سیاہ نقطہ

مکمل کتاب : آگہی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11594

اگر کسی طرح اصل وجود اور اس کی حرکات و سکنات کا علم حاصل ہو جائے تو آدمی موت کے بعد کی زندگی سے واقف ہو جاتا ہے، اسے اس بات کا علم ہو جاتا ہے اور مخصوص مشقوں سے اس بات کا مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ مرنے کے بعد کی دنیا بھی زمین کی طرح ہے۔ مردہ آدمی کو قبر میں اتارنے کے بعد مادی جسم زمین کا حصہ بن جاتا ہے یعنی جسم پانی کی شکل اختیار کر کے مٹی میں جذب ہو جاتا ہے کچھ عرصے کے بعد ہڈیاں بھی راکھ بن جاتی ہیں۔

رات دن کا مشاہدہ ہے کہ قبر کے اندر مادی جسم یا ہڈیوں کے ڈھانچے پر گوشت پوست، رگ پٹھوں اور کھال سے بنا ہوا جسم پانی میں تبدیل ہو کر زمین میں جذب ہو جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مادی جسم فنا ہونے کے بعد انسان نیست و نابود ہو گیا۔ مادی جسم تو مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو جاتا ہے لیکن انسان موجود رہتا ہے اور انسان کے اعمال و افعال جاری رہتے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ مرتب ہوا کہ انسان احسن تقویم ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’تحقیق پیدا کیا ہم نے انسان کو احسن تقویم پھر ڈال دیا اس کو اسفل السافلین میں۔‘‘(سورۃ التین۔ آیت۰۴)

مرنے کے بعد آدمی کے لئے قرآن خوانی کی جاتی ہے اور ایصال ثواب کیا جاتا ہے۔ کھانا تقسیم کیا جاتا ہے، غریبوں کو لباس پہنایا جاتا ہے۔ اور اس کی ایک بڑی شہادت یہ ہے کہ جب سیدنا حضورﷺ کا بدر کے میدان سے گزر ہوا۔ حضورﷺ نے اپنے صحابیوںؓ کے ساتھ قیام فرمایا اور بدر کے مقام پر کھڑے ہو کر مرنے والوں کی ارواح سے باتیں کیں اور ارشاد فرمایا:
’’اے قبر میں رہنے والو جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا وہ تم نے دیکھ لیا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا وہ میں نے دیکھ لیا۔‘‘
وہاں پر موجود صحابہ کرامؓ نے حضورﷺ سے عرض کیا:

’’یا رسول اللہﷺ! یہ تو مر گئے ہیں، کیا یہ سنتے ہیں؟‘‘

حضورﷺ نے فرمایا:

’’یہ اسی طرح سنتے ہیں جس طرح تم سنتے ہو۔‘‘

تفکر طلب بات یہ ہے کہ جب آدمی مر گیا اور اس کا گوشت پوست مٹی بن گیا اور ہڈیاں راکھ بن گئیں تو قبر میں کون سنتا ہے؟
حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ

’’یہ اسی طرح سنتے ہیں جس طرح تم سنتے ہو۔‘‘ (حدیث)

حضورﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ

’’جب تم قبرستان جاؤ تو کہو السلام علیکم یا اہل القبور‘‘

ان تفصیلات سے یہ شہادت فراہم ہوتی ہے کہ انسان نہیں مرتا بلکہ اس کا مادی جسم مرتا ہے اور مرنے کے بعد مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیکن جسم کو سنبھالنے والی ہستی سلطان موجود رہتی ہے۔ ان معروضات کے نتیجے میں یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ آدمی کی حیثیت عارضی اور فکشن ہے۔ اب اس مضمون کو سمجھنے کیلئے دوسری طرح بیان کیا جاتا ہے۔

ایک کھلونا ہے اور اس کھلونے کی شکل و صورت آدمی کی ہے۔ اس کھلونے کے دو ہاتھ ہیں، دو پیر ہیں، سینہ ہے، گردن ہے اور سر ہے۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے، سائنسی دور میں اس طرح کا کھلونا بڑی آسانی سے بن جاتا ہے۔ اس کھلونے (آدمی کے پتلے) میں چابی بھر دی جاتی ہے تو کھلونا زمین پر چلنے لگتا ہے، اچھلتا ہے اور آواز بھی نکالتا ہے۔ کھلونے میں چابی ختم ہو جائے تو کھلونے کے کل پرزے کام نہیں کرتے یعنی کھلونے (آدمی) کی حیثیت Dead Bodyکی ہو جاتی ہے۔

کائنات میں ہر زمین پر موجود آدمی کی ایک ہی حیثیت ہے، اعمال و افعال بھی ایک ہی طرح کے ہیں۔ جس مقام پر، جس دنیا میں، جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق آباد ہے وہ اس قانون کے پابند ہیں۔ ہر جہاں میں سلطان اپنا جسم بناتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق معین وقت پورا ہونے کے بعد لباس کو چھوڑ دیتا ہے۔

جب کوئی بندہ اس راز سے واقف ہو جاتا ہے اور اس کے اوپر یقین کی دنیا روشن ہو جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ مادی وجود کی حیثیت عارضی ہے اور مرنے کے بعد یہ وجود مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ انسان مادی وجود کا نام نہیں ہے۔ مادی وجود کو سنبھالنے والا اور اس کو حرکت دینے والا اور راحت و تکلیف کا احساس کرنے والا سلطان ہے۔

ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انسان دو رخ، دو جسم، دو دماغ یا دو پرتوں سے مرکب ہے، ایک رخ پیدائش کے بعد سے بڑھاپے تک، عارضی اور متغیر ہے اور دوسرا غیر متغیر ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ اور متحرک رہتا ہے۔

ایک آدمی نے ایک دن کے بچے کو دیکھا، سال تک اس بچہ کو نہیں دیکھا۔ ایک سال کے بعد جب اس بچے کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ یہ بچہ کون ہے تو وہ لاعلمی کا اظہار کرے گا۔ اس کے برعکس چند آدمیوں نے بچے کو سال بھر تک دیکھا ہے۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ بچہ کون ہے تو وہ بتا دیتے ہیں کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے۔

روحانی علوم کے اساتذہ کرام یہ درس دیتے ہیں کہ انسان نہیں مرتا، انسان کا مادی وجود فنا ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ آدمی قدرت کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے۔ جب تک سلطان مادی وجود کو سنبھالے رکھتا ہے مادی وجود حرکت میں رہتا ہے اور جب سلطان مادی وجود سے رشتہ توڑ لیتا ہے تو مادی وجود بے حس و بے حرکت ہو جاتا ہے اور وجود مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

روحانیت میں جتنے اسباق پڑھائے جاتے ہیں ان سب کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اس بات کو سمجھ لے کہ گوشت پوست کا آدمی عارضی ہے اور یہ عارضی جسم قانون قدرت کے تحت پیدا ہوتا ہے، پھیلتا ہے اور معینہ مدت کے بعد سمٹتا ہے، مرتا ہے اور مٹی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ روحانیت میں جتنے اسباق پڑھائے جاتے ہیں یا جتنی ریاضتیں کرائی جاتی ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے ماہ و سال پر غور کرے اور اس بات کو سمجھ لے کہ پیدائش کے فوراً بعد گھٹنے اور بڑھنے، بڑھنے اور گھٹنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
زندگی کے پہلے حصے میں آدمی ایک طرف پھیلتا ہے اور دوسری طرف غائب ہو جاتا ہے اور زندگی کے دوسرے حصے میں آدمی سکڑتا اور سمٹتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔

پھیلنے، سمٹنے اور غائب ہونے کا عمل پیدائش کے پہلے دن سے شروع ہو جاتا ہے اور زندگی کے آخری دن یہ عمل ختم ہو جاتا ہے۔ پھیلنے، سمٹنے، ظاہر ہونے اور غائب ہونے کے عمل کو سمجھنا تصوف ہے۔

’’وہ کون ہے جو ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا آپ کہہ دیجئے وہ ہی جس نے تمہیں پہلے زندہ کیا تھا۔‘‘(سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت ۵۱)
تصوف ایک علم ہے جو غیب کو ظاہر کرتا ہے اور غیب میں موجود دنیاؤں کا مشاہدہ کراتا ہے۔ روحانی علوم سیکھنے والے طالبات و طلباء یہ جانتے ہیں کہ مادی وجود مٹی ہے۔ حقیقت سے واقف ہونے کے لئے جتنے اسباق پڑھائے جاتے ہیں یا جتنی ریاضتیں کرائی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ انسان ذہنی طور پر یکسو ہو جائے۔ جیسے جیسے انسان یکسو ہوتا ہے اس کے اوپر حقائق منکشف ہوتے رہتے ہیں اور بتدریج وہ غیبی دنیا سے مانوس ہوتا رہتا ہے۔

زیادہ وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ انسان کے اوپر خواب کے حواس غالب ہو جاتے ہیں یعنی وہ بیدار رہتے ہوئے خواب کی زندگی میں سفر کرتا ہے اور خواب کے اندر کیے ہوئے اعمال و حرکات کو دیکھتا ہے۔

ہم وضاحت کر چکے ہیں کہ انسان دو شعبوں میں زندگی گزارتا ہے۔ زندگی کا ایک شعبہ یا ایک رخ بیداری ہے اور شعوری حواس ہیں جبکہ زندگی کا دوسرا شعبہ وہ کیفیات اور اعمال و حرکات ہیں جن سے آدمی ماورائی دنیا سے باخبر ہو جاتا ہے۔ ہر انسان دو حواس میں زندگی گزارتا ہے۔

۱۔ حواس پر مکاں کا غلبہ ہوتا ہے۔

۲۔ حواس پر زماں کا غلبہ ہوتا ہے۔

لیکن یہ بات نہایت درجۂ قابل توجہ ہے کہ دن کے حواس میں اور رات کے حواس میں زماں و مکاں دونوں کا عمل دخل ہے۔
مشاہدہ یہ ہے کہ جب ہم سوتے ہیں تب مکاں کا غلبہ تقریباً نفی ہو جاتا ہے جبکہ بیداری کی حالت میں مکاں کا غلبہ رہتا ہے۔ یہ بات انسان کے مشاہدے میں ہے کہ انسان جو کچھ کہتا ہے اس کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ کون کہتا ہے۔ انسان کہتا ہے کہ میں نے کھانا کھایا، پانی پیا، کتاب پڑھی، میں نے دور دراز کا سفر کیا۔

فکر طلب بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی (Dead Body) کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو مزاحمت کیوں نہیں ہوتی؟۔۔۔
انسان پر جب موت وارد ہوتی ہے تو اس کے ظاہری وجود میں فوری طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ زید کہتا ہے کہ میں نے کھانا کھایا، پانی پیا۔۔۔تو مرنے کے بعد زید کھانا کیوں نہیں کھاتا، پانی کیوں نہیں پیتا، اخبار کیوں نہیں پڑھتا، زید خط کیوں نہیں لکھتا، زید کو نشتر چبھو دیا جائے تو تکلیف کیوں نہیں محسوس کرتا؟

تفکر ہمیں آگاہی بخشتا ہے کہ جو کچھ کرتے ہیں۔۔۔کھانا کھایا، پانی پیا، سفر کیا، یہ سب زید کا ذہن ہے۔ ذہن سے مراد یہ ہے کہ ہر بشر میں سلطان کی صلاحیت کام کر رہی ہے۔ سلطان دو طرح کام کرتا ہے۔

۱۔ جسم کو میڈیم بنا کر

۲۔ میڈیم سے آزاد ہو کر

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 201 تا 207

آگہی کے مضامین :

انتساب پیش لفظ 1 - روحانی اسکول میں تربیت 2 - با اختیار بے اختیار زندگی 3 - تین سال کا بچہ 4 - مرید کی تربیت 5 - دس سال۔۔۔؟ 6 - قادرِ مطلق اللہ تعالیٰ 7 - موت حفاظت کرتی ہے 8 - باہر نہیں ہم اندر دیکھتے ہیں 9 - اطلاع کہاں سے آتی ہے؟ 10 - نیند اور شعور 11 - قانون 12 - لازمانیت اور زمانیت 13 - مثال 14 - وقت۔۔۔؟ 15 - زمین پر پہلا انسان 16 - خالق اور مخلوق 17 - مٹی خلاء ہے۔۔۔ 18 - عورت کے دو رُخ 19 - قانون 20 - ہابیل و قابیل 21 - آگ اور قربانی 22 - آدم زاد کی پہلی موت 23 - روشنی اور جسم 24 - مشاہداتی نظر 25 - نیند اور بیداری 26 - جسمِ مثالی 27 - گیارہ ہزار صلاحیتیں 28 - خواتین اور فرشتے 29 - روح کا لباس؟ 30 - ملت حنیف 31 - بڑی بیگمؓ، چھوٹی بیگمؓ 32 - زم زم 33 - خواتین کے فرائض 34 - تیس سال پہلے 36 - کہکشانی نظام 37 - پانچ حواس 38 - قانون 39 - قدرِ مشترک 40 - قانون 41 - پچاس سال 42 - زندگی کا فلسفہ 43 - انسانی مشین 44 - راضی برضا 45 - زمانے کو بُرا نہ کہو، زمانہ اللہ تعالیٰ ہے(حدیث) 46 - مثال 47 - سائنس اور روحانیت 48 - مادی دنیا اور ماورائی دنیا 49 - چاند گاڑی 50 - تین ارب سال 51 - کائناتی نظام 52 - تخلیق کا قانون 53 - تکوین 54 - دو علوم۔۔۔ 55 - قانون 56 - ذات کا عرفان 57 - روحانی شاگرد 58 - ذات کی نفی 59 - پانچ کھرب بائیس کروڑ! 60 - زندگی کا تجزیہ 61 - عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ 62 - دین فطرت 63 - عید 64 - ملائکہ اعلان کرتے ہیں 65 - بچے اور رسول اللہﷺ 66 - افکار کی دنیا 67 - مثال 68 - تحقیق و تلاش 69 - Kirlian Photography 70 - قرآن علوم کا سرچشمہ ہے 71 - روشنی سے علاج 72 - روشنی کا عمل 73 - چھ نقطے 74 - قانون 75 - امراض کا روحانی علاج 76 - مشق کا طریقہ 77 - نور کا دریا 78 - ہر مخلوق عقل مند ہے 79 - موازنہ 80 - حضرت جبرائیل ؑ 81 - ڈائری 82 - ماں کی محبت 83 - حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانیؒ 84 - اکیڈمی میں ورکشاپ 85 - زمین اور آسمان 86 - ورد اور وظائف 87 - آواز روشنی ہے 88 - مثال 89 - نگینوں سے علاج 90 - تقدیر کیا ہے؟ 91 - مثال 92 - حضرت علیؓ کا ارشاد 93 - فرشتے، جنات اور آدم ؑ 94 - انسان اور موالید ثلاثہ 95 - سلطان 96 - مثال 97 - دو رخ 98 - سیاہ نقطہ 99 - قانون 100 - کوئی معبود نہیں مگر اللہ تعالی۔۔۔ 101 - تین کمزوریاں 102 - عفو و درگذر 103 - عام معافی 104 - توازن 105 - شکر کیا ہے؟ 106 - قافلہ سالار 107 - ٹیم ورک 108 - سلسلہ عظیمیہ کے ارکان کی ذمہ داری 109 - چھوٹوں کی اصلاح 110 - ایک نصیحت 111 - صبحِ بہاراں 112 - دنیا مسافر خانہ ہے 113 - روح کیا ہے؟ 114 - سانس کی مشقیں 115 - من کی دنیا 116 - بے سکونی کیوں ہے؟ 117 - غور و فکر 118 - روحانی علوم 119 - ہمارے بچے 120 - اللہ تعالیٰ بہت بڑے ہیں 121 - اللہ ھُو 122 - اللہ تعالیٰ سے اللہ تعالیٰ کو مانگو 123 - قربت 124 - ہر مخلوق باشعور ہے 125 - کامیاب زندگی 126 - انا کی لہریں 127 - صدقۂ جاریہ 128 - ادراک یا حواس
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)