ذات کی نفی
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11448
جن لوگوں کے اندر الٰہی صفات منتقل ہو جاتی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرز فکر ان کے اندر مستحکم ہو جاتی ہے اور وہ اپنی ذات کی نفی کر دیتے ہیں۔
’’وہ کہتے ہیں ہم نے اس کا مشاہدہ کر لیا ہے کہ فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شئے مستقل نہیں ہے ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اگر خیال آ رہا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بھوک لگ رہی ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اگر پیاس لگ رہی ہے تو پیاس کا تقاضا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انسان کے اندر حرکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وریدوں شریانوں میں اگر خون دور کر رہا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے۔ اگر وریدوں میں شریانوں میں خون بہنا بند ہو جائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ دنیا کی کوئی مشین، کوئی طاقت مردہ جسم کی وریدوں میں شریانوں میں خون نہیں دوڑا سکتی۔ انسان کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انسان کی موت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘
انسان کو یہ علم نہیں ہے کہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں چلا جاتا ہے؟ انسان یہ بھی نہیں جانتا کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو زمین اسے دھکیلتی ہے۔
وہ کیسے چلتا ہے، حرکت کرتا ہے، سوچتا ہے، کہاں سے سوچتا ہے؟ سوچنا کیا ہے؟ کہاں سے اسے فیڈنگ Feedingمل رہی ہے؟ کون سی برقی رو ہے جس برقی رو کی بنیاد پر وہ دوڑ رہا ہے، چل رہا ہے، سو رہا ہے، جاگ رہا ہے۔ شادی کر رہا ہے، بچے پیدا کر رہا ہے اور جب برقی رو رشتہ توڑ لیتی ہے تو وہ فنائیت کے درجہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر نہ بھوک لگتی ہے، نہ پیاس لگتی ہے، نہ اس کے اندر کوئی تقاضا ابھرتا ہے۔
کوئی انسان مرنا تو بعد کی بات ہے، مرنے کا تصور بھی پسند نہیں کرتا، کوئی انسان بیمار ہونا نہیں چاہتا۔ اگر انسان کا بس چلتا وہ کبھی لاغر نہ ہوتا۔ بوڑھا نہ ہوتا۔ کسی انسان کا بچہ مرتا اور نہ کسی انسان کی ماں کا انتقال ہوتا۔ کوئی غریب نہیں ہوتا، کوئی معذور نہیں ہوتا، کوئی نابینا نہیں ہوتا، مفلوک الحال نہیں ہوتا۔ پیدائش پر اختیار ہوتا تو ہر شخص بادشاہ کے گھر پیدا ہوتا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 122 تا 124
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔