پانچ کھرب بائیس کروڑ!
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11450
ہم اپنی زندگی کا تجزیہ کریں تو حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے ارشاد کے مطابق کوئی آدمی اپنی زندگی کے کسی ایک عمل میں خود مختار نہیں ہے۔ اس لئے کہ خیال آئے گا تو ہم کام کریں گے۔ وہ خیال شیطانی طرز فکر سے متعلق ہو یا رحمانی طرز فکر سے متعلق ہو۔ اس محفل میں ماشاء اللہ سب پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلسل ۳۵ سال کی جدوجہد اور کوشش سے اب ذہن اتنے کھل گئے ہیں کہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔
۷۰ سال کی زندگی کا اگر حساب لگایا جائے تو گھنٹے، منٹ اور لمحات کتنے بنتے ہیں؟ وہ ایک کھرب تیس کروڑ سے زیادہ ہیں اور خیالات کی آمد تقریباً پانچ کھرب بائیس کروڑ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان نے ستر سال میں کھربوں عمل کئے۔ کھربوں فیصلے لئے۔ آپ کوئی ایک عمل ایسا بتائیں جو خیال آئے بغیر آپ نے کیا ہو۔ کوئی ایک بات بھی آپ بیان نہیں کر سکتے۔ لاریب انسان مجبور ہے۔ انسان وہی کچھ کرتا ہے جو اسے Feedکر دیا جاتا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے زندگی کے دو رخ بتائے ہیں۔ ایک Independentہونا یعنی اپنی انا کے خول میں بند ہو کر زندگی گزارنا جس میں اقتدار کی خواہش، اپنے آپ کو منوانا، ضد کرنا، بحث کرنا، فساد برپا کرنا شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہاتھ دیئے ہیں۔ ہم ہاتھ کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ خیال آتا ہے۔ خیال کے اندر ایک میکانکی حرکت ہوتی ہے۔ ہر مخلوق کے اندر ایک میکنزم (Mechanism) کام کر رہا ہے۔ انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان کے اندر اچھائی اور برائی کا تصور منتقل کر دیا ہے۔
اچھائی برائی کا مطلب ہے کہ اس عمل میں جو عمل آپ آسمان سے آئے ہوئے خیال کے تحت کر رہے ہیں، آپ اس میں کیا معنی پہناتے ہیں۔ ایک آدمی اصلاح احوال کے لئے کسی آدمی کے تھپڑ مارتا ہے۔ یہ خیر ہے۔ دوسرا آدمی نفرت و حقارت کے تحت تھپڑ مارتا ہے۔ یہ شر ہے۔ تھپڑ مارنے کا عمل ایک ہے لیکن فیصلہ نیت پر ہوتا ہے۔
زندگی حرکت ہے۔ حرکت کے ساتھ آدمی چل پھر رہا ہے، دوڑ رہا ہے، کاروبار کر رہا ہے، شادی کر رہا ہے۔ نئی نئی ایجادات کر رہا ہے لیکن ابھی تک یہ بات طے نہیں ہوئی کہ زندگی کیا ہے؟
زندگی صرف اللہ تعالیٰ کا چاہنا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ میرے لئے آپ کے لئے زیر کے لئے بکر کے لئے چاہتے ہیں کہ جسم میں حرکت رہے، ہم سب زندہ ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ ہم زندہ رہیں، ہمارے اندر کا عمل ختم ہو جاتا ہے، کتنی دنیا پیدا ہوئی اور مر گئی۔ جس قدر دنیا موجود ہے یہ بھی مر جائے گی۔ بعد میں کتنی دنیا پیدا ہو گی وہ بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 124 تا 125
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔