پانچ حواس
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11346
انسان حواس کا مجموعہ ہے۔ عام حالات میں ان حواس کو پانچ نام دیئے گئے ہیں۔
۱۔ سننا
۲۔ دیکھنا
۳۔ چکھنا
۴۔ سونگھنا
۵۔ چھونا
ان پانچ حواس سے ہر شخص واقف ہے۔ ذی فہم اور عقلمند آدمی یہ بھی سوچتے ہیں کہ حواس خمسہ یعنی پانچ حواس کس بنیاد پر رواں دواں ہیں؟
زمین پر ہر موجود شئے کی بنیاد لہر (روشنی) ہے۔ اس لہر یا روشنی کا نام مذہب نے روح رکھا ہے۔ ہمارا روزانہ کا مشاہدہ ہے کہ جب تک روح کسی مادی وجود میں موجود رہتی ہے اس وجود میں حرکت رہتی ہے اور جب روح مادی وجود سے اپنا رشتہ منقطع کر لیتی ہے تو وجود بکھر کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔
تمام مذاہب ہمیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم یہ جان لیں کہ اصل انسان کیا ہے؟ وہ کہاں سے آ کر اپنے لئے جسم بناتا ہے اور پھر جب اس لباس کو اتار کر پھینک دیتا ہے تو کہاں چلا جاتا ہے؟
اس بات سے واقف ہونے کے لئے تمام مذاہب نے قواعد و ضوابط مرتب کئے ہیں اور اس کو بہت آسان طریقہ سے بیان کیا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے!
’’میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں میں وہی پیغام لے کر آیا ہوں جو مجھ سے پہلے میرے بھائی پیغمبروں کے ذریعہ نشر ہو چکا ہے۔‘‘
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے آدمی کو انسان سے متعارف کرنے کے لئے بہت اہم اور نہایت مختصر فارمولے بیان فرمائے ہیں تا کہ نوع انسانی خود آگہی حاصل کر کے اصل انسان سے متعارف ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پھر اس کو نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور تم کو کان دیئے، آنکھیں دیں اور دل دیئے۔‘‘
(سورۃ السجدہ۔ آیت۹)
اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا:
’’یہ لوگ آپﷺ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپﷺ کہہ دیجئے روح میرے رب کے امر سے ہے۔‘‘
(سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت ۸۵)
امر کی تعریف سورہ یٰسین کی آخری آیات میں بیان کی گئی ہے۔
اس کا امر یہ ہے کہ
’’جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
(سورۃ یٰس۔ آیت ۸۲)
آدمی جسمانی اعتبار سے ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ اس کے اندر روح ڈال دی گئی اور اسے حواس مل گئے۔ روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے اور اللہ تعالیٰ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اور کہتا ہے ’’ہو‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔
انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ دیکھ کر افسوس اور دکھ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ انسان ہمیشہ مضطرب، بدحال، غمگین، خوفزدہ اور پریشان رہا ہے۔
ڈر، خوف اور عدم تحفظ اس زمانے میں بہت زیادہ اور کبھی کم ہوتا ہے۔ لیکن رہتا ضرور ہے۔ جیسے جیسے انسان کی دلچسپیاں مادی وجود میں زیادہ ہوتی ہیں اسی مناسبت سے وہ اصل انسان اور روشنیوں سے دور ہو جاتا ہے۔ اصل انسان اور روشنیوں کے انسان سے دوری کا نام ہی اضطراب، بے چینی، درماندگی اور پریشانی ہے۔ آج کے دور میں جس قدر عدم تحفظ کا احساس اور ذہنی کشمکش، اعصابی تناؤ اور بے یقینی بڑھ گئی ہے اس کا اندازہ ہر شخص کو ہے اس سے محفوظ رہنے اور پرسکون زندگی گزارنے کا طریقہ اگر کوئی ہے تو یہ ہے کہ آدمی اصل انسان سے تعارف حاصل کرے۔ جب ہم اصل انسان سے متعارف ہو جائیں گے تو ہم لہروں، روشنیوں کی پرمسرت ٹھنڈ میں خود کو محفوظ دیکھیں گے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 85 تا 88
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔