یہ تحریر اردو (الأردية) میں بھی دستیاب ہے۔
صدقہ و خیرات
مکمل کتاب : تجلیات
المؤلف :خواجة شمس الدين عظيمي
URL قصير: https://iseek.online/?p=8415
مال و دولت سے محبت انسان کے اندر رچی بسی ہوئی ہے اور وہ مال و دولت کی محبت میں اس قدر مبتلا ہے کہ خود قرآن کو کہنا پڑا کہ۔
’’بے شک انسان مال و دولت کی محبت میں بڑا شدید ہے۔‘‘
انسان سمجھتا ہے کہ مال و دولت کے انبار اس کی ضروریات کی کفالت کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ گن گن کر مال و دولت جمع کرتا ہے اور اس یقین کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ مرتے دم تک مال و دولت کے معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس دوڑ میں وہ اپنے بھائیوں کے حقوق کے اتلاف کی بھی پروا نہیں کرتا۔ قدرت نے اسے توانائیوں کے جو بیش بہا خزانے کسی اور مقصد کے لئے عطا کئے ہیں وہ انہیں ہوس زر میں صرف کر دیتا ہے۔
انسان کہتا ہے جو کچھ میں کماتا ہوں وہ میرے دست و بازو کی قوت پر منحصر ہے، اس لئے میں جس طرح چاہوں اسے خرچ کروں۔ کوئی مجھے روکنے والا نہیں ہے اور یہی وہ طرز فکر ہے جو آدمی کے اندر سرکشی اور بغاوت کی تخم ریزی کرتی ہے۔ جب یہ سرکشی تناور درخت بن جاتی ہے تو اللہ سے اس کا ذہنی رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور آدمی کا شمار ذریت قارون میں ہونے لگتا ہے۔
اہل ایمان کے دلوں میں دولت کی اہمیت کو کم کرنے اور انہیں عطیہ خداوندی کا احساس دلانے کے لئے قرآن پاک میں جگہ جگہ اللہ کی مخلوق کے لئے مال و دولت کو کھلا رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ طرح طرح سے لوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاک اور حلال کمائی میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے۔ مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے متعلق یہاں تک کہہ دیا گیا کہ
’’تم نیکی اور اچھائی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ وہ چیز اللہ کی راہ میں نہ دے دو جو تمہیں عزیز ہے۔‘‘ آل عمران 92
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی حد کو وسیع کرتے ہوئے کہا گیا کہ
’’اے نبیﷺ! وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ کہہ دو کہ اپنی ضرورت سے زائد۔‘‘ البقرہ 215
ان احکام خداوندی کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ خرچ کیجئے۔ یہ کام سب سے پہلے اپنے مستحق رشتہ داروں سے شروع کیجئے اور پھر اس میں دوسرے ضرورت مندوں کو بھی شامل کر لیجئے۔
یاد رکھیئے! جو کچھ آپ اللہ کے لئے خرچ کریں وہ محض اللہ کی خوشنودی کے لئے ہو۔ اس میں کوئی غرض، بدلہ یا شہرت کا حصول پیش نظر نہ ہو۔
ضرورت مندوں کی امداد پوشیدہ طریقے سے کریں تا کہ آپ کے اندر بڑائی یا نیکی کا غرور پیدا نہ ہو۔ اور نہ ان کی عزت نفس مجروح ہو۔ کسی کو کچھ دے کر احسان نہ جتائیں اور نہ نمود و نمائش کا اظہار کریں۔ ارشاد خداوندی ہے:
’’مومنو! اپنے صدقات احسان جتا کر اور غریبوں کا دل دکھا کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو محض لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے۔‘‘ البقرہ 264
اگر کوئی آپ سے سوال کرے تو اسے جھڑکئے نہیں۔ اگر آپ اسے کچھ دینے کی حیثیت نہیں رکھتے تو مناسب الفاظ اور نرم لہجے میں معذرت کر لیجئے۔ قرآن پاک کا حکم ہے:
’’اور مانگنے والے کو نہ جھڑکو۔‘‘ وا لاضحی 10۔
انسان کامل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم سخاوت، فیاضی اور مستحقین کی دست گیری میں سب سے ممتاز تھے۔ صحابہ کا کہنا ہے کہ ہم نے آپ سے زیادہ سخی اور فیاض کسی کو نہیں دیکھا۔ یہ آپ کا طرز عمل اور اعلیٰ نمونہ تھا ۔ جس نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جس میں لوگ اپنی کمائی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بے قرار رہتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حال تھا کہ کوئی ضرورت مند آپﷺ کے دروازے سے خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا تھا۔ اگر آپﷺ کے پاس اسے کچھ دینے کو نہیں ہوتا تھا تو آپ کسی سے قرض لے کر اسے عطا کرتے تھے۔ زمانۂ نبوت سے پہلے بھی یتیموں، بیواؤں اور مساکین کی امداد آپﷺ کا شیوہ تھی۔ چنانچہ جب پہلی مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کا نزول ہوا اور بشری تقاضے کے تحت آپ پریشان ہوئے تو حضرت خدیجہؓ نے ان الفاظ میں تسلی دی۔ ’’آپ پریشان نہ ہوں۔ اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ آپ یتیموں کے والی ہیں اور بیواؤں کی سرپرستی فرماتے ہیں۔‘‘
تاریخ شاہد ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ کی صاحب ثروت خاتون حضرت خدیجہؓ سے نکاح فرمایا تو آپ نے اپنی ساری دولت راہ خدا میں خرچ کر دی۔
یہ فیضان نبوت کا اثر تھا کہ نبیﷺ کا گھرانہ بھی ان ہی روایات کا علم بردار بنا جو نبیﷺ نے بطور ورثہ نوع انسانی کے لئے چھوڑی تھیں۔ ان لوگوں کے لئے ارشاد خداوندی ہوا کہ:
’’خود تنگی کی حالت میں رہتے ہیں اور دوسروں کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں۔‘‘ الحشر 9
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مال و دولت کو راہ خدا میں کھلا رکھنے کی تلقین طرح طرح سے کی۔ ایک مرتبہ فرمایا:
’’آدم کے بیٹے کا یہ حال ہے کہ کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال! تیرا مال تو وہی ہے جو تو نے صدقہ کیا اور آگے بھیج دیا، کھا لیا تو اس کو فنا کر چکا اور پہن لیا تو اس کو پرانا کر چکا۔‘‘
ایک بار زبان نبوت یوں گویا ہوئی:
’’اے آدم کے بیٹے! تیرا دینا تیرے لئے بہتر اور تیرا رکھ چھوڑنا تیرے لئے بُرا ہے۔‘‘
ہمارے اوپر فرض ہے کہ ہم اپنی نبئ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں اپنی کمائی کو مخلوق خدا کی بھلائی کے بہترین مصرف میں صرف کریں تا کہ اس سے ہماری اپنی ذات کی نشوونما ہو اور معاشرہ سے معاشی ناہمواری کے عفریت کا خاتمہ ہو جائے۔ رحمت للعالمینﷺ نے ارتکاز دولت پر بار بار اظہار ناپسندیدگی فرمایا اور اسے مستحقین کی ضروریات پر خرچ کرنے کی تلقین فرمائی۔ حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’جس کے پاس سواری کے لئے زائد اونٹ ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں۔ جس کے پاس زائد زاد راہ ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس زاد راہ نہیں۔‘‘
حضرت ابو سعیدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسی طرح مختلف اموال کا ذکر فرماتے رہے حتیٰ کہ ہم نے محسوس کر لیا کہ ضرورت سے زائد مال رکھنے کا ہم میں سے کسی کو حق نہیں ہے۔
راجع هذه المقالة في الكتاب المطبوع على الصفحات (أو الصفحة): 203 إلى 207
یہ تحریر اردو (الأردية) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات فصول من
نرجو تزويدنا بآرائكم.