زم زم
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11326
جب حضرت ہاجرہؓ مروہ پر تھیں تو کانوں میں سرگوشی ہوئی۔ یہ سرگوشی آواز بن گئی تو حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا اور فرمایا۔
’’اگر تم کچھ مدد کر سکتے ہو تو سامنے آؤ۔‘‘
دیکھا حضرت جبرائیل علیہ السلام سامنے ہیں۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے زمین پر پیر مارا اور اس جگہ سے پانی ابلنے لگا۔ یہ وہ ہی جگہ ہے جہاں آج کل زم زم کا کنواں ہے۔ جب زمین میں سے پانی ابلنے لگا تو حضرت ہاجرہؓ نے چاروں طرف سے منڈیر بنا دی خدا کی قدرت کا ظہور ہوتا رہا اور پانی کا چشمہ ابلتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فیض آج بھی جاری ہے۔ حضرت ہاجرہؓ نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلایا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت ہاجرہؓ سے کہا۔ خوف اور غم نہ کر اللہ تعالیٰ تجھے اور اس بچہ کو ضائع نہیں کرے گا۔ یہ بیت اللہ کا مقام ہے۔ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کریں گے۔
اسی دوران بنی جرہم کا ایک قبیلہ آ کر ٹھہرا۔ قبیلہ کے ایک بزرگ نے دیکھا کہ کچھ دور آسمان پر پرندے اڑ رہے ہیں۔
جرہم نے کہا یہ پانی کی علامت ہے۔ جہاں یہ پرندے اڑ رہے ہیں وہاں پانی ضرور ہے۔ جرہم نے حضرت ہاجرہؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر قیام کی اجازت مانگی۔
حضرت ہاجرہؓ نے فرمایا۔ تم اور تمہارا قبیلہ قیام کر سکتے ہو پانی کی ملکیت کے حصہ دار نہیں ہو گے۔ جرہم نے یہ بات بخوشی منظور کر لی۔
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام بڑے ہو گئے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اخلاق کردار علم اور بزرگوں کا احترام چھوٹوں کے ساتھ شفقت جرہم کو بہت پسند آئی اور انہوں نے اپنے خاندان کی ایک لڑکی کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی کر دی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر جب سو سال ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بشارت دی کہ حضرت سارہؓ کے بطن سے ایک بیٹا ہو گا۔ بیٹے کا نام اسحاق رکھنا۔
حضرت ہاجرہؓ اور حضرت سارہؓ کے حالات میں ایسے اہم نکات موجود ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ دونوں خواتین انسانی تاریخ میں قابل فخر اور اہم خواتین ہیں۔ جس پر دنیا جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔
چند اہم نکات یہ ہیں:
۱۔ حضرت ہاجرہؓ شہزادی تھیں مگر انہیں حضرت سارہؓ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں دے دیا گیا تھا۔
۲۔ حضرت ہاجرہؓ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ تھیں۔ نبی کی زوجہ ہونا خود ایک امتیاز اور فخر کی بات ہے۔
۳۔ حضرت ہاجرہؓ حضرت اسماعیلؓ کی والدہ ہیں نبی کی والدہ ہونا بڑی عظمت کی بات ہے وہ بھی ایسے نبی کی والدہ جن کے اوپر انبیاء کی طرز فکر کی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ ایسے نبی جو اپنی قربانی کی وجہ سے تاریخ کا بے مثال باب ہیں۔
۴۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس جگہ حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑا تھا وہاں پانی نہیں تھا۔
۵۔ حضرت ہاجرہؓ کا دو پہاڑیوں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنا اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک اس کو یادگار بنا دیا۔
۶۔ زم زم کے ظاہر ہونے سے پہلے حضرت ہاجرہؓ اور فرشتے کے درمیان گفتگو ہوئی۔ فرشتے کا تسلی دینا کہ اللہ تعالیٰ تم کو ضائع نہیں کرے گا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت ہاجرہؓ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ خاتون ہیں۔
۷۔ ایک ویران مقام پر حضرت ہاجرہؓ کے قیام کی وجہ سے مکہ شہر آباد ہوا اور مکہ شہر میں بیت اللہ شریف بنا۔
۸۔ خانہ کعبہ کو بھی حضرت ہاجرہؓ سے ایک خاص نسبت حاصل ہے کہ ان کے شوہر اور بیٹے نے مل کر اسے تعمیر کیا۔
۹۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ویرانے میں چھوڑ کر جانے لگے تو حضرت ہاجرہؓ نے پوچھا کہ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہو۔ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مگرجب حضرت ہاجرہؓ نے کہا کہ کیا ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے چھوڑ کر جا رہے ہو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔
’’ہاں، میں یہ کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کر رہا ہوں۔‘‘
اس وقت جو اطمینان حضرت ہاجرہؓ کو حاصل ہوا۔ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ، کامل یقین اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ظاہر کرتا ہے۔
۱۰۔ حضرت ہاجرہؓ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری زوجہ محترمہ تھیں۔ رسول اللہﷺ نے اس بات پر فخر کیا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔
۱۱۔ حضرت سارہؓ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کی نسل میں بہت سارے پیغمبر پیدا ہوئے۔
۱۲۔ حضرت سارہؓ کا فرشتوں کو دیکھنا، گفتگو کرنا، ان کی عظمت و بزرگی کی علامت ہے۔
۱۳۔ حضرت سارہؓ کے یہاں نوے (۹۰) سال کی عمر میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کی بشارت اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم کا ایک کھلا ثبوت ہے۔
۱۴۔ حضرت سارہؓ کی طرف حاکم مصر کا بری نیت سے ہاتھ بڑھانا اور ہاتھ کا مفلوج ہو جانا اور بار بار ایسا ہونا یہ حضرت سارہؓ کی عظمت و کرامت ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 66 تا 69
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔