لیکچر 11 – اندر کی آواز

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49063

اندر کی آواز

ساری کائنات اور کائنات کے اندر تمام نَوعیں اور افراد ایک مرکزیت کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔

مختلف مراحل اور زندگی کے مختلف زمانے، ظاہری نظروں سے الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن زمانے کے نشیب و فراز اور زندگی کے مراحل میں تغیّر و تبدّل کتنا ہی کیوں نہ ہو…. سب کا تعلق مرکزیت سے ہے۔

مرکزیت کے درمیان لہریں یا شعاعیں واسطہ ہیں۔

ایک طرف مرکزیت سے لہریں یا شعاعیں نُزول کر کے افراد کائنات کو فیڈ کرتی ہیں…. اور

دوسری طرف فرد کے اندر نُزول ہونے کے بعد صَعود کرتی ہیں۔

نُزول و صَعود کا یہ سلسلہ ہی زندگی ہے۔

مختصر یہ کہ ساری کائنات میں لہر یا شعاع دَور کرتی رہتی ہے۔  شعاع اور لہر کے دورانیہ (Wavelength) کو دیکھتے ہوئے جو کائنات کی صورت بنتی ہے ، اس کو دائرے کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔

یعنی پوری کائنات ایک دائرہ ہے اور یہ دائرہ جب صَعودی اور نُزولی حرکت کرتا ہے تو چھ دائرے بن جاتے ہیں۔

اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ‘‘فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ’’ کہا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

میں نے کائنات کو چھ دن میں بنایا ہے۔  (سورۃ السجدہ: 4)

 

کائنات اور افراد کائنات کے پہلے دائرے کا نام لطیفۂِ نفسی ہے۔

مثال:

لطیفۂِ نفسی ایک چراغ ہے جس میں سے روشنی نکل رہی ہے۔  چراغ کی اس روشنی یا لَو کا نام نگاہ ہے۔

چراغ کی لَو ہوتی ہے، جہاں لَو ہو گی وہاں کا ماحول روشن اور منور ہو جاتا ہے۔  جہاں تک لَو کی روشنی پڑتی ہے یہ خود کا مشاہدہ کر لیتی ہے۔

چراغ کی لَو میں بے شمار رنگ ہیں۔ جتنے رنگ ہیں اتنی ہی کائنات میں رنگینیاں ہیں۔

چراغ کی لَو کی روشنی ہلکی، مدھم، تیز اور بہت تیز ہوتی رہتی ہے۔

جن چیزوں پر روشنی بہت ہلکی پڑتی ہے، ان چیزوں سے متعلق ہمارے دماغ میں تُواہم پیدا ہوتا ہے اور جن چیزوں پر روشنی ہلکی پڑتی ہے ان چیزوں سے متعلق ہمارے دماغ میں خیال پیدا ہوتا ہے اور جن چیزوں پر لو کی روشنی تیز پڑتی ہے ان چیزوں کا ہمارے ذہن میں تصوّر بنتا ہے اور جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت تیز پڑتی ہے ہماری نگاہ ان کو دیکھ لیتی ہے۔

 

کسی چیز کو دیکھنے کے لئے ہم چار مراحل سے گزرتے ہیں:

  1. کسی چیز کو دیکھنے اور سمجھنے کے لئے اس چیز کا ہلکا سا وہم دماغ پر وارِد ہوتا ہے…. یعنی چیز سے متعلق خاکوں میں نسبتاً گہرائی واقع ہوتی ہے۔
  2. وہم میں جب گہرائی واقع ہوتی ہے تو خیال بن جاتا ہے۔
  3. خیال میں گہرائی پیدا ہوتی ہے تو چیز کے نقش و نگار ذہن پر زیادہ گہرے ہو جاتے ہیں۔ نقش و نگار کی ان گہرائیوں کا نام تصوّر ہے…. اور
  4. جب یہ نقش و نگار (تصوّر) میں خدوخال میں ظاہر ہونے لگتے ہیں تو وہ چیز جس کو نگاہ دیکھ رہی ہے، نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔

لطیفۂِ نفسی کے چراغ کی لَو کی روشنیاں جب پھیلتی اور بکھرتی ہیں اور باصرہ کی حِس کا بار بار اِعادہ ہوتا ہے تو درجہ بدرجہ باقی چار حسیں ترتیب پاتی ہیں۔  لطیفۂِ نفسی کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ مصروف ہو جانا اور بکھر جانا پانچوں حسّیات کی تخلیق کا سبب بنتا ہے۔

مرشدِ کریم کے تصرّف سے اگر سالک لطیفۂِ نفسی سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے تو وہ وہم خیال تصوّر اور شئے کے مظاہراتی وُجود کے قانون سے واقف ہو جاتا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے لطیفۂِ نفسی کو ایک روشن چراغ سے تشبیہ دی ہے اور کائنات کو دائرہ کہا ہے۔  یعنی دائرے میں ایک چراغ روشن ہے، اس روشن چراغ کی روشنی ہی دائروں کو منور کرتی ہے۔  یہ روشنی جو دائروں کو روشن رکھے ہوئے ہے دائرے کو دیکھنے کا ذریعہ بنتی ہے۔  چراغ کی لَو کائنات کے دائرے پر پڑتی ہے تو کائنات روشن ہو جاتی ہے۔  یعنی چراغ کی لَو کائنات کو دیکھ رہی ہے اور جہاں جہاں لَو کی روشنی جس جس مناسبت اور فاصلے سے دور یا قریب سے منعکس ہوتی ہے، اسی مناسبت سے نگاہ میں تنوّع پیدا ہوتا ہے۔

جن چیزوں کے اوپر چراغ کی روشنی بہت ہلکی پڑی ہے ان چیزوں سے متعلق ہمارے ذہن میں ایک وہم پیدا ہوتا ہے۔  کسی چیز سے متعلق ایک ہلکا خاکہ ذہن محسوس تو کرتا ہے لیکن شعور اس کا دباؤ محسوس نہیں کرتا۔  یہ بہت ہلکی روشنی جب ہلکی ہوتی ہے تو وہم کا بہت ہلکا خاکہ بنتا ہے اور خاکے میں جب گہرائی پیدا ہو جاتی ہے تو خیال بن جاتا ہے۔  پھر اس خیال میں بھی گہرائی پیدا ہوتی ہے۔

خیال میں گہرائی پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لو کی روشنی تیز ہو جاتی ہے۔  جہاں روشنی تیز ہو جاتی ہے۔  کائناتی دائرے کے اندر موجود چیزوں کا تصوّر ذہن پر وارِد ہونے لگتا ہے۔  تصوّر کا مطلب ہے کہ کسی چیز کا نقش دماغی اسکرین پر اس طرح ابھر آئے کہ دماغ اور شعور وزن محسوس کرے اور دماغ اس کے خدوخال دیکھنے لگے اور جن چیزوں پر چراغ کی روشنی بہت تیز پڑتی ہے وہ چیزیں تصوّر سے گزر کر مظہر بن جاتی ہیں۔

اس میں بہت ہی عجیب نکتہ ہے کہ، کوئی چیز جو ہم دیکھ رہے ہیں آنکھ نہیں دیکھ رہی بلکہ روشنی آنکھ بن جاتی ہے۔  روشنی بصارت بن جاتی ہے روشنی نگاہ بن جاتی ہے۔  روشنی نگاہ بننے کے بعد دُور اور قریب سے مظاہرہ کرتی ہے تو اس دُوری یا قربت کی بنیاد پر کسی چیز کو دیکھنے سے پہلے چار مرحلے آتے ہیں۔

کسی چیز کو نگاہ کے ساتھ دیکھنا اس وقت ممکن ہے جب لطیفۂِ نفسی کی روشنی بہت دُور ہو، بہت دُور سے مراد بہت ہلکی ہو یا کم ہو…. پھر تیز ہو…. اور بہت تیز ہو۔

جہاں لطیفۂِ نفسی کی روشنی بہت ہلکی ہے اس کا نام وہم ہے۔

جہاں لطیفۂِ نفسی کی روشنی ہلکی ہے اس کا نام خیال ہے…. اور

جہاں لطیفۂِ نفسی کی روشنی تیز ہے اس کو تصوّر کہتے ہیں …اور

جہاں روشنی بہت تیز پڑتی ہے وہ شئے نگاہ کے لئے مظہر بن جاتی ہے۔

اس قانون سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے بہت ساری مشقیں ہیں۔  جن میں ایک مشق ‘‘اِسترخاء’’ ہے۔

 

کسی چیز کو توہماتی طور پر خیال کے دائرے میں یا تصوّراتی اور مظاہراتی طور پر دیکھنے کا قانون یہ ہے کہ سالک کے اوپر مختلف صورتیں وارِد ہوتی ہیں۔  کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عمل اِسترخاء سے سماعت حرکت میں آ جاتی ہے۔  سماعت سے مراد یہ ہے کہ روح کے اندر وہ روشنیاں جو ہلکی ہیں اور خیالات بن رہی ہیں آواز بن جاتی ہیں۔  یہ عمل اِسترخاء کا پہلا قدم ہے۔  عام طور پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ پہلے نظر کھل جاتی ہے اور پھر سماعت بیدار ہوتی ہے۔

کائنات میں موجود کسی انسان، کسی فرشتے، کسی پرندے کے اندر جو روشنی خیال بن رہی ہے…. سماعت بن کر گونجنے لگتی ہے….  ایک گونجار پیدا ہوتی ہے۔

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی مقام ہے کہ جب وحی نازل ہوتی ہے تو کانوں میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور گھنٹیوں کی آواز آتی ہے۔

عملِ اِسترخاء میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مادی چیزیں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔  مسلسل بیدار رہنے اور نیند کے اوپر کنٹرول حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اگر سیاہ مرچوں کا سفوف روئی کے پھوؤں پر لگا کر کانوں میں رکھا جائے تو اس سے دماغ کے اندر خیال بننے والی روشنیاں  Echoہونے لگتی ہیں۔  جب آدمی عملِ اِسترخاء میں روئی کے پھوؤں پر سیاہ مرچ کا سفوف چھڑک کر کانوں میں رکھتا ہے اور مراقبہ کرتا ہے تو اسے دُور پرے کی چیزیں اپنے اندر گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔  مثلاً ایک آدمی عملِ اِسترخاء کے بعد مراقبہ کر رہا ہے۔  اس کے کانوں میں روئی کے پھوئے رکھے ہوئے ہیں۔  اس کا خیال کسی فیکٹری کی طرف چلا جاتا ہے فیکٹری میں چلنے والی مشینوں کی آواز وہ باہر سننے کی بجائے اپنے اندر سنتا ہے۔  علیٰ ھٰذا القیاس وہ دوسری آوازیں بھی اپنے اندر سننا شروع کر دیتا ہے۔  سننے کی حِس کے بعد عملِ اِسترخاء میں سونگھنے اور چھونے کے حواس بیدار ہوتے ہیں۔  لاکھوں سال کے فاصلے پر اگر خوشبو کی طرف ذہن متوجہ ہو جائے تو آدمی اس خوشبو کو سونگھ لیتا ہے۔  اسی طرح کوئی چیز لاکھوں میل کے فاصلے پر موجود ہے اور خیال اس کے چھونے کی طرف منتقل ہو گیا تو آدمی اس کا لمس محسوس کرتا ہے۔

 

ذاتی تجربہ

حضور قلندر بابا اولیاءؒ جس وقت یہ قانون لکھوا رہے تھے میرا ذہن کشمیر میں زعفران کے کھیتوں کی طرف مرکوز ہو گیا۔  کشمیر میں کھیتوں کا تصوّر قائم کر کے میں نے لمبے لمبے سانس لینا شروع کر دیئے۔

دیکھتے ہی دیکھتے کمرہ اور گھر کا صحن زعفران کی خوشبو سے معطر ہو گیا۔  باہر سے آنے والے مہمانوں نے بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ اتنی تیز زعفران کی خوشبو کہاں سے آ رہی ہے؟

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 94 تا 98

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)