یہ تحریر اردو (الأردية) میں بھی دستیاب ہے۔
خود شناسی
مکمل کتاب : تجلیات
المؤلف :خواجة شمس الدين عظيمي
URL قصير: https://iseek.online/?p=8370
’’اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے، پیروی کرو اس دین کی جو تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ اس نے پہلے ہی سے تمہیں مسلم کے نام سے نوازا تھا تا کہ رسول ہمارے لئے دین حق کی شہادت دیں اور تم دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے دین حق کی شہادت دو۔‘‘ (قرآن کریم)
ہم بحیثیت مسلم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے جانشیں ہیں اور ہمیں وہی کام انجام دینا ہے جو اللہ کے رسولﷺ نے انجام دیئے ہیں۔ جس طرح آخری نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول و عمل اور شب و روز کی زندگی سے خدا کے دین کو پھیلانے اور واضح کرنے کا حق ادا کیا ہے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پیروکار کی حیثیت سے ہمیں بھی دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے خدا کے دین کو واضح کرنا ہے تا کہ پوری نوع انسانی اللہ کے حقیقی منشاء کو پورا کرنے کے قابل ہو جائے۔ اللہ نے جنات اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ خود اللہ چاہتا ہے کہ بندے اپنی روح سے آشنا ہو کر اللہ کو پہچان لیں۔
جو لوگ خود شناسی سے آگے اللہ کے راستے پر قدم اٹھا چکے ہیں ان کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انسانوں کو اس راستہ پر چلنے کی دعوت دیں جو راستہ صراط مستقیم ہے اور جس راستہ پر چلنے والے لوگوں پر انعام کیا جاتا ہے اور ان کے اوپر عرفان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔
اس دعوت کو عام کرنے کے لئے کچھ ضابطے ہیں، اصول اور قاعدے ہیں۔ ان کو ذہن نشین رکھیئے۔
’’اپنی اصلی حیثیت کو ہمیشہ نگاہ میں رکھیئے۔ خود نمائی اور کبر سے بچیئے۔ کوشش پیہم جاری رکھیئے، اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمت کیجئے، مقصد کے لئے زندہ رہیئے اور اس ہی کے لئے جان دیجئے۔‘‘
انہی کاموں کو انجام دینے کے لئے خدا نے آپ کو ’’خیر اُمّت‘‘ کے عظیم لقب سے سرفراز کیا ہے۔
پاکیزہ نفس اور روحانیت سے سرشار لوگوں سے محبت بندہ کو خود شناسی سے قریب کرتی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں جو آپس میں خدا کی خاطر محبت کرتے ہیں۔ بلاشبہ محبت آخرت کی نجات ہے۔
غصہ، نفرت، تفرقہ، بغض و عناد اس مشن کو تشخص ہے جو بار گاہ ایزدی سے معتوب اور گم کردہ راہ ہے۔ یہ مشن کبر و نخوت، ضد اور ذاتی طور پر غرور کا پرچار کرتا ہے۔ اس کردار میں وہ تمام عوامل کارفرما ہیں جن سے بندہ اللہ سے دور ہو جاتا ہے، اس کے اوپر تاریکی گھٹا بن کر چھا جاتی ہے، ادباد اور آلام و مصائب اس طرح مسلط ہو جاتے ہیں کہ یہ خود اپنی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔ بظاہر دنیا کی ہر آسودگی میسر ہوتی ہے لیکن دل میں ایک ایسا ناسور پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کے تعفن سے روح کے اندر لطیف انوار اپنا رشتہ منقطع کر لیتے ہیں اور جب قطع و یرید کی یہ عادت مزمن ہو جاتی ہے تو انوار کا ذخیرہ پس پردہ چلا جاتا ہے اور اللہ کے ارشاد کے مطابق دلوں پر، کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے اور آنکھوں پر دبیز اور گہرے پردے ڈال دیئے جاتے ہیں۔ یہ محرومی اس کو نہ صرف یہ کہ دنیا میں امن و سکون سے دور کر دیتی ہے بلکہ ایسا بندہ ازلی سعادت اور عرفان حق سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے:
’’قیامت کے روز کچھ لوگ اپنی قبروں سے اٹھیں گے اور ان کے چہرے نور سے جگمگا رہے ہونگے وہ موتیوں کے منبروں پر بٹھائے جائیں گے۔لوگ ان کی شان پر رشک کرینگے۔ یہ لوگ نہ نبی ہونگے نہ شہید ہونگے۔‘‘
ایک بدّو نے سوال کیا “یا رسول اللہﷺ! یہ کون لوگ ہیں، ہمیں ان کی پہچان بتا دیجئے۔‘‘
فرمایا۔’’یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں خدا کی خاطر محبت کرتے ہیں۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا کا دیدار ہوا۔ خدا نے اپنے پیارے نبیﷺ سے کہا۔ ’’مانگیئے!‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دعا مانگی۔
’’اے خدا! میں تجھ سے نیک کاموں کی توفیق چاہتا ہوں اور برے کاموں سے بچنے کی قوت چاہتا ہوں اور مسکینوں کی محبت چاہتا ہوں اور کہ تو میری مغفرت فرما دے اور مجھ پر رحم فرما اور جب تو کسی قوم کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے اس حال میں اٹھا لے کہ میں اس سے محفوظ رہوں اور میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی توفیق چاہتا ہوں جو تیرے قرب کا ذریعہ ہے۔‘‘
راجع هذه المقالة في الكتاب المطبوع على الصفحات (أو الصفحة): 108 إلى 111
یہ تحریر اردو (الأردية) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات فصول من
نرجو تزويدنا بآرائكم.