ماں کی محبت
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11554
’’ہم نے رحم مادر میں حسین تصویریں بنائیں۔‘‘(سورۃ آل عمران۔ آیت ۶)
یعنی ماں کے پیٹ کے اندر ایک ایسی ڈائی فٹ کر دی کہ اس میں ماں کے خون سے خوبصورت تصویر (بچہ) بنی۔ اس کے علاوہ اس حدیث مبارک سے بھی ماں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ
’’عورت اور مرد دونوں ’’نفس واحدہ‘‘ سے تخلیق کئے گئے ہیں۔‘‘(سورۃ اعراف۔ آیت ۱۸۹)
انسان اپنے اعمال ہی کی وجہ سے ولی اور شیطان بن جاتا ہے۔ مردوں کی برتری ثابت کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں پر وحی نہیں ہوئی لیکن اگر غور کیا جائے اور لفظ وحی کی تشریح کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وحی تو بی بی مریم ؑ پر بھی نازل ہوئی ہے۔ جب فرشتے نے انہیں آ کر کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ تمہارے یہاں بیٹا پیدا ہو۔‘‘
حضرت بی بی ہاجرہؓ بھی ایک عورت تھیں اور ان کے دوڑنے کے عمل کو تاقیامت حاجیوں کیلئے فرض کر دیا گیا کہ جب تک حاجی صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرینگے ان کا حج پورا نہیں ہوتا۔ اسی طرح خواتین کے قصے قرآن پاک میں موجود ہیں۔ المختصر یہ کہ ہر اچھے عمل کی جزا اور ہر برے عمل کی سزا عمل کرنے والے کو ملتی ہے اب چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔
خواتین کے پیچھے رہنے کی وجہ یہ ہے کہ خواتین نے اس طرف دھیان نہیں دیا کہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے خواتین کو کتنے حقوق عطا فرمائے ہیں۔ اب خواتین نے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا سیکھ لیا ہے تو اس وقت کئی خواتین مختلف ممالک کی وزرائے اعظم ہیں۔ بہت سے گھر ایسے ہیں جہاں شوہروں کے مقابلے میں بیویاں زیادہ پڑھی لکھی اور ہنر مند ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اتوار ۱۷ اپریل مراقبہ ہال حیدر آباد میں عید ملن پارٹی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ عید ملن پارٹی کے شرکاء سے قرآن میں تفکر کے موضوع پر عظیمی صاحب نے فرمایا:
’’یہ کائنات اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے بنائی ہے جس کی مثال یہ ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی ضرورت کی تمام اشیاء اس دنیا میں پہلے سے موجود ہوتی ہیں اور اس کی غذا کا انتظام بھی پہلے سے اس کی ماں کے دودھ کے ذریعے کر دیا جاتا ہے۔ جب انسان اس دنیا کو چھوڑتا ہے تو وہ اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جاتا بلکہ یہ دنیا وہ دوسرے آنے والے یا پیدا ہونے والے بچے کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔‘‘
حضرت عظیمی صاحب نے مزید بتایا کہ
’’جب تک انسان اپنی روزی کی فکر نہیں کرتا اسے اللہ تعالیٰ فکر مند کئے بغیر کھلاتا بھی ہے، پہناتا بھی ہے اور پڑھاتا بھی ہے۔ لیکن جیسے ہی ایک بچہ سن شعور کو پہنچ کر سوچتا ہے کہ مجھے معاش کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے تو وہ خود اپنے لئے فکر اور پریشانی کی راہیں کھولتا ہے حالانکہ وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس سے پہلے اس کی تمام ضروریات کیسے پوری ہوتی تھیں۔‘‘
کوشش اور معاش کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ عمل وظیفۂ اعضاء ہے۔ انسان کی ساخت اس طرح ہے کہ اس کے اعضاء اور اعصاب مسلسل حرکت چاہتے ہیں۔
تجربہ شاہد ہے کہ بچے چھ ماہ کی عمر سے جدوجہد شروع کر دیتے ہیں۔ بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، بار بار گرتے ہیں، اٹھتے ہیں، پھر گرتے ہیں، اس عمل میں مسلسل حرکت میں رہتے ہیں۔ گھٹنوں سے چلتے ہیں، کھڑے ہوتے ہیں، گرتے ہیں، پھر کھڑے ہوتے ہیں، پھر گرتے ہیں اور اس طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سہارے سے چلتے ہیں اور بچوں کو چلانے کے لئے بہت ساری چیزیں بنائی جاتی ہیں تا کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو جائیں جیسے کہ گڈیلا وغیرہ۔
بچہ تقریباً دو سال کا ہو جاتا ہے تو مسلسل چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ گرتا ہے، اٹھتا ہے اور پھر چلتا ہے، اس طرح وہ بچپن سے نکل کر لڑکپن میں داخل ہو جاتا ہے۔ لڑکپن میں بھی زمین پر چلنے کی مشقت جاری رہتی ہے لیکن بچہ اس کو مشقت نہیں سمجھتا۔ بڑا ہو کر اسکول جاتا ہے۔ اسکول کی لائف میں اعصاب اور زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔ کالج کے ماحول سے روشناس ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک باشعور آدمی بن جاتا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ پیدائش کے بعد سے ۲۰ سال کی عمر تک بچہ کی زندگی مسلسل حرکت اور جدوجہد ہے اور اس حرکت اور جدوجہد کے نتیجے میں بچہ باشعور اور صاحب عقل و فہم بن جاتا ہے۔ اس ساری روداد کا مفہوم یہ ہے کہ’’انسانی زندگی مسلسل حرکت کا نام ہے۔ حرکت نہیں ہو گی بچے کے اعضاء صحتمند نہیں ہونگے اور بچہ دس سال کی عمر میں بھی پالنے میں رہنے والا بچہ شمار ہو گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ آدمی حرکت میں رہے۔ اس لئے کہ ساری کائنات حرکت اور مسلسل حرکت ہے۔ رزق کے حصول کے لئے محنت اور جدوجہد کرنا اس لئے ضروری ہے کہ حرکت کے بغیر اعضاء مضبوط اور متحرک نہیں رہتے۔ رزق کی تلاش ہر مخلوق کرتی ہے۔ چوپائے، چرند پرند، حشرات الارض سب محنت کرتے ہیں اور اس محنت کے نتیجے میں ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما ہوتی رہتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 169 تا 172
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔