باہر نہیں ہم اندر دیکھتے ہیں
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11198
ہم سمجھتے یہ ہیں کہ باہر دیکھ رہے ہیں حالانکہ ہم باہر نہیں اندر دیکھ رہے ہیں۔ ہم کرسی کو کرسی اس وقت کہتے ہیں جبکہ کرسی کا علم کرسی کے عکس کی صورت میں ہمارے دماغ میں منتقل ہو۔ اگر کرسی ہمارے سامنے نہیں ہے تو ہم کرسی کو نہیں دیکھتے۔ ہم کسی چیز کو دیکھ کر اس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ فلاں چیز ہے۔ اگر چیز سامنے نہ ہو اور ہمارا ذہن اس سے باخبر نہ ہو ہم اس چیز کے تذکرہ سے قاصر ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ اپنے دماغ کی سطح پر دیکھتے ہیں یا اپنے اندر دیکھتے ہیں تو پھر یہ کہنا کہ ہم باہر دیکھ رہے ہیں مفروضے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور یہ مفروضہ آدم کی اولاد کو جبلی طور پر اسلاف سے منتقل ہوا ہے۔
ابھی بچہ شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھتا کہ اس کے اطراف کا ماحول اسے مسلسل یہ اطلاع قبول کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ ہم باہر دیکھ رہے ہیں۔ بچے کو جب چاند سے روشناس کرایا جاتا ہے تو یہ بات بتائی جاتی ہے کہ چندا ماموں آسمان پر ہیں۔ ساتھ ہی ماں یا خاندان کا کوئی قریبی فرد انگلی کے اشارے سے بچے کو یہ بات ذہن نشین کرا دیتا ہے کہ چاند ہم سے بہت دور نظر آتا ہے۔
جب ہم دوری کا تذکرہ کرتے ہیں تو فاصلہ اور وقت کا علم وجود میں آ جاتا ہے اور یہ علم ہماری زندگی میں پیوست اور نقش ہو جاتا ہے۔
ہم وقت کے بغیر کسی چیز کا تذکرہ نہیں کر سکتے۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ بچہ اتنے سال کا ہے یا بچے کی اتنی عمر ہے تو فی الواقع یہ کہتے ہیں کہ یہ بچہ اتنی مدت گزار چکا ہے۔ جوانی کے تذکرہ میں بھی یہ بات مخفی ہے کہ بچہ سولہ یا اٹھارہ سالوں کا عرصہ گزار چکا ہے۔ اسی طرح ادھیڑ عمر کا ذکر بھی اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہ شخص تیس، چالیس سالوں سے گزرے ہوئے وقفہ کی تصویر ہے۔ یہی صورت بڑھاپے کی ہے جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں آدمی بوڑھا ہو گیا تو دراصل ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی نے ساٹھ سال یا اس سے زیادہ وقفہ گزار لیا ہے۔
ہم آم کے درخت کا تذکرہ اس کے وقت گزارنے کے عمل کے بغیر نہیں کر سکتے۔ جس وقت آم کے درخت کو آم کہا جاتا ہے تو پہلے ہمارا ذہن اس درخت کے ساتھ چپکے ہوئے وقت کو ناپتا ہے۔ جب ہم کسی درخت کے بیج کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے ذہن میں ہوتی ہے کہ یہ بیج کسی وقت زمین میں بویا گیا ہو گا پھر اس بیج کا درخت بنا ہو گا۔ اور پھر اس درخت نے نشوونما میں ایک عرصہ یا زمانہ گزرا اور اس بیج کا ظہور ہوا۔
ایک بیج کو بیان کرنے میں یا دیکھنے کے لئے ہمیں کم و بیش مہینوں اور بعض مرتبہ سالوں کے وقت سے گزرنا پڑتا ہے وقت کے محیط ہوئے بغیر ہم کسی بھی حالت میں بیج کو آم نہیں کہہ سکتے علیٰ ہذالقیاس یہی حال کائنات میں موجود ہر شئے کا ہے۔
اب یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ ہم کسی چیز کو بغیر علم یا بغیر اطلاع کے نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا تذکرہ کر سکتے ہیں یعنی ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں جو کچھ سمجھ رہے ہیں۔ یا جس چیز کا تذکرہ کر رہے ہیں اس کی حیثیت صرف اطلاع ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 25 تا 27
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔