موازنہ
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11538
جب ہم انسان کا اور زمین کے اوپر موجود دوسری مخلوقات کا موازنہ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی زندگی کے معاملات پر غور کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جس طرح انسان میں عقل ہے اسی طرح دوسری مخلوق میں بھی عقل ہے۔
اگر عقل و شعور کی بنیاد پر انسان اور حیوانات کا تذکرہ کیا جائے تو ہم کسی بھی طرح انسان کو محض عقل و شعور کی بنیاد پر حیوانات سے ممتاز قرار نہیں دے سکتے۔
کہا جاتا ہے کہ جانوروں میں عقل کم ہوتی ہے اور انسانوں میں عقل زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی برادری میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو عقل و شعور کے اعتبار سے بھیڑ، بکری سے بھی کم عقل ہیں جن کو ہم (Reterded) کہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ۔۔۔
انسان جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ ساری کائنات بنائی ہے۔ انسان جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو مسخر کر دیا ہے۔ انسان جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے چاند کو اور سورج کو، زمین کو، آسمان کو، ستاروں کو محکوم کر دیا ہے۔ انسان کس بنیاد پر حیوانات سے ممتاز ہے۔۔۔
جہاں تک چاند اور سورج کی روشنی کا تعلق ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ چاند کا مسخر ہونا یہ ہے کہ چاند کی چاندنی سے انسان کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سورج کی دھوپ سے انسان کو فائدہ پہنچتا ہے۔ سورج انسان کو روشنی پہنچاتا ہے، دھوپ پہنچاتا ہے اس لئے سورج انسان کے لئے مسخر ہے۔ تو یہ بات بڑی عجیب ہے۔ اس لئے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سورج کی تپش سے سورج کی روشنی سے درخت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، نباتات کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اور جمادات کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
چاند کی چاندنی سے اگر انسان کے اندر سرشاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو چاند کی چاندنی سے دوسرے حیوانات میں بھی یہی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
ایک پرندہ ہے چکور، جب چاند کی چاندنی شباب پر ہوتی ہے تو وہ چکور چاند کی چاندنی سے ہم آغوش ہونے کے لئے اڑتا ہے اور اتنا اڑتا ہے اتنا اڑتا ہے کہ گر کر مر جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر چکور کا اور انسان کا موازنہ کیا جائے تو چاند کی کیفیت سے سرشاری چکور کے اندر زیادہ ہے۔
رات کی تاریکی سے انسان کے اندر سکون پیدا ہوتا ہے اور ذہن کے اندر ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے۔ اعصاب کو آرام ملتا ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایسے پرندے بھی ہیں جو رات کے اندھیرے میں اپنا سارا کام کرتے ہیں مثلاً اُلّو کو دن میں نظر نہیں آتا۔ رات میں نظر آتا ہے۔ اب ہم یوں عرض کریں گے کہ اُلّو کا، چمگادڑ کا اور انسان کا موازنہ کیا جائے تو اُلّو اور چمگادڑ آدمی کی نسبت اندھیرے میں دیکھنے کیلئے زیادہ باصلاحیت ہیں چونکہ وہ آدمی کے برعکس رات کو اندھیرے میں دیکھتے ہیں۔
دن کی روشنی کا بھی یہی حال ہے۔ دن کی روشنی سب مخلوق کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اسی طرح رات کے تاثرات سے ہر مخلوق متاثر ہوتی ہے۔ وہ کون سی چیز ہے جس کی بنیاد پر چاند، سورج، زمین، آسمان، ستارے اور فرشتے انسان کے لئے محکوم کر دیئے گئے۔ یہ حاکمیت نہیں ہے کہ چاند سے آپ کو چاندنی ملے گی۔ یہ حاکمیت نہیں ہے کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے۔ مغرب میں غروب ہوتا ہے اور آپ اس کی دھوپ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کی دھوپ سے تو ہر مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے۔
قرآن پاک میں جب ہم انسان کا اور دوسری مخلوقات کا موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے نئے نئے علوم سیکھنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ یہ وصف صرف انسان میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسری تمام مخلوقات سے اس لئے ممتاز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک اضافی صلاحیت رکھ دی ہے۔
وہ اضافی صلاحیت یہ ہے کہ اس صلاحیت سے آدمی نئے نئے علوم سیکھتا اور ایجادات کرتا ہے۔ کوئی بھی علم ہو، سائنس ہو، اردو ہو، دوسری کلاس پڑھی ہو، بی اے کیا ہو، ایم اے کیا ہوا۔ اس کی وجہ علم سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ انسان کو غیب نہیں آتا یا غیب نہیں سیکھ سکتا۔ وہ عقل و شعور کے خلاف ہے۔
اگر ہم علوم سیکھنے کی صلاحیت کو استعمال کریں گے تو ہمارا شمار حیوانات میں تو ہو سکتا ہے۔ انسانوں میں نہیں ہو سکتا۔
محلہ میں ایک ہزار آدمی رہتے ہیں اور اسی محلے میں دو آدمی Ph.Dہیں۔ ظاہر ہے ایک ہزار آدمی کی حیثیت ان دو Ph.Dکے مقابلے میں کم ہے۔ علمی اعتبار سے ہمیشہ ان دو افراد کو فضیلت حاصل ہو گی۔ اس طرح چار بھائی ہیں۔ تین بھائی جاہل ہیں ایک بھائی پڑھ لکھ گیا تو اس گھر میں علمی اعتبار سے ایک بھائی کو فضیلت حاصل ہو گی۔ انسان کی فضیلت علم کی بنیاد پر قائم ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 162 تا 165
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔