۔ طنز نہ ہو۔ گفتگو میں دھیما پن ہو اور لوگوں کی صلاحیت کے مطابق بات کی جائے۔ اس طرح گھر کے افراد اور ماحول میں لوگ خوش مزاج ہونگے، سمجھدار ہوں گے اور ایک دوسرے کا ادب کریں گے۔ یہ احتیاط بھی ضروری ہے کہ بات کرتے وقت لفظوں کا انتخاب اچھا ہو۔
لیکچر9
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 253 تا 254
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔