تفکر کی صلاحیت
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13337
سوال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو بہترین صناعی سے بنایا گیا ہے اور یہ اسفل میں گر گیا۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ بار بار تفکر کی دعوت دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ترکِ تفکر ہی اسفل ہے؟ تفکر کا مفہوم کیا ہے؟ کیا گہرائی میں فکر کرنے کو تفکر کہا جاتا ہے؟ ایمان و ایقان کا تفکر سے کیا ربط ہے؟ اور کیا کوئی انسان تفکر کر کے کائنات کی حکمرانی میں اللہ کا نائب بن سکتا ہے؟ تفکر کی صلاحیت سے محروم انسان اور حیوانات میں کیا فرق ہے؟
جواب: جب ہم عقل و شعور کا موازنہ کرتے ہیں تو کوئی آدمی ہمیں زیادہ باصلاحیت نظر آتا ہے، کوئی آدمی کم صلاحیت اور کوئی آدمی بالکل بے عقل ہوتا ہے۔ سائنس خلاء (Space) میں چہل قدمی کا دعویٰ کر سکتی ہے لیکن ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ بے عقل آدمی کو عقلمند بنا دیا گیا ہو۔ اللہ ہی اپنی مرضی سے عقل و شعور بخشتا ہے۔ آدمی کے اندر فکر و گہرائی عطا کرتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عقل و فکر ہمارا ذاتی وصف ہے لیکن جب فکر و گہرائی ان سے چھین لی جاتی ہے تو اس وقت وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
’’آپ کہہ دیجئے، مشاہدہ کرو جو کچھ کہ آسمانوں اور زمین میں ہے۔۔۔۔۔۔کیا تم مشاہدہ نہیں کرتے؟۔۔۔کیا تم غور و فکر نہیں کرتے؟۔۔۔کیا تم تدبیر نہیں کرتے؟۔۔۔خدا کی نظر میں بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں جو گونگے بہرے ہیں۔ (یعنی گونگے بہرے جیسی زندگی گزارتے ہیں) اور تدبر سے کام نہیں لیتے۔‘‘ (القرآن)
فطرت اور جبلّت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جبلّت میں ہمارا دوسری انواع مثلاً بھیڑ، گائے، بھینس، کتے، بلی وغیرہ کے ساتھ ذہنی اِشتراک ہے اور فطرت میں ہم اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ یہ مقام ہمیں ایک ہستی نے جو تمام انواع سے ماوراء ہے اور تمام افرادِ کائنات پر فضیلت رکھتی ہے، عطا کیا ہے اور یہ عطا ایک فاضل عقل یا تفکر کرنے کی صلاحیت ہے۔ روحانی سائنس کا طالب علم اپنے مشاہدے اور تجزیے کی بناء پر اس مقصد سے آشنا ہوتا ہے کہ کائنات میں عناصر کی ترتیب، ہم آہنگی، نظم، افادیت و مقصدیت کور چشم شعور کی کارفرمائی نہیں ہے۔ کوئی طاقت ہے، کوئی ہستی ہے جس کے حکم پر ازل تا ابد نظامِ حیات و کائنات قائم ہے۔
کائنات میں گھڑی بھر کا تفکر سال بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔ جن قوموں نے کائنات کے اجزائے ترکیبی یعنی افراد کائنات کی تخلیق پر غور کیا، وہ سرفراز ہوئیں اور جس قوم نے کائنات پر تفکر سے اپنا رشتہ منقطع کیا وہ اقوام عالَم میں مردہ قوم بن گئی۔ قرآن، سائنسی فارمولوں کی ایک دستاویز ہے۔ اس کی مقدّس آیات میں تفکر کیا جائے تو ہم خلائی تسخیر میں ایک ایسا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جہاں سائنس دان کھربوں ڈالر خرچ کر کے بھی نہیں پہنچ سکے ہیں۔ قرآنِ پاک کے ارشاد کے مطابق تسخیر کائنات ہمارا ورثہ ہے۔ قرآن کہتا ہے:
’’زمین و آسمان میں اہل ایمان کے لئے حقائق و بصائر موجود ہیں۔‘‘
یعنی اہل ایمان کی خصوصیت یہ ہے کہ زمین و آسمان کی حقیقتوں اور اس کے اندر موجود تخلیقات کے فارمولوں پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ ان کے مشاہدے کی طاقت کہکشانی نظاموں کی نقاب کشائی کرتی ہے۔ قرآن بار بار یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ نشانیاں ایمان والوں کے لئے ہیں۔ مفہوم یہ ہے کہ نشانیاں تو سب کے لئے ہیں مگر انسانوں میں صرف ایمان والے لوگ ہی اللہ کی نشانیوں، آیتوں اور حکمتوں پر غور و فکر کرتے ہیں۔ غفلت اور جہالت میں ڈوبے ہوئے لوگ جو جانوروں کی طرح جیتے ہیں، ضدی اور ہٹ دھرم جو ’’ مَیں نہ مانوں‘‘ کی زندہ متحرّک تصویر ہیں ان کے لئے اللہ کی نشانیوں کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 248 تا 250
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔