لیکچر 17 – قضا و قدر

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49773

قضا و قدر

اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اس لئے تخلیق کیا تا کہ وہ پہچانا جائے۔ پہچاننے کے لئے ضروری تھا کہ:

کائنات کے تخلیقی عناصر اور کائنات میں موجود تمام مخلوقات کی نَوعیں اور افراد کا علم جاننے والا کوئی ہو۔

اس شعبے کو پر کرنے کے لئے اللہ نے کائنات کے انتظامی امور انسان کو سکھا دیئے۔ چونکہ یہ علوم براہِ راست خالق کے تخلیقی فارمولوں سے متعلق ہیں، اس لئے انسان کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے نائب کی ہو گئی۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی نیابت و خلافت کے منصب پر فائز کر دیا تو یہ بات از خود یقینی ہو گئی کہ اللہ کے بنائے ہوئے تمام کائناتی شعبے اور ان شعبوں میں انسان کو تصرّف کا حق حاصل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے علم الاَسماء کی روشنی میں انسان کو کائنات کے چلانے کا اور کائنات کو متحرّک اور قائم رکھنے کا اختیار تفویض کر دیا ہے۔ نیابت کا یہی اختیار ہے جس کو قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت کہا ہے۔ نیابت کے تذکرہ میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ کائنات کی بنیادی حیثیت کو سمجھا جائے۔ کائنات جن اصولوں قاعدوں اور فارمولوں پر تخلیق کی گئی ہے، جن قاعدوں ضابطوں مقداروں پر کائنات چل رہی ہے ان سب امور کے یکجائی پروگرام کا نام ’’تکوین‘‘ ہے۔

جس طرح ملک کے انتظامی شعبوں کو Administration کہا جاتا ہے، اسی طرح کائناتی نظام کو تکوین کہا جاتا ہے۔

حکمت تکوین پر جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات لامحالہ زیرِ بحث آجاتی ہے کہ کائنات کس طرح وُجود میں آئی۔

روحانیت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کائنات کی تشکیل چار شعبوں پر مشتمل ہے۔

  1. کائنات کا پہلا مرحلہ اس طرح وُجود میں آیا کہ کائنات کی موجودگی میں وسائل کا دخل نہیں ہے۔ بغیر اسباب و وسائل کے افراد کائنات کی موجودگی کے شعبے کو ابداء کہتے ہیں۔ یہ کائنات کا آغاز بھی ہے اور کائناتی انتظام کا پہلا شعبہ بھی ہے۔ یعنی کائنات کی موجودگی اس طرح وقوع پذیر ہو گئی کہ وسائل زیرِ بحث نہیں آئے۔ اللہ نے جب ’’کُن‘‘ فرما دیا تو کائنات وُجود میں آ گئی۔
  2. عالم مَوجودات میں شکل و صورت، حرکت و سکون کی طرزیں جب نمایاں ہوئیں اور زندگی کے مراحل وقوع میں آنا شروع ہوئے تو تکوین کا دوسرا شعبہ بنا۔ اس شعبہ کا نام ’’خلق‘‘ ہے۔
  3. تکوین کا تیسرا شعبہ ’’تدبیر‘‘ ہے۔ جس میں مَوجودات کی زندگی کے تمام اعمال و حرکات ترتیب (زمان و مکان) کے ساتھ مُرتّب ہو گئے۔
  4. چوتھا شعبہ تَدلّیٰ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ افراد کائنات میں انتظامی امور کے تحت قضا و قدر کی حکمت اور فیصلے مُرتّب ہو گئے۔

اس کی Summaryیہ ہے:

پہلا شعبہ جہاں تکوین کا آغاز ہوا یہ ہے کہ ساری کائنات وُجود میں آ گئی۔ لیکن اسباب و سائل کے بغیر موجود ہو گئی۔ جب کہ ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ کوئی چیز بغیر وسائل کے وُجود میں نہیں آتی۔ زمین کے اوپر پھیلی ہوئی ایجادات اور تخلیقات اور نئی نئی چیزوں پر جب ہم تفکر کرتے ہیں تو ہمیں کوئی ایک چیز بھی نظر نہیں آتی جہاں وسائل کی محتاجی نہ ہو لیکن خالق کائنات کی تعریف یہ ہے کہ وہ اسباب و سائل کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے ارادے و اختیار سے از خود وسائل مہیا ہو جاتے ہیں اور یہ وسائل کائناتی خدوخال اختیار کرکے مظہر بن جاتے ہیں۔

دوسرا شعبہ یہ ہے کہ کائنات کے افراد کو اس بات کا علم حاصل ہو کہ اس کے اندر حرکت و سکون ہے اور افراد کائنات میں ہر فرد شکل و صورت کا محتاج ہے۔ دوسرے شعبے میں کائنات میں حرکت کا آغاز ہو گیا۔

کائنات جب بغیر وسائل و اسباب کے موجود ہو گئی تو اس کے اندر حرکت و سکون کی طرزیں نہیں تھیں اور نہ ہی کائنات کے افراد اپنی شکل و صورت سے واقف تھے۔ ایک حیرت کا عالَم تھا اور بس!

دوسرے شعبے میں جب کائنات میں حرکت کا آغاز ہو گیا تو مَوجودات کی زندگی میں ترتیب واقع ہو گئی اور مَوجودات نے یہ جان لیا کہ میری اپنی ایک انفرادی حیثیت ہے۔ جب مَوجودات کے علم میں یہ بات آ گئی کہ اس کی اپنی انفرادی حیثیت ہے۔ اس کے اندر حرکت و سکون کی طرزیں موجود ہیں تو وہ اس بات سے بھی واقف ہو گئیں کہ ان کی زندگی ایک ایسے دائرے میں بند ہے کہ جہاں وہ قضا و قدر کے فیصلوں کی محتاج ہے۔

تکوین کے چار شعبے۔

۱۔ وسائل کے بغیر تخلیق

۲۔ حرکت کا آغاز

۳۔ ترتیب اور خود شناسی

۴۔ مخلوق قضا و قدر کے فیصلوں کی محتاج ہے۔

 

کائناتى نظام

آدم کو تکوین کے چار شعبوں کا علم اس لئے عطا کیا گیا ہے کہ وہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے نائب کی حیثیت سے اپنے فرائض پورے کر سکے اور کائناتی امور کو چلا سکے۔ انسانی علوم اور اللہ تعالیٰ کے علوم میں یہ واضح فرق ہے کہ انسان جب نائب کی حیثیت سے تکوینی نظام کو چلاتا ہے تو وہ اسباب و وسائل کا محتاج ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ جب چاہتے ہیں تو تخلیقات عمل میں آ جاتی ہیں اور قضا و قدر کے فیصلے مُدوّن ہو جاتے ہیں۔

انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو مرتبہ عطا کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کائنات میں واحد فرد ہے جو بحیثیت نائب کے اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات کو اور کائنات میں موجود انتظامی امور کو اپنے اختیارات سے چلاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو کائنات کی حاکمیت عطا کر دی۔ حاکمیت کا وصف ہی دراصل نیابت و خلافت کے تقاضے پورے کرتا ہے اور جس طرح دنیاوی Administration میں بےشمار لوگ اپنے اپنے شعبوں کو چلاتے ہیں، اسی طرح کائنات میں بھی مختلف شعبوں کے سربراہ ہوتے ہیں اور ان کی سربراہی میں یہ کائناتی شعبے متحرّک ہیں۔

میں نے ’’لوح و قلم‘‘لکھتے ہوئے حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے سوال کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم کو نیابت و خلافت عطا کر دی تو انسان اللہ کی بنائی ہوئی کائنات میں کس طرح تصرّف کرتا ہے اور جب کائنات پہلے سے وُجود میں آگئی اور قضا و قدر کے فیصلے مُدوّن ہو گئے افراد کائنات حرکت و سکون کی طرزوں سے واقف ہو گئے تو پھر انسان نائب کی حیثیت سے کیا کام کرتا ہے۔

حضور قلندر بابااولیاءؒ نے فرمایا:

کائنات مسلسل تخلیق پذیر ہے۔ ہر آن، ہر لمحے نئے نئے سیارے بنتے ہیں اور پرانے سیارے ٹوٹتے رہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے بندے جو نیابت کے فرائض انجام دیتے ہیں، اِن امور کی نگہبانی کرتے ہیں۔ ان کی Dutyیہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کائناتی تخلیق میں کوئی نئی تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو اپنے نائب حضرات کی ڈیوٹی لگا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہ خاص بندے مَوجودات کی زندگی کے اسباب و وسائل، شکل و صورت، حرکت و سکون کی طرزیں متعین کر کے اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کر دیتے ہیں۔

اس کو Administration کی زبان میں یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نائبین پالیسی بناتے ہیں اور اس پالیسی کو اللہ تعالیٰ اگر قبول کر لیتے ہیں تو انتظامی امور چلانے والے دوسرے بے شمار افراد اس نظام پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ تکوینی امور میں نائبین کے ساتھ فرشتے بھی کام کرتے ہیں۔ لیکن فرشتوں کو ذاتی اختیار نہیں ہوتا۔

آدم بحیثیت خلیفۃُ اللہ، اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات کا حاکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات سے وہ کائنات کی حرکات و سکنات کو ایک ترتیب اور معیّن مقداروں کے ساتھ قائم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو اپنی نیابت و خلافت سونپی تو نیابت اور خلافت کے فرائض انجام دینے کے لئے کائنات کی ساخت اور کائنات کی حرکات و سکنات اور کائنات کی زندگی سے متعلق تمام اَسرار و رُموز اسے سکھا دیئے۔

کائنات کی ساخت کو سمجھنے کے لئے ہم نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ کائنات میں انسان کی حکمرانی:

جس عالَم سے شروع ہوتی ہے اس کو باطن کہتے ہیں…. اور

جس عالَم میں اس حکمرانی کا مظاہرہ ہوتا ہے اس کو ظاہر کہتے ہیں۔

عالم ناسوت میں خلیفۃُ اللہ کے دیئے ہوئے احکامات میں نقش و نگار مُرتّب ہو کر ان کا نُزول ہوتا ہے تو اس نُزولی کیفیت کا نام زمان اور مکان ہے۔

حرکت کے بے شمار شعبوں کا تعلق روح سے ہے اور روح کا تعلق تجلّی سے ہے۔

تجلّی کے دو شعبے ہیں:

ایک شعبہ اَخفیٰ…. اور

دوسرا شعبہ خَفی ہے۔

لطیفۂِ اَخفیٰ اور لطیفۂِ خَفی روحِ اعظم ہے۔

تجلّی کے نُزول کے بعد پہلا تنزّل جس شعبے میں واقع ہوا ہے یا جہاں سے تجلّی کے اندر نقش و نگار اور حرکت کا مظاہرہ شروع ہوتا ہے اس شعبے کا نام لطیفۂِ سِرّی ہے…. اور اِس کے بعد جیسے جیسے نُزول ہوتا رہتا ہے اسی مناسبت سے ماہیت اور فعلیت پیدا ہوتی رہتی ہے۔

  • لطیفۂِ خَفی اور اَخفیٰ کو ثابِتہ (روحِ اعظم) کہتے ہیں…. اور
  • دوسرے دو شعبے سرّی اور روحی یا روحِ انسانی ہے…. اور
  • باقی دو شعبے قلبی اور نفسی نَسمہ ہے۔

روح کے چھ شعبے ہیں…. دو شعبے باطنی ہیں اور چار شعبے ظاہری ہیں۔

باطنی شعبوں سے مراد تجلّیِٔ مطلق ہے اور ظاہری شعبوں سے مراد حرکت اور نقش و نگار ہیں۔

 

  • تجلّی کی پہلی رَو کا نام ’’نہرِ تَسوید‘‘ ہے۔
  • تجلّی کا پہلا نُزول جہاں ہوتا ہے اس کا نام ’’نہرِ تَجرید‘‘ ہے۔
  • تجلّی کے نُزول کے بعد جب مزید نُزول ہوتا ہے تو اس رَو کا نام ’’نہرِ تَشہید‘‘ …. اور
  • چوتھی نہر کا نام ’’نہرِ تَظہیر‘‘ ہے

شیطانی وسوسوں کی ابتداء وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں تجلّی کے نُزول کے بعد نقش و نگار بنتے ہیں۔ تجلّی کے نُزول کے بعد نقش و نگار بننا تجلّی سے دُوری کے نتیجہ میں واقع ہوتا ہے۔

روحِ انسانی کا پہلا شعبہ سرّی ہے۔ اسی مقام سے وسوسوں کی ابتداء ہوتی ہے۔

یہی شعبہ ہے جہاں وسوسوں اور شک و شبہات میں مبتلا ہو کر انسان مطلقیت اور صفَت ربّانیت کو بھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ یعنی اپنی اصل سے گریز کرتا ہے۔ گریز سے مراد یہ ہے کہ انسان تجلّی مطلق سے دور ہو گیا۔ شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان علم الاَسماء کے ان علوم کو جانتا ہو جن علوم کے ذریعہ انسان کو تجلّی سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 140 تا 145

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)