ظاہر اور باطن
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=8858
یہ ایک تخلیقی لامتناہی سلسلہ ہے جو ہمیں اِس تفکر کی دعوت دیتا ہے کہ ہمارا ایک ظاہر ہے، دوسرا ہمارا باطن۔ ظاہر کو ہم ‘‘مادّہ ‘‘ کہتے ہیں اور باطن کو ‘‘روح ‘‘ کہا جاتا ہے۔ روح بھی دو رُخ پر قائم ہے:
• روح کا ایک مُظاہرہ روح کے بُنے ہُوئے لباس سے ہوتا ہے… اور
• روح کا دوسرا مُظاہرہ خود روح ہے….
حضور قلندر با بااولیاء ؒ نے اپنی کتاب لَوح و قلم میں اس کی مثال قمیض اور جسم سے دی ہے۔ فرماتے ہیں:
ہمارے سامنے ایک مجسمہ ہے جو گوشت اور پوست سے مرکب ہے، طبّی نقطۂِ نظر سے ہڈیوں کے ڈھانچے پر رگ پٹھوں کی بُناوٹ کو ایک جسم کی شکل و صورت دی گئی ہے۔ ہم اس کا نام ’’جسم‘‘ رکھتے ہیں اور اس کو اصل سمجھتے ہیں۔ اس کی حفاظت کیلئے ایک چیز اِختراع کی گئی ہے، جس کا نام لباس ہے۔ یہ لباس سُوتی کپڑے کا، اونی کپڑے کا یا کسی کھال وغیرہ کا ہُوا کرتا ہے۔ اس لباس کا محلِ استعمال صرف گوشت پوست کے جسم کی حفاظت ہے۔ فی الحقیقت اس لباس میں اپنی کوئی زندگی یا اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ جب یہ لباس جسم پر ہوتا ہے تو جسم کےساتھ حرکت کرتا ہے، یعنی اس کی حرکت جسم سے منتقل ہو کر اس کو ملی۔ لیکن درحقیقت وہ جسم کے اعضاء کی حرکت ہے۔ جب ہم ہاتھ اٹھاتے ہیں تو آستین بھی گوشت پوست کے ہاتھ کے ساتھ حرکت کرتی ہے۔ یہ آستین اس لباس کا حصّہ ہے جو لباس جسم کی حفاظت کیلئے استعمال ہُوا ہے۔ اس لباس کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جب یہ لباس جسم پر ہوتا ہے تو جسم کی حرکت اس کے اندر منتقل ہو جاتی ہے اور اگر اس لباس کو اتار کر چارپائی پر ڈال دیا جائے یا کھونٹی پر لٹکا دیا جائے تو اس کی تمام حرکتیں ساقِط ہو جاتی ہیں۔ اب ہم لباس کا جسم کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ اس کی کتنی ہی مثالیں ہو سکتی ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال دے کرصحیح مفہوم ذہن نشین ہو سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مَر گیا۔ مَرنے کے بعد اس کے جسم کو کاٹ ڈالئے، ٹکڑے کر دیجئے، کچھ کیجئے جسم کی اپنی طرف سے کوئی مدافعت، کوئی حرکت عمَل میں نہیں آئے گی۔ اس مُردہ جسم کو ایک طرف ڈال دیجئے تو اس میں زندگی کا کوئی شائبہ کسی لمحے بھی پیداہو نے کا اِمکان نہیں ہے۔ اس کو جس طرح ڈال دیا جا یئے گا، پڑا رہے گا۔ اس کے معنی یہ ہُوئے کہ مَرنے کے بعد جسم کی حیثیت صرف لباس کی رہ جاتی ہے، اصل انسان اس میں مَوجود نہیں رہتا۔ وہ اس لباس کو چھوڑ کر کہیں چلا جاتاہے۔ اگر یہ جسم اصل ہوتا تو کسی نہ کسی نَوعیت سے اس کے اندر زندگی کا کوئی شائبہ ضرور پایا جاتا لیکن نَوعِ انسانی کی مکمل تاریخ ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتی کہ کسی مُردہ جسم نے کبھی حرکت کی ہو۔ اس صورت میں ہم اس انسان کاتجسّس کرنے پر مجبور ہیں جو اس جسم کے لباس کو چھوڑ کر کہیں رُخصت ہو جاتا ہے۔ اس ہی انسا ن کا نام انبیاء کرامؑ کی زبان میں”روح” ہے، اور وہی انسان کا اصل جسم ہے۔ نیز یہی جسم ان تمام صلاحیّتوں کا مالک ہے، جن کے مجموعے کو ہم زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
جسم اور لباس کی اس خوبصورت تشبیہ اور مثال سے یہ بات پوری طرح ثابت ہو جاتی ہےکہ:
اصل انسان یا اصل زندگی لباس نہیں ہے۔ جب تک جسم کے اوپر لباس ہے، لباس کی حیثیت برقرار ہے اور جب ہم لباس کو اتار دیتے ہیں یا لباس سے اپنی دلچسپی ختم کر دیتے ہیں تو لباس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی، لباس بکھر جاتا ہے، فنا ہو جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 20 تا 21
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔