لیکچر 13 – قوتِ اِلقاء

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49116

قوتِ اِلقاء

جس چیز کو ہم جانتے ہیں…. اور جن جذبات و احساسات سے ہم واقف ہیں اس کا نام شعور ہے…. اور

جن خیالات کو نہیں جانتے ان کا نام لاشعور ہے….

یہ جاننا اور نہ جاننا دونوں انسان کے اندر موجود ہیں….

ان طرزوں کو جو ہماری سمجھ میں ابھی تک نہیں آ سکی ہیں ’’لا‘‘ کہا جاتا ہے۔

لا کی طرزوں میں داخل ہونے کے لئے اور لا کی طرزوں سے متعارف ہونے کے لئے ہمیں اِلّا کی نفی کرنی پڑتی ہے۔

مادی دنیا میں زمان و مکاں کی جس زندگی سے ہم واقف ہیں…. اور جو زندگی ہمارے اوپر مسلط ہے اس کی نفی کر کے ہی ہم علمِ لا میں داخل ہو سکتے ہیں۔

علمِ لا سے واقفیت ‘‘اِلقاء’’ ہے۔ القاء کی چار قسمیں ہیں۔  جنہیں تنزّلات کہا جاتا ہے:

  • پہلا تنزّل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائنات جس طرح تھی اس کا مظاہرہ ہو گیا۔ یہ مظاہرہ ‘‘علمُ القلم’’ ہے۔
  • تنزّلِ دوم میں اللہ کے اَسرار و رُموز تجلّیات میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ تجلّیات مشیئت ایزدی کا پورا احاطہ کر لیتی ہیں۔
  • تنزّلِ سوم میں اَسرار و رُموز لوحِ محفوظ کے نقش و نگار کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی نقش و نگار ‘‘تقدیر مُبرَم’’ ہے۔
  • تیسرے تنزّل کے بعد جب کوئی شئے عالم ناسوت کی حدود میں داخل ہو کر عنصریت کا لباس پہنتی ہے اور مکانیت کی بنیاد پڑتی ہے اسے تنزّل چہارم کہتے ہیں۔

 

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ:

ہر زمانے میں اِختراعات و اِیجادات کا سلسلہ…. دورِ ازلیہ سے قیامت تک…. اور قیامت کے بعد ابدُ الآباد تک…. جو جو نئے اعمال پیش آتے رہیں گے…. دورِ ازلیہ کی حدود سے باہر نہیں ہیں۔

ابد تک ممکنات کا ہر مظاہرہ ازل ہی کے احاطے میں مقید ہے۔  اس ہی لئے علم القلم کا جو بھی تنزّل پیش آ رہا ہے یا پیش آئے گا وہ علمُ القلم ہے۔

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

میں لوحِ محفوظ کا مالک ہوں جس حکم کو چاہوں برقرار رکھوں اور جس حکم کو چاہوں منسوخ کر دوں

ترجمہ:

…. ہر وعدہ ہے لکھا ہوا  (38)

مٹاتا ہے اللہ جو چاہے اور رکھتا ہے (جو چاہے) اور اس کے پاس ہے اصل کتاب (39)

(سورۃ رعد)

 

مثال:

ایک مشین ہے۔ مشین کو چلانے والا کوئی آپریٹر ہے۔  مشین کے اوپر ایک فلمی رِیل ہے۔ اس رِیل کا عکس کئی Lenses سے گزر کر خلاء میں ہوتا ہُوا پردے پر ظاہر ہوتا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ:

آدمی سینما میں بیٹھا ہوا ہے، پردے کے اوپر متحرّک تصویریں ہیں….

اس کی نظر نہ تو خلا میں ہوتی ہے…. نہ مشین پر ہوتی ہے…. نہ ان Lensesکو دیکھتا ہے جن سے گزر کر تصویریں پردے پر آرہی ہیں…. نہ ہی اس کے سامنے مشین چلانے والا آپریٹر ہوتا ہے…. لیکن پردے کے اوپر خدوخال کے ساتھ تصویریں متحرّک ہوتی ہیں….  آنکھ ان تصاویر کو دیکھتی ہے۔

 

یوں سمجھئے کہ:

  • جب تک مخلوق اللہ کے ذہن میں تھی خدوخال نہیں تھے…. لیکن
  • واجب کے لینس (Lens) سے گزرنے کے بعد جیسے ہی لوحِ محفوظ میں قدم رکھا حکم کے خدوخال مُرتّب ہو گئے…. پھر
  • عالمِ تمثال میں یہ تصویریں وُجود میں آ گئیں لیکن ان تصویروں میں جسَدِ خاکی کا لباس ظاہر نہیں ہوا….
  • جب تک خدوخال کے اوپر جسَدِ خاکی یا جسمانی لباس نہیں آتا تصویر احساس سے رُوشناس نہیں تھی۔

 

اِلقاء کی:

  • پہلی منزل میں مَوجودات اللہ کے علم میں موجود ہیں، لیکن ان میں خدوخال نہیں بنے تھے
  • احکامات اور تصویروں نے اس وقت خدوخال اختیار کئے جب وہ لوحِ محفوظ پر نقش ہوئیں…. اور جب
  • احکامات لوحِ محفوظ سے گزر کر برزخ میں آئے تو روشنیوں کا جسم بن گیا
  • جب یہ تصویریں جسَدِ خاکی کا لباس پہن لیتی ہیں ان میں مکانیت اور زمانیت کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ خود کو زمانیت اور مکانیت میں قید محسوس کرتی ہیں…. یہی اِلقاء کی چوتھی منزل ہے۔

 

سالک مجذوب …. مجذوب سالک

علم کی دو قسمیں ہیں:

  • ایک قسم کا نام علمِ حُصولی ہے… اور
  • دوسرے رخ کا نام علمِ حُضوری ہے ۔

 

علمِ حصولی وہ علم ہے جو زمانیت و مکانیت کی حد بندیوں کے ساتھ شعور میں رہتے ہوئے حاصل کیا جائے۔  جتنے بھی کتابی علوم رائج ہیں وہ سب علمِ حُصولی کے دائرے میں آتے ہیں۔

علمِ حُضوری وہ علم ہے جو مکانیت اور زمانیت کی حد بندیوں سے آزاد ہے۔  علمِ حُضوری سیکھنے والے طلباء و طالبات کو دو ناموں سے یاد کیا جاتا ہے:

  • ایک کا نام سالک مجذوب ہے…. اور
  • دوسرے کا نام مجذوب سالک ہے۔

 

سالک ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو نوافل اور ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ باطنی کیفیات میں داخل ہو جاتا ہے…. لیکن اگر نماز روزہ ادا کرنے کے بعد وہ باطنی کیفیات سے رُوشناس نہیں ہوا…. مخصوص قسم کی وضع قطع اور مخصوص لباس پہن کر اسے اپنے نفس کا عرفان حاصل نہیں ہُوا…. تو ایسے شخص کو سالک نہیں کہا جاسکتا۔

سالک کا مطلب یہ ہے کہ شریعت مُطہرہ پر اس طرح عمل کیا جائے کہ اس میں کوئی کھوٹ نہ ہو اور اسے عبادات اور نوافل کے ذریعہ پہلے خود اپنا عرفان حاصل ہوا اور پھر اللہ کا عرفان حاصل ہو جائے۔

مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ

سالک کے لئے ضروری ہے کہ…. اُس کی اُفتادِ طبیعت میں…. اُس کی طرز فکر میں…. اُس کے اعمال و حرکات میں…. اُس کی زندگی کے شب و روز میں…. اللہ کی صفات کا رنگ شامل ہو۔  اللہ کی محبت سے اس کے لطائف رنگین ہوں۔  کچھ لوگ اس شخص کو سالک کہتے ہیں جو روحانیت کا متلاشی ہے اور روحانیت کو تلاش کرنے میں مصروف ہے۔  اس کو بھی سالک نہیں کہتے۔  فی الواقع…. سالک وہی ہے جس کے لطائف رنگین ہو چکے ہوں۔  رنگینی سے مراد ہمیشہ دُوری ہوتی ہے۔  روحانیت میں سفر کرنے والا طالب علم جب تک اپنی مادی سوچ مفروضہ اور فکشن حواس کی طرز فکر سے خود کو دُور نہیں کر لیتا، اُس وقت تک اُس کے لطائف میں رنگینی پیدا نہیں ہوتی۔

کچھ لوگ روحانی سفر کرنے والے کو شیخ یا صاحب ولایت کہتے ہیں۔  یہ بات بھی صحیح نہیں ہے۔  روحانی سفر وہی شخص کرتا ہے جس کے لطائف رنگین ہو جاتے ہیں۔  شیخ یا صاحب ولایت اس شخص کو کہتے ہیں جو توحیدِ اَفعالی سے ترقی کر کے توحیدِ صفات کی منزل میں داخل ہو جائے۔

میری تحقیق کے مطابق شیخ صاحبان کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کا علم اتنا محدود ہوتا ہے کہ ان حضرات کو خواب کی علمی حیثیت کا بھی پتہ نہیں ہوتا اور وہ روحانیت کی اَبجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روحانیت کو ایک کھیل تماشہ بنا دیا گیا ہے۔  سیدھی سی بات ہے ایک استاد جو علم جانتا ہی نہیں ہے وہ اپنے شاگردوں کو کیا پڑھائے گا۔

 

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے زمانے میں پچیس فیصد (%25) لوگ روحانی ہوتے تھے۔  آج چودہ سو سال کے بعد یہ Percentage اس قدر کم ہو گئی ہے کہ فی زمانہ ساڑھے گیارہ لاکھ (1,150,000) آدمیوں میں ایک آدمی روحانی ہے۔  وجہ وہی ہے کہ بظاہر سالک اور منزل رسیدہ لوگوں میں روحانی علوم نفی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

سالک مجذوب کی تعریف میں لوگ عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں…. جو لوگ پاگل اور بدحواس ہوتے ہیں لوگ انہیں مجذوب کہہ دیتے ہیں۔  حالانکہ جو بندہ اللہ کے ذاتی علوم کا وارث ہے…. وہ پاگل کیسے ہو سکتا ہے۔  لوگ کہتے ہیں کہ مجذوب سالک سے افضل ہے…. لیکن یہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ سالک کون ہے؟ اور سالک مجذوب کون ہے؟

مجذوب اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ایسے عالم میں داخل ہو جاتا ہے جہاں اللہ خود اسے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔

قربِ فرائض اور قربِ نوافل کا تذکرہ ہو چکا ہے۔

قربِ نوافل میں وہ تمام احکامات شامل ہیں جو ہر معاشرے میں رائج ہیں اور جن میں معاشرے کا ہر فرد بندھا ہوا ہے۔  مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، حقوق العباد، عبادات، اذکار، مراقبہ جات وظائف و اَوراد وغیرہ قربِ نوافل کے دائرے میں آتے ہیں۔  قربِ نوافل کے ذریعے کسی آدمی کے لطائف رنگینی ہو جاتے ہیں اور لطائف کی رنگینی کے بعد وہ سالک کہلانے کا مستحق ہے۔  لیکن توحید ذاتی میں داخل ہونے کے لئے بندے کے اندر اس طرز فکر کا متحرّک ہونا ضروری ہے جو اللہ کی اپنی طرز فکر ہے۔

مجذوب ایسی طرز فکر رکھتا ہے جس طرز فکر میں وہ اللہ کی مشیئت کے ساتھ ہم رشتہ ہوتا ہے۔

قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا تذکرہ فرمایا ہے کہ:

‘‘وہ لوگ جو علم میں راسخ اور مستحکم ہیں، وہ اس علم سے واقف ہیں جو اللہ کا ذاتی علم ہے۔  وہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر بات، ہر امر اور ہر حکم اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘

حوالہ: سورۃ آلِ عمران، آیت نمبر 7

 

یاد رکھئے! یقین مشاہدے سے مشروط ہے….  جب تک کسی چیز کا مشاہدہ نہ ہو جائے یقین مکمل نہیں ہوتا۔

جس شخص کی روح میں فطری طور پر اُفتادِ طبیعت کے طور پر اِنسَلاخ واقع ہوتا ہے…. یعنی اس کے اندر علم راسخ ہوتا ہے…. کائنات اور غیب کی دنیا اس کے مشاہدے میں آ جاتی ہے۔  وہ ظاہری طور پر اور باطنی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ…. غیب کے پیچھے ایک تحقّق موجود ہے اور اس تحقّق کے اشارے پر ہی مخفی دنیا قائم ہے اور اس عالمِ مخفی کے اعمال و حرکات ہی کائنات ہے۔

قرآنِ پاک میں جہاں اللہ نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ …. اللہ اسے اُچک لیتا ہے…. مجذوب کی طرف اشارہ ہے۔  یعنی اسے اللہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 105 تا 110

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)