روحانی اسکول میں تربیت
مکمل کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11168
سلسلۂ عظیمیہ کی جب بنیاد رکھی گئی، حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھ سے ارشاد فرمایا تھا خواجہ صاحب آپ کو سلسلہ کی تعلیمات کو دنیا میں پھیلانا ہے۔ سلسلہ کی تعلیم کو عام کرنا ہے۔
اس وقت میرے ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ سلسلے کے سربراہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ دستار فضیلت اور گدی نشینی کے آداب سے واقف ہو، اونچی جگہ بیٹھنے والا بندہ ہو۔ اس کے آگے پیچھے بہت سارے لوگ ہوں، جو لوگ سامنے ہوں وہ سرنگوں ہوں اور جو لوگ بیٹھے ہوئے ہوں ان کے اندر اتنی جرأت نہ ہو کہ وہ آنکھ اٹھا کر مرشد کے چہرے کو دیکھ سکیں۔ مرشد کی خلوت اور جلوت میں مریدین کا کوئی حق نہ ہو۔
مقصد یہ ہے کہ میرے ذہن میں سلسلے کے بڑوں کے لئے ایک ماورائی ہستی کا تصور تھا۔ یہ بات ذہن میں نہیں تھی کہ مرشد اندر سے روشن ہوتا ہے اور یہ بات اس لئے ذہن میں نہیں تھی کہ زندگی میں کبھی سنا ہی نہیں تھا کہ انسان کی اصل زندگی باطنی زندگی ہے اور ظاہر زندگی مفروضہ اور فکشن ہے۔
میں نے یہ سب کچھ سوچ کر حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے عرض کیا!
آپ نے ایسی عجیب بات فرمائی ہے کہ جس کا تصور بھی میرے ذہن میں نہیں ابھرتا۔ اس لئے کہ اگر روحانی استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھا مقرر ہو تو تقریر کرنا مجھے نہیں آتی۔ مرشد کے لئے ضروری ہے کہ اسے لکھنا آتا ہو تو لکھنا بھی مجھے نہیں آتا، مرشد کے لئے ضروری ہے کہ اس کی معلومات عام لوگوںکی معلومات سے زیادہ ہوں تومیں نےاسکول میں پہلی جماعت بھی نہیں پڑھی۔
مرشد کو روحانی پرواز حاصل ہو تو میں اس تجربے سے نہیں گزرا۔ میں جس ماحول میں پیدا ہوا، میں نے جس ماحول میں نشوونما پائی وہاں روح کا تصورمجھےنہیں ملا۔میں اس حقیقت سےنہ آشناہوں کہ مادی جسم کےعلاوہ روحانی جسم بھی ہوتاہے؟
میں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں جب یہ معروضات پیش کیں تو قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا!
قانون یہ ہے کہ!
“جب اللہ تعالیٰ کسی کو نوازنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتے کہ آدمی میں کتنی صلاحیت اور کتنی سکت ہے؟ اور آدمی کتنا کام کر سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی اپنی ایک عادت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو نوازتے ہیں تو بندے کے اندر از خود تمام صلاحیتیں بیدار اور متحرک ہو جاتی ہیں۔ وہ اگر گونگا ہے تو بولنا شروع کر دیتا ہے، بہرہ ہے تو سننے لگتا ہے۔ اس کے اندر قوت پرواز نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بال و پر عطا فرما دیتے ہیں۔ اگر وہ بدصورت ہے تو لوگوں کو وہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ اگر اس کا تکلم اچھا نہیں ہے تو اس کے تکلم میں ایسی شیرینی اور حلاوت اللہ تعالیٰ داخل کر دیتے ہیں کہ سننے والے اس کے تکلم کا انتظار کرتے ہیں۔ زمین پر بسنے والوں اور آسمانوں میں رہنے والوں کے لئے اس کا لہجہ تاثیر بن جاتا ہے۔ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے سنتے ہیں۔ اس کے چہرے پر انوار و تجلیات کی ایک ایسی چادر تن جاتی ہے کہ لوگ اسے والہانہ دیکھتے رہتے ہیں۔ جبکہ وہ نہیں سمجھتے کہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے معاملات ہیں۔ آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ میں یہ نہیں کر سکتا، میں وہ نہیں کر سکتا۔ آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ڈیوٹی لگ گئی ہے راضی برضا ہو کر اللہ تعالیٰ کے راستے پر قدم بڑھا د یں۔”
مرشد کریم نے توجہ سے، تصرف سے، گفتگو سے، علم سے، قربت سے، میری تربیت فرمائی اور تربیت کا محور یہ قرار پایا کہ صدیوں پرانی خاندانی روایات کو ختم کر کے نئی روایات، نئے Traditionمیں زندگی گزارنی ہے۔ اور نئی روایات یہ ہیں کہ انسان جو بھی کچھ کرے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ جوعمل کرےاس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل ہو۔اپنی ذات کاعمل دخل نہ ہو۔
صدیوں پرانے شعور نے اس بات کو برداشت نہیں کیا اور صدیوں پرانی روایات نے بغاوت کر دی اور جنگ شروع ہو گئی۔ ظاہر اور باطن کی اس لڑائی نے بے جان اور نڈھال کر دیا۔ شعور نے مزاحمت کی۔ جب مزاحمت بڑھ گئی تو تکالیف کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ احساس تکلیف ختم ہو گیا تو ایک دن مرشدکریم نےسامنےبٹھاکرفرمایاکہ زندگی گزارنےکےدوطریقےہیں۔
کچھ بننے کے بھی دو طریقے ہیں۔
کسی سے کچھ حاصل کرنے کے بھی دو طریقے ہیں اور کسی کو کچھ دینے کے لئے بھی دو طریقے ہیں۔
اور وہ دو طریقے یہ ہیں کہ انسان کے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسروں سے اپنی بات منوا سکے۔ انسان کے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسروں کو اپنا ہم ذہن بنا سکے۔ انسان کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ صدیوں پرانی منفی روایات کو دفن کر سکے۔ حقیقی اور مثبت روایات کو جاری و ساری رکھنے کے لئے ساری دنیا کا مقابلہ کرنے کی جرأت اور ہمت ہو۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 13 تا 17
آگہی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔